کالمز

بھارت میں بے قابو ہوتا ہوا ہندو انتہا پسندی کا جن

عثمان حیدر

بھارت میں ہندو انتہا پسندی کا جادو سر چڑہ کر بول رہا ہے ہر طرف اس انتہا پسندی نے بربادی پھیلا رکھی ہے نہ مسلمان محفوظ نہ عیسائی محفوظ نہ سکھ محفوظ اور نہ نچلی زات کا ہندو محفوظ ہر عام شہری اپنے آپ کو غیر محفوط تسور کرتا ہے ،پورا معاشرہ انتہا پسندی کی ضد میں آکر ٹوت پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے ہر طرف بے چینی اور انارکی کے ڈیرے ہیں سکیولزم کے خوبصورت لبادے میں بھارت جو اپنی شناخت دنیا میں کراتا ہے اس کا بھرم اب دنیا کے سامنے واضح ہو چکا ہے دنیا بھر کے آزاد ماہرین اور میڈیا کی رپوٹیں اس بات پر آرہی ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے ۔

غیر ملکی ریسرچ انسٹیٹیوٹ پیو کی جانب سے جاری سروے کے مطابق مذہبی انتہا پسندی میں بھارت چوتھے نمبر پر ہے، جب کہ جاری کردہ فہرست میں شام کا نمبر پہلا ہے۔رپورٹ کیمطابق اپنے آپ کو دنیا بھر میں سیکولر ریاست کے طور پر تشبیہ دینے والے بھارت میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، جہاں گائے کے گوشت کو لے کر اب تک کئی افراد کو بیدردی اور درندگی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔

پیو ریسرچ سینٹر کے سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت میں 2015ء میں انتہا پسند ہندوں کی طرف سے گائے ذبح کرنے اور مسلمانوں پر حملوں کے متعدد واقعات پیش آئے۔رپورٹ کے مطابق زیادہ تر بھارتی حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں کا اثر دیگر مذاہب سے منسلک افراد پر پڑا۔ پیو ریسرچ سیٹر کی جانب سے اس رپورٹ کو عورتوں پر ظلم و ستم، فرقہ وارانہ تشدد، مذہبی منافرقت اور سماج دشمنی جیسے عناصر کو بنیاد بنا کر مرتب کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق مذہب کے نام پر تشدد پھیلانے میں شام سرفہرست، نائیجیریا دوسرے اور عراق تیسرے اور بھارت چوتھے نمبر پر ہے۔ واضح رہے کہ پیو ریسرچ سینٹر ایک آزاد تنظیم ہے، جس میں آزادہ طور پر ووٹنگ ہوتی ہیں اور رپورٹس مرتب کی جاتی ہیں۔ یہ تنظیم 2009ء سے ہر سال گلوبل رسٹرکشن آن رلیجن نام سے ایک رپورٹ جاری کرتی ہے۔

1925 سے بھارت میں انتہا پسندی ابتدا ہوئی اسی سال آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) کی بنیاد رکھی گئی اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں صرف ہندوؤں کا حق ہے۔ ہندو تہذیب، ثقافت، لباس،رسم ورواج سب کچھ ہندوستان میں ہندو دھرم کے تناظر میں ہونا چاہئے۔ جو بھی ہندو اپنا دھرم چھوڑ کو مسیحت یا اسلام قبول کر چکا ہے اُس کو گھر واپس لایا جائے گا۔اس تحریک کو شہرت اس وقت ملی جب 30 جنوری 1948 کو اسی تنظیم کے کچھ ارکان نے مہاتما گاندھی کے سیکولر بھارت کو مسترد کر کے گاندھی کو قتل کر دیا. گاندھی کے قتل کے جرم میں نتھو رام گوڈسے کو سزائے موت ہوئی گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس سے تھا۔ اس واقعے کے بعدآر ایس ایس پر پاپندی لگ گئی لیکن آر ایس ایس کے نظریات نے بہت سی انتہا پسند تنظیموں کو جنم دیا جن میں وشوا ہندو پرشید، بجرنگ دل، راشٹریہ سیوک سنگھ، ہندو سویام سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی قابل زکر ہیں بھارتیہ جنتا پارٹی 1951 میں بھارتیہ جانا سنگھ کے نام سے وجود میں آئی۔ جو 1977 میں جنتا پارٹی بن گئی۔ اسی طرح وشوا ہندو پرشید کا آغاز 1964 میں ہوا انتہا پسند بجرنگ دل دراصل اسی جماعت کا طلبہ ونگ ہے۔ یہ تمام انتہا پسند اور شدت پسند تنظیمیں سنگھ پریوار (ایک خاندان) کہلاتی ہیں جو آر ایس ایس کا حصہ ہیں۔

نومبر 1984 میں تقریبا 3000 کے قریب سکھوں کو قتل کر دیا گیا۔ ان واقعات کے بعد ایک ملین کے قریب سکھ ہندوستان چھوڑ کر یورپ، برطانیہ، کینڈا اور امریکہ آباد ہوگئے۔ وشوا ہندو پرشید 249 بجرنگ دل،شیو سینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مل کر بابری مسجد کے خلاف تحریک چلائی اور اسے مسمار دیا گیا اور اس کی جگہ پر رام مندر بنانے کا اعلان کر دیا.اس دوران تقریبا 1200 مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ 2002 میں گجرات میں ایک ٹرین سازش کی گء جس میں چند ہندؤں کو جلانے کے الزام میں تقریبا ایک ہزار مسلمانوں کا قتل کر دیا گیا زیادہ تر کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس وقت گجرات کے وزیراعلی آج کے وزیراعظم نریندر مودی تھے۔

ہندو انتہا پسندوں کا حدف صرف مسلمان اور سکھ نہیں نچلی زات کے ہندو اور مسیحی بھی نشانے پر ہیں مدھیہ پردیش، کیرالہ، کرناٹکہ، اوڑیسہ، گجرات میں مسیحیوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔ وشواہندو پریشد کے غنڈے مسیحی آبادیوں پر حملے کر رہئے ہیں اور چرچز اور مسیحیوں کی املاک کو تباہ کر رہے ہیں مگر کوء ان کو روکنے والا نہی ہے۔ سنہ 2014 میں عین کرسمس کے دن کھرگون، کھنڈوا، اور ہرہانپور کے مسیحیوں پر منظم حملے کئے گئے ۔کشمیری مسلمانوں کا قتل عام ساری دنیا دیکھ رہی ہے مگر پوری دنیا کے ممالک نے آنکھیں بند کیں ہیں۔ مودی حکومت کے چند سالوں میں مذہبیتفریق اس قدر بڑھ چکی ہے جو پہلے کبھی نہ تھی۔ مسلمانوں کے طلاق کے مسئلے میں ہندوؤں کی مداخلت بڑھ گئی ہے اور اب گائے کا ماں مان کر مسلمانوں کو قتل کرنے کا بہانہ تلاش کر لیا گیا ہے۔

دنیا بھر کے امن پسند ممالک ،تنظیمیں اور دانشور اس بات کا بھر ملا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی صرف اس خطے کیلئے خطرہ نہیں بلکہ اگر اس دہشت گردی اور انتہا پسندی کو نہ روکا گیا تو دنیا کا امن خطرے میں پڑہ سکتا ہے دنیا بھر میں تو انتہا پسند جماعتوں پر پاپندی لگا کر امن کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی انتہا پسند جماعت بر سر اقتدار ہے اور اسی جماعت کے رہنما جنہیں گجرات کے قصائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ بھارت کے وزیر اعظم ہیں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بھارت اس وقت مکمل انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں جا چکا ہے اور بھارت کا سیکولرزم کا چہرہ مسخ ہو چکا ہے حیرت ہے کہ پوری دنیا کو پرامن بنانے کی جدو جہد کا دعوی کرنے والا ملک امریکہ جس نے کل تک تو نریندر مودی کو اس کی انتہا پسندی کی بنا پر امریکہ کا ویزا دینے سے ینکار کیا تھا آج وہی امریکہ بھارت کے کہنے پر کشمیر میں آزادی کے جدو جہد کرنے والے فریڈم فائٹر سید صلاح الدین کو دہشت قرار دیتا ہے اگر یہ دوہرا معیار قائم رہا تو کوئی بعید نہیں کہ پوری دنیا بھارتی ہندو انتہا پسندی کی آگ کی لپیٹ میں آکر بھسم ہو جائے لہذا دنیا کا امن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے جن کو بوتل میں بند کیا جائے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button