کالمز
مایہ ناز ماہر تعلیم فدا حسین صاحب کی وفات، گلگت بلتستان کے لیے ایک قومی نقصان


گلگت بلتستان کے مایہ ناز ماہر تعلیم، بہترین مدرس اور فکر و عمل کی بلندیوں پر پرواز کرنے والے عظیم انسان اور ایجوکیشن کالج سکردو کے ہر دلعزیز معلم الاساتذہ جناب فدا حسین صاحب اپنی جوان عمری میں وفات پا چکے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون وہ ٹانسلز کے آپریش کے دوران ہوش میں نہ آنے کے باعث گلگت کے ایک نجی ہاسپتال "صحت فاونڈیشن” میں دوران علاج فوت ہوئے ہیں۔ اس موقع پر میں گلگت بلتستان کے صوبائی محکمہ صحت اور انتظامیہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کرے کہ ٹانسلز جیسے معمولی نوعیت کے آپریشن میں فدا حسین مرحوم کی موت کیسے واقع ہو گئی ، اس میں ہسپتال انتظامیہ اور متعلقہ ڈاکٹروں سے انکوائری کی جائے کہ کہاں کوتاہی ہوئی ہے ۔ اگر اس میں کسی کی نااہلی یا غفلت سامنے آئے تو ذمہ داروں کو اقدام قتل کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ اور ناہل اور غیر ذمہ دار ’’ڈاکٹروں ‘ کو لوگوں کی جانوں سے اس طرح کھیلنے کا موقع نہ دیا جائے۔

مرحوم سکردو شہر کے نیورنگا سے تعلق رکھتے تھے۔ مرحوم نے اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور سے انگریزی ادب میں ماسٹر جبکہ آغاخان یونی ورسٹی سمیت کئی قومی اور بین الاقوامی اداروں سے اعلی پیشہ وارانہ کورسز کیے تھے۔ وہ گلگگت بلتستان میں مختلف تعلیمی اداروں اور منصوبہ جات سے وابستہ رہے۔ میری ان سے ابتدائی ملاقات دو ہزار دس میں اسوہ کالج سکردو میں ہوئی تھی جب مجھےاسوہ ایجوکیشن سسٹم کے لیے ایک ایویلویشن پراجیکٹ پر کام کرنا تھا۔ اس وقت فدا حسین صاحب اسوہ ایجوکیشن سسٹم کے لیے فرینڈز ایجوکشنل اینڈ میڈیکل ٹرسٹ کی جانب سے بطور ایجوکیشن آفیسر کام کر رہے تھے۔ 2014میں ’’تعلیم کے ذریعے انتہاپسندی کا مقابلہ‘‘ کے عنوان سے دبئی میں منعقدہ ایک بین الاقوامی پروگرام میں شرکت کے لیے میں نے ان کا نام دیا تھا۔ جس میں دنیا کے متعدد ممالک کے ماہرین تعلیم بھی شامل تھے۔اس پروگرام میں انہوں نے پاکستان کے دیگر تعلیمی ماہرین کے ہمراہ شرکت کی، ان میں سے ایک عبد الولی خان یونی ورسٹی مردان کے شعبہ سماجی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر نیاز محمد صاحب بھی شامل تھے۔ پروفیسر نیاز محمد صاحب فدا حسین صاحب سے کافی متاثر ہو گئے تھے۔ انہوں نے میرے ساتھ کئی مرتبہ فدا حسین صاحب کی شرافت و قابلیت کا تذکرہ کیا۔
ستمبر 2016 میں ایک قومی کانفرنس میں خطاب کے سلسلے میں مجھے اسلام آباد سے ایک اعلی سطحی وفد کے ہمراہ قراقرم یونی ورسٹی گلگت جانا ہوا۔ دو روزہ کانفرنس کے بعد گلگت سے چھے گھنٹے کے سفر کے بعد جب سکردو پہنچا تو فدا حسین صاحب پہلے سے ہی بس ٹرمینل پر میرے پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ میزبانی کے لیے کوئی اور مجھے لے کر نہ جائے۔ ہمارا گاوں مادھوپور کہلاتا ہے جو تازہ بننے والے ضلع کھرمنگ میں سکردو شہر سے مشرق کی جانب ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر قراقرم و ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے درمیان دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ چونکہ سکردو شہر سے دیہاتوں کی طرف مخصوص مسافر گاڑیاں مخصوص اوقات میں نکلتی ہیں، اس لیے بے وقت شہر میں پہنچنے پر مسافرین کو قیام کرنا پڑتا ہے۔ سر فدا حسین مرحوم سے مدت بعد کی اس ملاقات میں ہم نے ساری رات سوئےبنا گزار دی، ہم جی بی میں تعلیمی نظام کے مسائل و رجحانات اور اصلاحات پر گفتگو میں محو رہے۔ سفر کی تھکن اور نیند کا خیال ہم دونوں کے ذہن سے ہی نکل گئے تھے۔ دسمبر ۲۰۱۶ میں ایک مہینے کے لیے مجھے اچانک سکردو جانا پڑا اس دوران ہم نے باہمی مشاورت سے کئی تعلیمی پروگرامات تشکیل دیے اور منعقد کیے۔ مختلف پرائیوٹ تعلیمی نظام اور منصوبہ جات کا حصہ رہنے کے بعد ۲۰۰۱۱ میں سرکاری محکمہ تعلیم کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔
