کالمز

مٹھائیوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

نواز شریف کے جانے پر مٹھائیاں تقسیم کرنے اور کھانے کا عمل جاری ہے ۔ نوے کی دہائی سے اب تک نوز شریف کے آنے جانے پر تین تین دفعہ اورکل ملا کر چھ دفعہ مٹھائیاں تقسیم اورکھائی جا چکی ہیں۔اس دفعہ ان کے جانے پر پھرمٹھائیوں کا دور چلا ہے جو کہ غالبا اگلے ایک ہفتے تک جاری رہے گا۔ پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے احباب کے لئے پاناما کا فیصلہ کوئی نیاء نہیں ہے مگر حیر ت ہے ان لوگوں پر جو ہر دفعہ مٹھائیاں کھا ئے جاتے ہیں مگر تھکتے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کو ذیابیطس کی بیماری لاحق ہوتی ہے۔ اس مقدمے کے آغاز سے اب تک متعدد با ر پی ٹی آئی اور کئی دفعہ پاکستان مسلم لیگ والے مٹھا ئیاں کھا چکے ہیں۔ آگے آنے والے وقت میں کون کون مٹھا ئی کھائے گا اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ہے ۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ضیاء کے بنائے گئے قوانین اٹھارویں ترمیم کے بعد دفن ہو گئے ہیں اور اٹھا ون ٹو بی کا خطرہ ان کے سروں سے ٹل گیا ہے ایسے لوگوں کو ہو ش کے ناخن لینے چاہیے ۔ ضیاء الحق نے کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں و ہ آئین کا آرٹیکل باسٹھ اور ترنسٹھ بھی چھوڑ کر گئے تھے جس کی بھینٹ آج پاکستان کا تیسرا منتخب وزیر اعظم چڑھ گیا چکا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اٹھا ون ٹو کی شکل ضرور بد ل گئی ہے مگر یہ آج بھی اسی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے جیسے ضیاء کے دور میں تھا۔

مٹھائیاں کھانے والوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی ہے۔ پاکستان میں اُس وقت سے مٹھائیاں بانٹی جاتی رہی ہیں جب قائد اعظم کی جگہ 14 اگست 1948 ؁ء کو خواجہ نظام الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل بن گئے تھے۔ پھر ان کوجب بر طرف کیا گیا تو مٹھائیاں کھائیں گئیں۔ تاریخ کا یہ سفر یوں ہی جاری رہا ہے قوم نے ہراستعفیٰ، برطرفی، نااہلی، معزولی ،رخصتی کے ساتھ ساتھ ہر آنے والے کی خوشی میں خوب مٹھائیاں تقسیم کیں اور پیٹ بھر کے کھائیں ہیں۔ پاکستان جب دو لخت ہوا تو بنگلہ دیشی آخری مٹھا ئی کھا کر ہم سے رخصت ہوگئے تھے ۔ ملک کے ایک مقبول ترین عوامی لیڈر ذولفقار علی بھٹو کو رخصت کرکے تختہ دار پر چڑھایا گیا تو سب سے زیادہ مٹھا ئیاں تقسیم ہوئیں تھیں مگر چشم فلک نے دیکھا کہ اس وقت مٹھا ئیاں کھانے والے لوگ بعد میں اپنی کم عقلی کا رونے روتے رہے ۔ ذولفقار علی بھٹو کا مقدمہ سننے والے ججوں پر مشتمل بنج کا ایک اہم رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے بھی اپنی عدالتی بد دیانتی اور مٹھائی تقسیم کرنے کی وجہ بننے پر میڈیا میں آکر معافی بھی مانگی تھی۔

پاکستان میں مٹھائیاں کھانے کی یہ روا یت یہاں نہیں رکی بلکہ بعد ازاں بے نظیر اور نوز شریف کی حکومتوں کو یکے بعد دیگر ے معزول کیا گیا تو مٹھائیاں بانٹی گئیں اور جب جنرل مشرف بر سر اقتدار آئے تو کئی روز تک مٹھا ئیاں کھائی جاتی رہیں۔

اس ملک میں مٹھائیاں تقسیم کرنے اور کھانے کی روایت پرانی ہے مگرمٹھا ئیاں کھانے والوں کے چہرے بدلتے رہتے ہیں ۔ جو گروپ اس دفعہ مٹھا ئیاں کھا رہا ہے ضروری نہیں اگلی دفعہ وہی گروپ مٹھائیاں کھائے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگلی دفعہ مخالف گروپ مٹھا ئیاں کھاتا ہوا نظر آتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے مشرف کے آنے کی خوشی میں مٹھائیاں کھانے والوں نے مشرف کے جانے کی خوشی میں مخالف گروپ کو مٹھائیاں کھاتے ہوئے دیکھا تھا۔ پھر زرداری کے آنے کی خوشی میں مٹھائیاں کھانے والوں نے ان کے جانے کی خوشی میں مخالف گروپ کو مٹھائیاں کھاتے ہوئے دیکھا۔ جن لوگوں نے یوسف رضا گیلانی کے جانے کی مٹھائی کھائی تھی آج وہ اپنے جانے پر مخالف گروپ کو مٹھائیاں کھاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

میاں برادران کا اقتدار سنھبالنے پر جن لوگوں نے مٹھائیاں کھائی گئی تھیں انہی لوگوں کو پاناما کیس میں جے آئی ٹی بنتے وقت مٹھا ئیاں کھاتے ہوئے دیکھا گیا تھا مگر آج ان کا مخالف گروپ مٹھا ئیاں کھا رہا ہے ۔ممکن ہے کہ کل کو میاں برادران پھر سے مٹھا ئیاں کھاتے ہوئے نظر آئیں اور اس کا مخالف گروپ کسی پاناما کیس سے ملتے جلتے واقعے پر صدمے سے دوچار ہو جائے۔ اس تمام کھیل تماشے میں اصل فائدہ مٹھا ئی بنانے والوں کا ہے جو چاہتے ہیں کہ عوام مٹھا ئیاں کھاتی رہیں اور ان کا دھندہ چلتا رہے۔مٹھائیوں کی تقسیم کا باعث بننے والے لوگ ہر دفعہ اپنا پتہ کھیل کر خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں اور مٹھائیاں کھانے والوں کی سادگی پر چاردیواری کے پیچھے بیٹھ کر خوب ہنستے رہتے ہیں۔ عوام ہر دفعہ مٹھائیاں کھاتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ اگلی دفعہ وہ غم مناتے ہونگے اور مخالف طبقہ مٹھا ئیاں کھا تا ہوگا۔ ہر مٹھا ئی کے بعد اگلی مٹھا ئیوں کی تقسیم تک کوئی تبدیلی آج تک رونما ء نہیں ہوئی ہے بس دو مٹھائیوں کی تقسیم کا درمیانی وقفہ اگلی مٹھائی کی امید میں گزر ہی جاتا ہے۔ مٹھا ئیاں کھاتے وقت عوام کا خیال ہوتا ہے کہ اس دفعہ ہماری مٹھائیاں ضرور رنگ لائیں گی مگر ایک دو روز مٹھا ئیوں کا دور چلتا ہے اور پھر زندگی معمول کے مطابق چلتی ہے۔ عوام کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ وہ دو مٹھائیوں کے درمیانی عرصے میں پچھلی مٹھائی کھانے کی وجہ بھول جاتے ہیں ۔ ان کے آگے مٹھا ئی ہوتی ہے اور ان کے دوہاتھ اور پیٹ ہوتا ہے۔

پیٹ میں مٹھائیاں ٹھونسنے والے یہ عوام اگر ہر مٹھا ئی کھانے سے پہلے تھوڈی دیر رک کر اپنی سوچ پر زور دیں تو ان کو اندازہ ہوگا کہ گذشتہ ستر سالوں میں محض مٹھا ئیاں کھانے کے انہوں نے کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کیا ہے۔ان کی کوئی بھی خوشی دیر پا ثابت نہیں ہوئی ہے۔ ہر مٹھا ئی ان کی امید کی علامت ہوتی ہے مگر حقیقت میں وہی مٹھائی ان کی تباہی کا پیش خیمہ بھی ہوتی ہے کیونکہ وہ مٹھائی کھانے کی غلط رویات کومزید پروھان چڑھاتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ملک کے دن بدلیں گے مگر وقت ثابت کرتا ہے کہ ان کی مٹھائی سے آج تک کچھ نہیں بدلا ہے ۔ ستر سالوں میں مٹھائیاں کھانے کا یہ عمل سینکڑں مرتبہ دہرایا گیا ہے مگر آج تک اس کا کوئی مثبت نتیجہ بر آمد نہیں ہوا ہے۔ دنیا کی سمجھدار قومیں مٹھا ئیوں کے فریب میں نہیں آتی ہیں وہ دھوکے کی مٹھائی اور اصلی مٹھائی کا فرق خوب جانتے ہیں ۔ اس لئے ایسی قومیں حقیقی تبدیلی کے لئے کام کرتی ہیں ہم صرف مٹھائی پر گزارا کرتے ہیں۔ اب ہم اکیسویں صدی میں بھی یہی کام کر رہے ہیں۔ مٹھائی بچوں کی پسندیدہ چیز ہے شاہد اس قوم میں بچوں کی خاصیت پائی جاتی ہے جو ہر تکلیف کے بعد مٹھائی کھا کر خوش ہو جاتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ تکلیف کے دن بدلے نہیں ہیں۔اس ملک میں اصل تبدیلی تب آئے گی جب یہ قوم مٹھائی کے فریب سے نکلے گی ۔ علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ ” مٹھائیوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں”۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button