کالمز

رقصِ لیلیٰ بہ عکس لیلہ

تحریر: حاجی سرمیکی
عدم کیا ہے کہ نہ ہونے کا ہوناہے اور ہونے سے پھر نہ ہوناہو کے رہنازیست ہے۔اور عدم کو عدم میں رہ کر کوئی نہیں سمجھتا ،اس کو سمجھنے کے لئے زیست میں آنا ضروری ہوتا ہے ۔اورپھر زیست کوزیست میں رہ کر نہیں سمجھ سکتا اس کے لئے عدم میں جانا ضروری ہے۔زیست کاذائقہ ایسا ہے کہ ہر چند کو خوب لبھاتا ہے۔اس تھا ن پر کوئی اپنی منشاء سے نہیں پہنچتا مگر ہر کوئی حسب منشاء دعوت اڑانے کا اشتیاق رکھتا ہے ۔وجودِ آدم سے پہلے ہر شے زیست کی تابع تھی۔ مگر جب انسان کو تخلیق کیا تو زیست کو ان کے زیر نگین کردیا۔ یہ نکتہِ اولیٰ ملائیکہ کی شوریٰ میں معترض ٹھہرااور ملائیکہ نے رائے دی کہ یہ مخلوق زمین پرخون خرابے کا باعث بنے گی۔خیال تھاکہ کسی نوزائیدہ وناتجربہ کارمخلوق کو اس کی اوقات سے بڑھ کر حکمت دی جائے تو اس میں خطا وجفا کا قوی احتمال ہوتاہے۔پر ملائکہ کا وہ علم کچھ نہ جاننے کے مصداق ٹھہرایا اور پھر یہ عیاں کردیاکہ اگر کہ مخلوق کو ذاتِ حکیم العظیم کی حمایت حاصل ہو توحکمت خطا کو مات دے دیتی ہے۔تب یہ وعدہ ہوا کہ اس نوع ِ نوخیز کے بارے میں میں(خود خدا) جانتا ہوں تم(ملائک) نہیں جانتے ۔ پھر زیست وزمین میں فاصلے تھے کہ انسان سے خطا سرزد ہوئی۔بس ایک لمحے کے لئے حکمت کے استعمال میں حکیم العظیم کو بھلا بیٹھے ۔ کیا ہونا تھا کہ حکیم کی منشاء سے اہل حکمت محکوم و محروم ٹھہرے اور بیچ میں فاصلے یوں بڑھے کہ حکمت تک مکرررسائی کے لئے ریاضت ومجاھدے کی ضرورت پیش آئی اورزیست بھر کی کوششیں صرف حکیم تک راہ بنانے میں صرف ہونے لگیں۔ ظاہری سی بات تھی کہ حکیم العظیم اور اہل حکمت کے درمیان خلاء کے بڑھنے اورسرزنش نہ ہونے سے ہدایت کا سلسلہ کمزور ہوا اور ناتجربہ کاری بہت خطرناک صورت اختیار کرگئی۔یوں حسنِ زیست کی خاطر قتلِ زیست درپیش ہوئی۔پھرحُسن کی صورت میں حکمت کی ایک سوکن وجود میں آئی اور حسن نے زیست کی تلاشِ حکمت کی راہوں میں روڑے ڈالنے شروع کر دیئے۔ حکمت اور حسن تھا کہ ان کی کبھی بھی نہ بن پائی۔ کبھی صاحبِ سلطنت کی حکمت حسنِ کنیز سے اور کبھی حسنِ ملکہ حکمتِ غلماں سے ستیزہ کار رہا۔اس داو پیچ میں کبھی زیست حاوی ہوجاتی تو کبھی حسن معرکہ سر کرجاتا،یوں حسن کے ہاتھوں بارہا حکمت کا پشتی دامن تارتار ہوا۔ کبھی حسن نے شہنشائی پائی تو کبھی حکمت نے تختہ تاراج کیا۔البتہ جو بھی ہر دو سے بد دل ہوجاتے وہ جوگی بن بن دھونی رماتے پھرتے۔ بعد ازاں جوگیوں نے ان دو کا توڑ نکالا اور زیست و حسن کو فطرت سے نکال پھینکا اور دوبارہ سے زیست کو حکمت میں اور حسن کو فطرت میں تلاشنے کی کوششیں شروع کردیں۔ ان کی نظر میں حسنِ فطرت حسن انسان سے زیادہ نمائیاں مقام رکھتاتھا۔ وہ بارش، ہوائیں، پربت ، ریگستان اور دریا و سمندر کو حکمت کا سرچشمہ ماننے لگے۔ ان کی بڑھائی یوں شروع کردی کہ انہی کے پوت سے قوانینِ جمالِ فطرت سے متاثرہ مذاہب تک وجود میں لائے گئے اور انسانوں میں خدا،خیال اور ذمین تک بٹنے لگے ۔یوں حکیم العظیم کی تلاش کے نئے باب کھلتے گئے۔ اب اس میدان میں حسن و حکمت کے تقابل میں فطرت اور اس کے اسرار و رموز نے بھی بے پائیاں مقام حاصل کیئے۔اورجب شعورِ انسان نے فطرت کے اصولوں کو زیست کی تبدیلیوں میں ڈھالنا سیکھا تو فلسفے کے علم نے جنم لیا۔قانون فطرت میں وہ طاقت ، ہیبت اور تب و تاب دیکھاکہ حسن و حکمتِ انسان ہیچ لگنے لگا اور حسنِ انسان کی خاطر قتلِ زیست سے شروع ہونے والی اس کہانی نے ایک نیا موڑ اختیا ر کیا۔ جوگی فطرت کے اور انسان جوگیوں کے پیچھے رقصاں رقصاں گھومنے لگا اور فطرت بطرزِجبلت حکیم العظیم کی منشاء کے گرد گھومنے پر مجبور تھی۔ فلسفی اتنے طاقتوربن گئے کہ انسانی ذہن پر غلبہ پایا اور خیالِ خام کے مالک انہیں حکمت کا سرچشمہ و منبع تصور کرنے لگے۔دوسری طرف جوگیوں نے قانون فطرت کے اشارات کو حکیم العظیم کی بہ نسبت قوی و حتمی تصور کرتے ہوئے انہی اشارات کی پوجا پاٹ شروع کردی۔ اب کے بار اشارات کی حقیقت کے تعین اور اس کے مطابق اشارات کو حکمت والی ذات کا تصور قرار دینے کے لیئے زیست کی پامالی کے خونیں سلسلے امڈ آئے۔ کوئی راہ چاہیئے تھی کہ اصل حکمت کی طرف ان بھولے بھٹکوں کو راغب کردیں ۔ تویوں حکیم العظیم کی ذات سے قربت رکھنے والے انسانوں کی طرح کے منتخب لوگ ، ہماو عنقاکا عِلم لے کر اتر آئے اور ان بھولے ہوؤں کی ہدایت کا سامان کردیئے۔ مگر ستم ظریفی یہ کہ ان حکمت سے بھرپور شخصیات کو بھی انسان کی ہٹ دھرمی اور انانیت و خودپسندی نے بہت اذیتیں پہنچائی۔ یہ سلسلہ ء رشد و ہدایت جاری و ساری رہا یہاں تک کہ انسان نے دوبارہ علم کی وساطت سیحکمت کا دامن تھام لیا۔تب عین آزمائش تھی کہ انسانوں پر یہ راستے دوبارہ سے بند ہوگئے اور انہیں علم کے زریعے سے حکمت اورمحکم کتب و شخصیات کے ذریعے حکیم العظیم تک پہنچنے کا کٹھن مرحلہ درپیش ہوا۔ اب علم ، جوگی اور قوانین فطرت کے مابین ایک کشمکش چل گئی۔ قرونِ اولیٰ میں انسان علم سے عاری تھامگر حکمت سے لیس تھا، جو انہوں نے تلخ تجربات کی بنیاد پر حاصل کی تھی۔ مگر اب ان کے پاس علم ہے جسے حکمت میں بدلنے کے لئے عملی مشق و مظاہرے یعنی تجربے کے عمل سے گزارنا پڑے گا وگرنہ یہ تصورات صرف اور صرف غیر مستعمل ترکیبیں ہی بن کر رہ جائیں گی۔مگر اس بار حکمت، حسن اورزیست کے بیچ صلح کرنے اور حکمت کے راستے تلاشنے کے لئے جس سلسلے نے رواج پکڑا وہ علم و ادب کا تھا۔جوحکیم العظیم کی طرف سے فراہم کردہ اشارات، تصورات اور معلومات کا پر چار کرنے کے لئے وجود میں آیا۔ باشعور افراد نے شعور کو شاعری کے حوالے کئے۔ دیگر لکھاری علم کو تجربے کی بھٹی میں پکا کر حکمت کی شکل میں ڈھالنے لگے۔ اب حسن ، زیست اورفطرت کے حوالے سے حکمت سے بھر پورطرزبیاں علم وادب کہلانے لگا۔یہاں روزمرہ گھریلو تجربات سے ڈرامے، افسانے بنے لگے، سلطنت و حکومت کے مدوجزر سے ترانے اور رپورتاژ، سیر و سیاحت اور فطرت کی منظر کشی سے سفر نامے ، ذاتی علم و دانش سے سوانح عمری، سرگزشت اور حسن فطرت، شوخ جذبات ، اور احساسات کے شعورِ کمال سے شاعری کی آنکھیں پھوٹ پڑیں۔ اس طرز بیان اوران تصورات نے انسان کو علم ،فلسفہ اور سائنس کی روشنی میں حکیم العظیم کی پہچان، حکمت و دانائی ، فطرت اور نظامِ دنیا اور اس کے سرچشمے کی پہچان سکھائی۔اس نے زیست کوانسان کے تابع رکھنے اور مشرف بہ حکمت انسان کو حکیم العظیم کے تابع و مقرب رکھنے کے لئے ذہنوں کے دریچے کھول دیئے۔ انسانوں کی ترقی و ترغیب کی جانب رہنمائی کا ایک اچھوتا راستہ نکالا۔انسان نے تصورات کو عمل میں بدلنے کا کام شروع کیا ۔ عملی سرگرمیوں کو تجربات کی بنیاد پر پرکھنا شروع کیا۔ تصورات سے تصاویر اور تصاویر سے مطمعہ نظر پیدا کئے۔ یوں حکمت اتنی چھوٹی شاخوں میں پھیل گئی۔ جیسے ریت کے ذرات سے بنی ٹیکری کو کسی طوفانی ہوا نے گوشہ گوشہ بکھیر کر رکھ دی ہو۔ ہر ذرے ذرے میں ایک نئی زیست کا وجود ملا ۔ اب ان میں سے ہر ہر شعبے پر سیر حاصل گفتگو حدودِ قرطاس سے بالاومبریٰ ہے۔بہر طورفطرت،زیست اور حکمت کے بیان میں باشعور افراد نے نام کمائے ، چونکہ اس دور میں خرد دَھن کے عادی نہ تھی اس لئے اسی کمائی پر مطمعن ہو جاتی تھی۔وہی اس خاص شعبے علم و ادب کی عروج کا دور تھا۔اسی کمال شعور سے وہ انسان شاعر کہلانے لگا۔ یعنی با الفاظ دیگر فردِ ذی شعور۔یوں فطرتاًہرانسان کسی نہ کسی حد تک شاعر ہوا۔ اس شعبے میں اسی خاص گروہ نے لوگوں کو اپنا ایسا گرویدہ بنا ڈالا کہ یہ گروہ آج تک شاعر یعنی فردِذی شعور کے نام سے جا ننے ماننے لگے۔شاعری آغاز میں ہی بمثلِ خوِ نسلِ آدم بھٹک کر جب حکمت زیست سے حسنِ زیست کی طرف راغب ہوئی تو شاعری بھی عام طور شرفاء کو شجر ممنوعہ سا لگنے لگا۔ دیگر شعبہ ہائے ادب کے برعکس شاعری علم کی بجائے حکمت و تجربے کی بنیاد پر فروغ پائی۔وہ حکمت ما بعد تجربہ” آمد ہونا”سے شہرت پائی۔حالانکہ وہ ایک وجدانی کیفیت کا نام تھا۔ پرانے شعراء جن کی ذہنی پرورش دامنِ مدارس کی بجائے فطرت کی گود میں ہوئی ، وہ اپنی شاعری میں سہل و سلیس فلسفہ و حکمت کا بارِشیریں لے آئے۔ان کی شاعری میں زماں و مکاں کے وہ اسرارِ نہاں پائے جاتے ہیں کہ انسان فطرت کا عاشق ہوجاتا ہے۔ ان کی شاعری میں خاموشی کے دُھن پر مور ناچتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان کا فطرت سے بے دخل رہنا انسانیت کی اصل معراج تھی۔ وہ فطرت کی آوازوں کی لے پر ، جھرنوں، لہروں اور جھونکوں کی صداؤں سے دلربا موسیقی سناکرتے تھے۔ ان کے ہاں ابھی زیست کے رنگوں میں ملاوٹ نہیں ہوئی تھی، تتلی، دھنک ، کلیاں اور چرخ نیل فام کے اپنے رنگ تھے۔ لیلی ٰ، سمن، چنبیلی اور یاسمین انسان نہیں بلکہ پھول تھے۔رنگِ َ دھنک اوڑھنی اور دوپٹوں میں ڈھلی نہیں تھی۔ لیلیٰ گلشن نواز تھی ۔ ابھی ان کے نازک پیروں میں زنجیر ڈھلی نہیں تھی اور محفل محفل رقصاں نہیں تھی۔ اس کے بعد مدارس کے تعلیم یافتہ شعراء کا دور آیا ۔ شاعری شعورسے اور شعوراپنے محورسے کھسکنے لگا۔ انسانی سوچ کی پیروی میں شاعری بھی زینت زیست کی تابع ہوچلی۔ یوں زیست کی بزرگی کے ساتھ ساتھ شاعری کی ضعیفی بڑھتی گئی۔ پھر شاعری انسان سے یوں پیچھے رہ گئی کہ اس میں یادِماضی جیساایک عذاب جبکہ فکر مستقبل صرف ایک سراب کی صورت باقی رہ گئی۔فطری اصول کا پرندہ شاعری کے پنجرے سے نکل کر پھڑپھڑاتا ہوا آسمانوں میں گم ہوگیا۔اور فی زمانہ اگر ان کا کوئی استعمال کہیں رہ بھی گیا تو صرف اور صرف انسانی خدوخال کے بیاں میں بطور استعارے اور تشبیہات و تلمیہات کی حد تک ۔ اچھے شاعر، فلسفی شاعر خودبنتے نہیں بلکہ فکر انہیں جنم دیتی ہے۔ حافظ ، رومی ، سعدی ، شاہ بھٹائی ، بابا بھلے شاہ اور شمس تبریزجیسے لوگ وقت کی پیداوارنہیں تھے اور جس طرح کی شاعری کرتے تھے اس میں کسی فرقے ، نسل اور صورت کا پرچارکہیں نہیں ملتاہے۔ ایسے شعراء کسی کی رنگ و روپ کی بجائے فطرت کے تقاضوں اور ان میں نہاں اسرارو روموز سے بیحد متاثر تھے۔ ان کی شاعری میں انسانوں کو اپنے مقصد حیات سے بے بہرہ ہونے پرتنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس کے بعد میر اور غالب اور ان کے ہم عصروں کی بات کی جائے تو ان کا محور و مرکز حسنِ وزیست ہے ۔ انہوں نے اس پہلو کو اتنا اجاگر کیا جتنا اولذکر شعراء نے فلسفہ اور حکمت کو۔ غالب بھی شاعری میں اس اداکو خوب جانتے تھے تبھی وہ کہتے ہیں ۔
یہ مسائلِ تصوف ، یہ تیرا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
غالب کی شاعری کااصل گاڑھا پن زیست کی وہ اصل پہلو ہے جو اس کی اپنی سادہ دلی و تنگ دستی میں پنہاں ہے جو اسے فطرت کے عین نزدیک لے جاتا ہے۔ یوں فطری خصلتیں اس میں یوں سرایت کر گئیں کہ اس سے کسی بھی مومن و مشرک کویوں کوئی گزند نہیں پہنچا کہ جس سے دیگر کسی کا حرج ہوتا ہو ۔ ممکن ہے کہ اسی شعر میں غالب نے اپنے اسی خیال کا احاطہ کیا ہو۔ اس کے بعد جس شاعر کا نام آتا ہے وہ اقبال ؒ کاہے کہ جس نے فلسفہ ،حکمت (عقیدہ )اور سائنس کے متوازن شاہکار پیش کیئے کہ انہوں نے شاعری میں بہت اونچا مقام حاصل کیا ۔ جو بہ نسبت ان کے دیگر ایسے شعراء کو نصیب نہ ہوسکی کہ جن کے خیالات کے حامی لوگوں کی تعداد اقبال سے زیادہ تھی یعنی ان شعراء کی شاعری کا محور و مرکز زیست اورزینت ہونے کے باوجود بھی اتنی شہرت پانے سے محروم رہے۔آخر اقبالؒ جیسے شعراء پھر کیوں نہیں آتے؟ میر،غالب، جوش، فیض اور جالب جیسے شعراء بھی برسوں بعد کیوں بنتے ہیں؟بس اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے شعراء وقت کی پیداوارنہیں ۔انہوں نے وقت کو خرد کا غلام کردیا۔ ان کی دانشمندی، حلم اور اعلیٰ شعور کو وہ علمی ماحول مل جاتا ہے کہ ان کا فن نکھر جاتا ہے۔ ورنہ ان کی مثال بے موسمی تخم پاشی کی سی ہوجاتی ہے یعنی بوائی کا طریق یکساں ہونے کے باوجود وہ بیج ثمر بار نہیں ہوتا۔انسان یوں فطرت اور حکمت سے عاری ہوتا جائے گا اور وہ قوانین فطرت کے بیچ ایسے رخنہ انداز ہوگا کہ فطرت اسے اپنے اوپر ایک بوجھ تصور کرے گی۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ جب انسان زیست و زینت میں یوں گھم سم ہوجائے گا کہ فطرت کے تقاضوں کی کوئی فکر باقی نہیں رہے گی۔ انسان اپنی زندگی کے لئے دوسروں سے جینے کا حق چھین لے گا ایسے میں ذی شعور افراد پھر سے آزمائش میں ڈالے جائیں گے۔ یوں شعور سے شاعر کو شعر نکالنے کا ایک کٹھن مرحلہ درپیش ہوگا اور اصل امتحان تو یہ ہوگا کہ وہ نرگس، چنبیلی اور سمن کو انسانوں کی بستی سے دوبارہ گلشن میں کیسے لے کر جائیں اور زینت محفل لیلیٰ کو زینتِ چمن کیسے بنائیں ۔ آبلہ پا لیلیٰ کے پاؤں سے زنجیر کھول کر اسے آزاد فضاؤں میں پھر سے رنگ و بوکیسے بکھیرنے دیں ۔مگر ایسا نہیں ہوگا۔ چمپا ،چنبیلی، نرگس اور لیلیٰ کو انسان روندتے پھریں گے، خود مالی گلشن میں گل چیں کی دعوت کا اہتمام کرے گا۔ ایسے میں فطرت مجبور ہوجائے گی۔ دوبارہ سے ملائیک کو تشویش ہوگی اور دوبارہ سے قدرت اپنا وعدہ نبھائے گی ۔وہ وعدہ کہ جو حکمت کی عطا کا تھا ۔پھر آئے گا کوئی ہادی ،پھر وہ حکمت ودانش کو فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ڈھال دے گا اور شعور کو جِلا بخشے گا ۔ تب گلِ لیلیٰ الفہ لیلہ کے عکس ظلمات سے نکل کر چمن کے رنگ وبُو میں محوِرقصاں ہوجائے گی۔ تب عین لازم ہے کہ روزِ ازل کا وہ وعدہ سب دیکھیں گے۔ہم بھی دیکھیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button