کالمز

مغوی بچے کی ماں کو سلام، سکردو پولیس کو آفرین

سکردو کی فضاء سوگوار تھی۔ شہر کی مٹی اور گرد و غبار اندھی کی صورت میں پہاڑی چوٹیوں سے ابھرنے والی تازہ دم ہواؤں کے آغوش میں زیرگردش تھیں۔ لوگوں کے چہروں پر اضطراب کے اثار نمایاں تھے۔ ماؤں بہنوں کی آنکھیں سے پریشانی جھلک رہی تھی۔ صحافی دوست موبائل فون پر محو گفتگو تھے۔ ہر طرف کھسر پھسر چل رہی تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔

شام کے وقت دیکھا تو پولیس کی وردی میں چند مرد و خواتین بے دھڑک انداز میں ہوٹل کے استقبالیہ پر نمودار ہوئے۔ پوچھ گچھ شروع ہوئی کہ کوئی برقعہ پوش خاتون سکردو کے ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال سے شیرخوار بچہ لئے فرار ہوگئی ہے۔ کہیں وہ ہوٹل ہذا کی مہمان تو نہیں ٹھہری؟

پولیس اہلکاروں کے منہ سے یہ الفاظ سن کر ریستوران میں موجود مہمانوں کا ہجوم بھی دنگ رہ گیا۔ سب کو واقعے کی صداقت پر شبہ تھا۔ ایک بلتی دوست جذبات میں آکر پولیس پر برس پڑا کہ سکردو سے کسی بچے کے اغوا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معصوم شہریوں کو بلا جواز تنگ کرنا پولیس کی روایت بن چکی ہے۔ مقصد کچھ اور ہوگا بہانہ بچے کا اغوا، وغیرہ۔

ایک صحافی دوست اسے ٹوکتے ہوئے بول اٹھا جناب خبر درست ہے۔ ہم صبح سے اس واقعے کی تحقیقات میں سرگرداں ہیں۔ مختلف ذرائع سے خبر کی تصدیق بھی کی جا چکی ہے۔

کچھ دیر بعد پولیس روایتی کارروائی کر کے ہوٹل سے رخصت ہونے پر مغوی بچے کی کہانی مباحثے کی صورت میں گونج اٹھی۔ ہوٹل میں رہائش پذیر ملکی سیاح بھی ٹولیوں میں اسی موضوع پر ہی سرگوشی میں مگن نظر آئے۔ ہر کوئی اس واقعے پر تشویش میں مبتلا تھا۔ اجتماعی طور پر واقعہ کی مذمت ہو رہی تھی۔ لیکن آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی کے مصداق بچے کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔

اسی روز ہمار ا ارادہ یہ تھا کہ رات کو اسلام آباد سے آئے ہوئے مہمانوں کا سکردو کے دیوان خاص ہوٹل کے مشہور دیسی سوپ (بلے) سے تواضع کیا جائے۔ لیکن شیرخوار بچے کی اغوا سے پہنچنے والے صدمے نے رات کا کھانا ہی بھلا دیا۔

سوچا کمرے میں جا کر آرام کی نیند سو جاؤں مگر نیند بھلا کیسے آجاتی، ذہن پر طرح طرح کے سوالات سوار ہو رہے تھے۔ ایک طرف مغوی بچے کے والدین پر پہاڑ کی طرح ٹوٹنے والی آفت کا سوچ کر کلیجامسوس کر رہ جاتا، تو دوسری طرف مبینہ اغوا کار خاتون کی ہمت پر حیرت، جو ایک جنگلی درندے کی طرح پلک جھپکنے میں کسی اجنبی بچے کو گلے لگائے راہ فرار اختیار کر گئی تھی ۔ وہ بھی ایک ڈرامائی انداز میں بڑی ہمدردیاں جتاتے ہوئے۔

کیا مقاصد ہوسکتے تھے اس ڈرامائی حرکت کے پیچھے؟ وہی سیدھے سادھے دو مقاصد ناں؟ یا تو مبینہ اغواکار بے اولاد ہوسکتی ہے جو اولاد کی پیاس بجھانے کی خاطر عقل کی اندھی ہوگئی۔ یا پھر اغوا برائے تاوان کی نیت۔ ان مقاصد سے بھی کچھ سوالات جنم لے سکتے ہیں۔ کیا اولاد کی کمی دور کرنے کی خاطر کسی ماں کا گود اُجاڑنا کوئی مناسب حرکت تھی؟ کیا دنیا میں اولاد کی نعمت سے محروم کوئی خدا کا بندہ نہیں؟

دس جولائی کی یہ تاریک رات میرے لئے حیرت اور پریشانی سے بھرپور رہی۔ خبر کی تصدیق کے باوجود گمان نہیں ہو رہا تھا سکردو جیسے مہذب اور پرُسکون شہر سے ایک معصوم بچے کا اغوا بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا علاقہ جہاں کے باسی اخلاص اور محبتیں بانٹنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ہوں۔ جہاں انسان تو کیا کسی حشرات الارض کا بھی خونِ ناحق نہیں بہایا گیا ہو۔ جہاں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں پنپ رہی ہوں اور دکھوں کا سایہ قریب سے بھی نہ گزرتی ہو۔ جہاں پر آئے روز ادبی و ثقافتی محافل سج رہی ہوں۔ جہاں چوری چکاری اور معاشرتی جرائم کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہو۔ جہاں ہر طرف امن و سلامتی کی صدائیں گونج رہی ہوں۔ جہاں علاقائی روایات کی پاسداری کے بینرز آویزاں کئے جا چکے ہوں ۔

سب سے بڑھ کر جہاں کے عوام اپنے اجتماعی مفاد کے حصول کی خاطر ایک ہی لڑی میں پیروئے جا چکے ہوں۔ تو ایسے علاقے سے ایک معصوم بچے کا اغوا ہونا یقیناً کوئی غیر معمولی اور اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہی ہو سکتا ہے۔ ایسے واقعات پر فضاء کی سوگواری تو کیا عرش سے خونی برسات بھی ہو تو میرے حساب سے کم ہے۔

گوکہ بڑے شہروں میں اس طرح کے واقعات کی خبریں وقتاً فوقتاً سننے کو مل جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ گلگت شہر کے لئے بھی یہ کوئی نیا واقعہ نہیں۔ یہاں کسی ماں کے گود سے اس کے لختِ جگر کو لے اڑانے کا کوئی واقعہ تو مجھے یاد نہیں۔ تاہم اس سے ملتے جلتے چند واقعات ہمیشہ کے لئے ذہن میں نقش ہیں۔

کیا کوئی بھلا سکتا ہے چند سال قبل مجینی محلہ گلگت سے تعلق رکھنے والے ننھے حسنین کے ساتھ پیش آنے والا وہ اندوہناک واقعہ ، جسے زندگی کی چند ہی بہاریں دیکھنا نصیب ہوئیں۔ پھر ایک روز وہ جنسی ہوس کے بھوکے درندوں کے ہاتھوں انتہائی بے دردی کے ساتھ ابدی نیند میں چلا گیا۔

کیا کسی کو پبلک سکول کے معلم کے فرزند معاویہ مجیر کے ساتھ پیش آنے والا شرمناک واقعہ یاد نہیں۔ جسے دینی فرائض کی ادائیگی کے بعد مسجد کے دروازے سے اٹھا کر جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا گیا تھا۔

پھر کیا ہوا؟ وہی تو ہوا جو اس ملک میں ہو چلا آ رہا ہے۔ ملزمان پکڑے گئے، مقدمہ تھانے سے عدالت منتقل ہوا، کچھ وکلاء ملزمان کو بے قصور اور کچھ قصوروار ثابت کرانے کے مباحثوں میں پڑے رہے۔ کیس کی فائل ایک عدالت سے دوسری میں گردش کر تی رہی۔ کئی سال گزر جانے کے بعد فیصلہ آنے تک والدین کی آنکھوں پر بینائی طاری ہوگئی۔

یہی کچھ ہوگا سکردو شہر سے اغوا ہونے والے بچے کے والدین کے ساتھ بھی۔ جن کا نہ کسی کے ساتھ زمین و جائیداد کا تنازعہ نہ کوئی ذاتی یا خاندانی چپقلش۔ بس ایک معصوم بچے کے اغوا کی کہانی غریب والدین کو کہاں سے کہاں گھما پھرائے گی۔ بچہ بھی اس عمر کا جو ابھی اپنی جگر ماں کا گود بھی پہچاننے کے قابل نہ بنا ہو۔ جسے کوئی اجنبی عورت برقے کے نیچے چھپائے لے جا رہی ہو اور وہ مسکراہٹ بھری نگاہ سے اپنی ماں کی ممتا کا منتظر ہو۔

نہ جانے کیسے گزاری ہوگی اس ماں نے اپنے جگر گوشہ کی جدائی کے وہ پرکرب دن۔

تاہم شکر کی بات یہ کہ بالآخر بچہ بازیاب ہوا ۔ بچے کو بازیاب تو کرلیاگیا، امید ہے مبینہ ملزمہ کو قانون کے تحت سزا بھی ہوگی۔ مگر اس واقعے اور اس سے ملتے جلتے واقعات سے متعلق چند سوالات توجہ پھر بھی طلب ہیں۔

بچہ تو مل گیا مگر کون چُکائے گا اس جگر کی جدائی میں والدین پر گزری ان قیامت خیز لمحات کی قیمت؟ کون پوچھے گا اس ازیت ناک درد اور تکلیف کی خبر؟ کون روکے گا ان بھیانک معاشرتی مسائل کا سلسلہ؟ کون بچائے گا ان ننھے منھے بچوں کو ان درندہ صفت انسانوں کے ناپاک پنجوں سے؟ کون جلائے گا چراغ اس اندھیرنگری میں؟ کون سدھارے گا یہ بوسیدہ نظام؟ کون سمجھائے گا ان حکمرانوں کو بچوں کے حقوق سے متعلق وہ قوانین؟ کون عملدر آمد کروائے گا؟

یہ سب سوالات جواب طلب سہی مگر ایک بات سب کو تسلیم کرنی پڑے گی کہ مغوی بچے کی بازیابی گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت اور سکردو پولیس کے کاوشوں کے سبب ممکن ہو پائی۔

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کا شکریہ کہ انہوں نے بچے کے اغوا ہونے کا سخت نوٹس لیکر پولیس کو الرٹ کر دیا۔ سکردو پولیس کو آفرین کہ انہوں نے پوری محنت اور دیانتداری سے واقعہ کی تحقیقات کر کے مغوی بچے کا سراغ لگایا۔ سب سے بڑھ کر اس عظیم ماں کو سلام جس نے بچے کی جدائی کے ایام صبر و استقامت سے گزار دیئے!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button