بلاگزسیاحت

دامنِ راکاپوشی میں اربابِ ذوق کی خوش فعلیاں

شاہراہ قراقرم پر راکا پوشی ویو پوائنٹ کے پاس پہنچ گئے تو دوپہر ڈھلنے لگی تھی۔وہاں چمکتی دھوپ کے ساتھ ، زندگی کے رنگ روپ بھی پھیلے ہوئے تھے۔کشادہ سڑک پہ ایک دوسرے سے لگی ہوئی گاڑیاں کھڑی تھیں۔بائیں طرف کے سرسبز لان اور ریسٹورنٹ ، گرمی کی وجہ سے گُم سُم سے تھے۔جبکہ اس کے با لمقابل دائیں طرف زندگی جاگ رہی تھی۔اس طرف راکاپوشی کے دامن تک ،نالے کے ساتھ بھی اور ریسٹورنٹ کے آس پاس بھی بے شمار لوگ موجود تھے۔مرد بھی ، عورتیں بھی اور ان کا ہاتھ تھامے بچے بھی ۔۔۔

ہماری گاڑی کو نالے کے اس پار پارکنگ کی جگہ ملی تھی۔ہم گاڑی سے نیچے اترے ۔اسی وقت وین بھی آکر رک گئی۔اس میں سے حلقہ اربابِ ذوق کے صدر امین ضیا صاحب سمیت اکثر شعرا بر آمد ہوئے۔ان میں جمشیددکھی صاحب ،غلام عباس نسیم صاحب ،اشتیاق یاد صاحب ،محمدیونس سروش صاحب ،نذیر حسین نذیر ،عبدالبشیرخان ،تہذیب برچہ ، عاجز نگری اور عارف شیر الیاٹ شامل تھے۔

میں تاج صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں تھا۔اس گاڑی میں ہمارے ساتھ نوجوان شاعر فاروق قیصر اور شنا زبان اور موسیقی کا اچھا ذو ق اور علم رکھنے والے نوجوان قلم کار عبدالصبور بھی تھے۔

ایک تو گلگت سے یہاں تک تاج صاحب کی گل رنگ صحبت نے ،مے رنگ حالت بنا دی تھی۔پھر اس مقام پہ حسنِ فطرت اور حسنِ مجسم کے ایسے نظارے تھے کہ نگاہیں بہک رہی تھیں اور زمین پہ قدم رکھتا کہیں پہ تھا ،پڑتے کہیں پہ تھے۔

دونوں گاڑیوں کے اربابِ ذوق KKHکے دائیں جانب ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے ۔شروع میں ہی بیدِ مجنوں (مچھور) کاپیڑ ہے۔اس کی شاخیں جھک کر ،گویا ہر آنے والے کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں ۔ریسٹورنٹ کے باہر نالے کے ساتھ گھاس کے بھی اور بے گیاہ بھی قطعے بنائے گئے تھے۔ان پہ دھوپ سے بچنے کے لیے کافی بنانے والی ایک مشہور کمپنی کے چھتری نما سائبان موجود تھے۔یہ سائبان کسی ایک جگہ نہیں ،فاصلے فاصلے پہ موجود تھے۔ان کے نیچے خوش رنگ کرسیاں رکھی تھیں۔بہت کم کرسیاں اس وقت خالی تھیں۔اکثر و بیشتر پنجاب کے علاقوں کے لوگ تھے۔ ان میں خواتین ،مرد اور بچے ،سبھی شامل تھے۔حاذ کے اہلِ قلم چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں راکاپوشی اور اس کے دامن میں بہتے ہوئے نالے کے ساتھ ساتھ اس رنگ و روپ میں گُم ہوگئے۔

حاذ کے اس طرح کے پروگرام کے منتظم غلام عباس نسیم صاحب ہیں ۔انہوں نے مطلع کیا کہ آدھا گھنٹا یہاں ٹھہر کر آگے مناپن روانہ ہوں گے ۔وہاں اوشو تھنگ میں مشاعرہ بھی ہوگا اور موج میلہ بھی ۔حاذ کے اربابِ ذوق کا یہ سفر ،حسبِ روایت عید ملن پارٹی کی مناسبت سے ہو رہا تھا۔اس دفعہ یہ تقریب مناپن کے ٹورسٹ ریسورٹ ،اوشو تھنگ میں منعقد ہو رہی تھی۔

یہ اللہ پاک کا خاص کرم ہے کہ ہماری یہ زمین بڑی ہمہ رنگ اور حسین ہے ۔اگر ذوق نظر ملے تو اس کا چپّہ چپّہ ماہ جبین ہے۔گلگت بلتستان حسنِ منظر سے مالامال ہے۔عظیم پہاڑی سلسلوں کی گود میں پھیلی وادیوں میں ایک جادو ہے ۔جس کے اثر سے باہر کے لوگ ان کے دیوانے ہیں۔یہاں دریا ،نالے ،چشمے اور جھیلیں ہیں ۔ایک دفعہ ان میں جانے اور کچھ وقت گزارنے کے بعد ،مدتوں ان کی یادیں زنجیر بن جاتی ہیں ۔اس میں جنگل ،سبزہ زار ،لہلہاتے کھیت اور قِسم قسم کے پھلوں کے باغات ہیں ۔ان باغوں میں پیڑوں سے توڑ کر تازہ پھل تناول کرنے کا تجربہ ایک اچھوتا احساس جگاتا ہے۔اس کی برف پوش چوٹیاں ،اس کے برف شار ،گلیشئرز اور برفیلی وادیاں ،گرم میدانی علاقوں کے رہنے والوں کے لیے ایک حیرت انگیز نظارہ ہوتا ہے۔

اس پہ مستزاد ،ان علاقوں میں رہنے والے لوگ بھی فطرت کے خوب صورت ہیں۔اس میں شک نہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ،مادیت پرستی اور مفادپرستی سے بہت سے لوگوں میں پہلی جیسی صفات نہیں رہی ہیں ۔ان میں بھی دھوکا دہی ،مکاری ،بے ایمانی اور لالچ پائی جاتی ہے مگر وطنِ عزیز کے بڑے بڑے شہروں کی نسبت نہایت کم۔۔۔یہاں جو سیاح آتے ہیں ،دور دراز وادیوں میں جاتے ہیں ،پہاڑی علاقوں میں کئی کئی دن رہتے ہیں ۔مختلف نالہ جات میں دور دور تک جاتے ہیں ۔جھیلوں اور سبزہ زاروں میں فطرت کی تنہائیوں میں بغیر کسی خوف کے گُم ہوجاتے ہیں۔شہر کی سڑکوں اور ہوٹلوں میں بڑی بے فکری سے گھومتے نظر آتے ہیں۔ان کے چہروں پہ اطمینان ، آسودگی اور مسرت کی چمک ہوتی ہے ۔یہی اس بات کی دلیل ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ فطرت کی طرح خالص اور انسان دوست ہیں۔

اس ڈھلتی دوپہر ،راکاپوشی کے دامن میں بھی ان غیر مقامی سیاحوں کی آنکھوں میں حسنِ فطرت کی پسندیدگی کی چمک تھی ساتھ ہی ان کے چہروں پہ اطمینان اور احساسِ آزادی کی روشنی تھی۔

ابھی چند سال پہلے تک یہ صورت حال نہیں تھی۔ان وادیوں میں ،ان ندی نالوں میں ،ان پہاڑوں میں کبھی ویرانیوں کی دُھول اڑتی تھی۔یہ حسین مناظر ،یہ نظر فریب وادیاں اور یہ پُر شِکوہ پہاڑی سلسلے ،حسن نظر سے محرومی کا دکھ اٹھائے، ویرانی کا نمونہ بنے ہوئے تھے۔پھر وقت بدل گیا ۔ناآسودہ موسم رخصت ہوگئے ۔صوبائی حکومت ،پاک فوج ،قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوامی شعور کی بہ دولت ،اب ہر سُو مہربان اور رنگ رنگیلے موسم اتر آئے ہیں ۔بابوسر ٹاپ سے لے کر خنجراب ٹاپ تک ،دیوسائی سے لے کر شندور تک اور خپلو سے لے کر نلتر تک ،سیاحوں کی بھیڑ لگی ہے ۔

راکاپوشی ویو پوائنٹ کے پاس بھی اس وقت مقامی اورغیر مقامی سیاحوں کی رونق لگی ہوئی تھی۔۔گلگت یا آس پاس کے علاقوں کی خواتین ایک آدھ دکھائی دے رہی تھیں ۔اپنے مرد کے ساتھ یا فیملی کے دیگر افراد کے ساتھ،پورے لباس اور چادر میں الگ سے پہچانی جا رہی تھیں ۔اس کے برعکس پاکستان کے دیگر علاقوں ،خاص کر پنجاب کی خواتین زیادہ تھیں ۔اپنے مردوں کے ساتھ بھی ،پوری فیملی سمیت بھی ۔نوجوان لڑکیاں بھی ،شادی شدہ خواتین بھی تھیں ۔ان کا لباس ،ان کا حلیہ اوربے باکی ،مشرقی تہذیب (اب تو نام نہاد ) سماجی اور مذہبی اقدار اور اپنی ثقافت کی خوشبو سے دوری کی مثال تھی ۔چند ایک کے علاوہ اکثر لڑکیاں جینز پہنے ہوئے تھیں ۔بڑی عمر کی خواتین کا لباس بھی ان کی آزادہ روی اور فیشن گزیدہ روشن خیالی کا نمونہ تھا۔

ویسے فیشن اور سٹائل بھی کیا غضب ہوتا ہے کہ اس میں ذوقِ جمال کا کم ،ہزار رنگ میڈیا کی پبلسٹی کا کما ل زیادہ ہوتا ہے۔کوئی سلیم الطبع شخص جدید فیشن کے انداز اور تراش خراش پہ چاہے جتنا بھی ناک بھوں چڑھائے ،وہ ا س کا چلن روک نہیں سکتا ۔کیوں کہ میڈیا پہ اس کی اتنی تشہیر کی جاتی ہے کہ آنکھیں بند کر کے اسے اختیار کیا جاتا ہے ۔اس چمک دمک میں کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ان کی ثقافت ،ان کی سماجی اور مذہبی قدریں اس فیشن سے کتنی متاثر ہوتی ہیں ۔یہ المیہ ہے اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فیشن کے نام پہ جو ہڑ بونگ مچی رہتی ہے اس سے جدت کا نہیں ،قیامت کا احساس ہوتا ہے۔

میڈیا کے جادوئی اثر سے مغربی لباس اور مغربی کلچر اس حد تک سرایت کرگیا ہے کہ کوئی دن جاتا ہے مجموئی طور پر ہم اپنی اصل ہی کھو دیں گے۔پہلے تو عورت کے سر سے دوپٹّہ اترا تھا۔اب شلوار قمیص بھی اترتی جارہی ہیں ۔اس کی جگہ لڑکوں کی طرح جینز ،ٹائٹس اور شرٹ نے لے لی ہے ۔یہ ایسا لباس ہے جو پردہ کم ،دعو تِ گناہ زیادہ دیتا ہے۔

میری نگاہوں کی رہ گزر میں جو جلوے تھے،وہ اس طرح کے رنگین و سنگین خیالات کا باعث بن رہے تھے۔یہ میرا مشاہدہ تھا۔میرے محسوسات تھے۔اور ایک قلمکار کا مشاہدہ تجزیاتی ہوتا ہے کسی واعظ یا مفتی کی طرح فیصلہ کُن نہیں ۔یہ کام تو اپنے پڑھنے والوں پر چھوڑ دیتا ہے ۔الفاظ کے اندر اور جملوں کے پیچھے جو مفہوم چُھپا ہوتا ہے ،لکھاری اس کی نشاندہی کرتا ہے اور قارئین اپنی دانش اور دانست کے مطابق اس کا اثر لیتے ہیں ۔

فیشن اور ہمارے رویوں سے متعلق یہ باتیں بیچ میں جملہٗ معترضہ کے طور پر وارد ہوئیں۔ورنہ موضوع نگر کا سفر نامہ تھا،جدید فیشن کا منظر نامہ نہیں ۔

راکاپوشی کا نالہ اس وقت خوب بپھرا ہوا تھا۔اوپر راکاپوشی سے اتر کر تیزی سے پتھروں سے ٹکراتا نشیب میں دریائے ہنزہ نگر میں گررہاتھا۔اس کا مٹیالا پانی ،پتھروں سے ٹکرا کر دُودھیا رنگ بکھیررہا تھا ۔نالے سے اٹھتے ،تیز پانی کے چھینٹے بدن سے ٹکراتے تھے تو گُد گدی سی ہوجاتی تھی۔اوپر گلیشئرز سے اترتی ،نالے کے تیز بہاؤ کے ساتھ سفر کرتی خنک ہوا سے روح تک سرشار ہورہی تھی۔ان سب کے اوپر عظیم راکاپوشی ،کسی بدھ بھکشو کی طرح آسن جمائے ،سکون سے کھڑی تھی۔اس کی چوٹی یقیناََ برف سے ڈھکی ہوگی ،مگر اس وقت بہت نیچے تک سفید سفید بادلوں کے آنچل میں چُھپی تھی اس لیے برف کی بجائے ایک سفید سے دُھویں کی چادر تنی نظر آرہی تھی ۔ایسا لگ رہا تھا گویا کہ عظیم راکاپوشی کے گیان دھیان میں خلل پیدا ہونے کے ڈر سے فطرت نے خود ہی سفید بادلوں کا پردہ تان دیا تھا۔

حاذ کے اہلِ قلم مختلف ٹولیوں میں بٹ کر ،خوش گپی اور خوش نظری میں مشغول تھے۔یہ جو شاعر ہوتے ہیں ،حسنِ نظر بھی رکھتے ہیں ،حسنِ اظہار بھی ۔جب ماحول ایسا ہو ،جہاں حسن منظر بھی بے حد ہو اور حسنِ مجسم بھی بے شمارہو ۔۔۔تب کوئی غزل کہے نہ کہے ،نگاہیں ضرور شاعری کرتی ہیں ۔

ہمارے شعرا بھی نگاہوں کے پیمانے میں ردیف اور قافیے چُست کر رہے تھے۔کچھ تو پورے پورے فقرے موزوں کر رہے تھے۔سب چھوڑیں ،صرف تاج صاحب ہی کی گفتگو میں ایسی رنگینی اور سنگینی تھی کہ قہقہے چھوٹتے تھے۔سیاحوں کے رنگ روپ ،ان کا لباس اور بے باک اداؤں پہ تاج صاحب کب چُپ رہنے والے تھے۔وہ لہک لہک کر لطیفے ،چٹکلے اور قابلِ سنسر باتوں سے سب کو ہنسا رہے تھے۔ایک موقع پر دکھی صاحب بولے ۔’’تاج صاحب !چند سال پہلے کاشغر جا کر آئے تو شنا میں بھی اور اردو میں بھی بڑی رنگ دار غزلیں کہی تھیں ۔کچھ ایسی ہی رونقیں اور جلوے اس وقت یہاں بھی ہیں ۔اگلے مشاعرے کے لیے آپ کو زبردست مواد مل گیا ہو گا؟‘‘

تاج صاحب نے سگریٹ نکال کے آگے سے آدھا توڑ دیا ۔باقی حصہ جلا کے ایک گہرا کش لے کر شنا میں کہا ۔’’یار دکھی !آپ بھی بڑے نادان ہیں کہ کاشغر اور گلگت کو ملا رہے ہیں۔کبھی شیمپین اور دیسی شراب بھی ایک ہو سکتی ہے کیا ؟کدھر کاشغر کی نظر فریب رونقیں اور کدھر یہاں کے دیسی جلوے؟وہاں بوٹے سے قد پہ حسن اتنا بھرپور ہوتا تھا کہ آنکھیں تھک جاتی تھیں مگر نظر بازی سے باز نہیں آتی تھیں ۔یہاں جو حسن نظر آتا ہے اس کا حدود اربعہ اس قدر کشادہ ہے کہ اس سے واقعی آنکھیں تھک جاتی ہیں۔پھر دوسری نظران کے چہروں کی طرف اٹھتی بھی نہیں ۔دیسی چہرے دیسی حلیے میں ہی بھلے لگتے ہیں ۔اس طرح جینز اور تنگ پاجامہ پہن کر تو ایسا لگتا ہے گویا ممتو کے اوپر روح افزا ڈال کے کھایا جائے۔کاشغر والیوں کو دیکھ کے دل دھڑکنے لگتاتھا ان دیسی جلوؤں سے ہوس بھڑکنے لگتی ہے۔‘‘

تاج صاحب ،اپنے مخصوص انداز میں خود بھی ہنستے ہوئے ،اپنی ہی بات کے خود بھی چٹخارے لیتے ہوئے ،اور زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو بھی بڑی نزاکت اور ظرافت سے لہراتے ہوئے جب کاشغر اور گلگت کے حسن کا موازنہ کر رہے تھے تو ان کی ایک ایک بات پہ سو سو بار قہقہے بلند ہو رہے تھے۔وہاں موجود بہت سے سیاح بھی بڑی حیرت سے اس دھان پان سے بوڑھے کی خوش فعلیوں کو دیکھ رہے تھے۔

رش کی وجہ سے بڑی دیر بعد چائے پیش کی گئی۔چائے پی کے ہم مناپن کی طرف روانہ ہوئے ۔راکاپوشی نالے سے کچھ آگے ،کے کے ایچ کے دائیں جانب ذرا بلند ہوتی ہوئی سڑک ،پکّی تھی۔اونچے نیچے کھیتوں ،بہت خوب صورت منظر پیش کرتی آبادیوں ۔۔۔شہتوت ،خوبانی ،سیب ،چیری ،اور اخروٹ کے درختوں کے درمیان سے بل کھاتی سڑک پہ سفر کرتے، پندرہ بیس منٹ میں اوشو تھنگ ہوٹل پہنچ گئے۔

بہت وسیع رقبے پہ پھیلا ہوا یہ tourist resort ،بڑا پُر سکون اور پُر فضامقام لگ رہا تھا۔سامنے اور دائیں طرف رہائشی کمرے بنے ہوئے تھے ۔جبکہ بائیں طرف بہت کشادہ سبزہ زار تھا ۔ہوٹل کے عقب میں کھلی جگہ تھی۔جہاں کھیت ،باغ ،زمین میں گڑھے ہوئے بڑے بڑے پتھر تھے ۔ان سے کچھ فاصلے پہ دوسری طرف کھائی تھی۔جہاں نیچے گہرائی میں کوئی پہاڑی نالا شاید بہتا تھا۔

حاذ کے اہلِ قلم اوشوتھنگ کے پچھواڑے کی اس رنگا رنگ دنیا میں کھو گئے۔بھوک اور مشاعرہ بھی وقتی طور پر بھول گئے۔خوبانی کے ایک چھتنار پیڑ کے گہرے سائے میں سیمنٹ کا گول چبوترہ بنا ہوا تھا۔اس پہ دریاں ،گدیلے اور گول تکیے دھرے تھے۔چبوترے کے نیچے کرسیاں بھی تھیں۔اس کے ساتھ ہی ایک بڑا مستطیل خیمہ تھا۔جس میں بیس کے قریب چارپائیاں پڑی ہوئی تھیں ۔ان پہ بستر بھی بچھا ہوا تھا۔دو چار لوگ سوئے ہوئے بھی دکھائی دے رہے تھے۔ہوٹل کے ایک ملازم نے بتایا سیاحوں کے رش کی وجہ سے یہ خیمہ لگایا ہے۔گروپس کی شکل میں جومرد سیاح آتے ہیں ،وہ اس خیمے میں چارپائی کے حساب سے ادائیگی کر کے قیام کرتے ہیں۔اس ملازم کے بہ قول خیمے کی چارپائی اور الگ کمرے کے پلنگ کے کرایے میں دس گنا کا فرق ہے۔یعنی چارپائی ۵ سو کی ہے تو ڈبل بیڈ کمرہ ۵ ہزار کا ۔۔۔

اکثر اہلِ قلم تاج صاحب کی رنگینئی طبع کے زیر اثر اس گول چبوترے میں جمع ہوگئے تھے۔کچھ دوست یہاں وہاں بکھر گئے تھے۔ضیا صاحب اپنا قیمتی کیمرہ گلے سے لٹکا کے ،فطرت کی کسی حسین ادا کو محفوظ کرنے ،عقب میں پیڑوں میں گھرے سبزہ زار کی طرف چلے گئے تھے۔

اسی دوران حفیظ شاکر صاحب ، نظیم دیا صاحب،نذیر حسین نذیر اور غلام عباس صابر بھی پہنچ گئے ۔یہ صاحبان الگ سے دیا صاحب کی گاڑی میں سفر کر کے ابھی آگئے تھے۔شاکر صاحب اور دیا صاحب بھی لطیفہ گوئی اور جگت بازی میں کسی سے کم نہیں ۔نسیم صاحب کی سنگت بھی نصیب ہو تو گویا پھکّڑبازی اور بذلہ سنجی کو سہ آتشہ بنا دیتے ہیں ۔ان تینوں فنکاروں کا ایک زمانے میں سٹیج پر طوطی بولتا تھا۔اب محض مشاعروں اور بے تکلف دوستوں میں اپنی ظرافت اور خوش مذاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

وہاں اس گول چبوترے پہ جب یہ صاحبان اکٹھے ہوئے تو لطیفے ،چٹکلے اور جگتوں کا ایسا سلسلہ چل نکلا کہ قیامت ہی بپا ہوگئی۔یہ ایسی بے تکلف محفل تھی جس میں کوئی ضابطہ ،کوئی اونچ نیچ ،کوئی شرم حیا یا سماجی و مذ ہبی پابندی نہیں تھی۔بس نرم گرم اورکھٹی میٹھی باتیں تھیں ۔بے فکری تھی۔خوش دلی اور خوش فعلی تھی۔اسی محفل میں نوجوان قلم کار عبدالصبور کا ایک اور جوہر بھی کھل کر سامنے آیا ۔شنا میں اس نے بھی ایسے ایسے لطیفے اور چٹکلے سنائے کہ اس کی بے ساختگی ،بر جستگی اور لطیفہ گوئی سے محفل کچھ دیر کے لیے زعفران زار بن گئی تھی۔اس دوران نسیم صاحب نے اعلان کیا ۔کھانا تیار ہے ،اس کے بعد مشاعرہ بھی ہوگا۔اس لیے یہ باغ و بہار محفل اب برخاست کی جائے۔

کھانے کے بعد ہمارے سفر کا آخری اور مرکزی پروگرام یعنی مشاعرہ منعقد ہوا ۔اوشو تھنگ کے عقب ،ہوٹل کے احاطے سے باہر بہت وسیع جگہ تھی۔جہاں چھوٹے چھوٹے سے سرسبز باغ کی شکل کے قطعے تھے۔ہر قطعے کے گرد چھوٹے چھوٹے پتھروں کی کچی دیوار بنا کے ایک دوسرے سے الگ کیا گیا تھا۔وہاں خوبانی اور سیب کے بے شمار درخت تھے۔چند پیڑوں پہ خوبانی بھی موجود تھی۔زمین پہ کھڑے کھڑے ہاتھ بلند کر کے ،جُھکی شاخوں سے خوبانی توڑ کے کھانے کا لطف بھی لیا ۔ایسے ہی ایک باغ میں ،صاف اور ہموار سی جگہ ٹھنڈی ٹھنڈی گھاس پہ بیٹھ کر مشاعرے کی محفل بھی سجائی گئی۔

سہ پہر ڈھلنے لگی تھی۔سورج ،راکاپوشی کے اوپر سے سفر کرتا شب بسری کے لیے جا رہا تھا۔عظیم راکاپوشی کی برفیلی چوٹیوں کو چوم کر اترتی کرنوں میں ،جولائی کی دُھوپ سی تمازت نہیں تھی۔کبھی ہلکی کبھی تیز ہوا خوبانی سیب اور شہتوت کی شاخوں سے الجھ کر ،انہیں جھولا جُھلا رہی تھی۔پتّے پتوں سے ٹکرا کر محبت کے گیت گا رہے تھے۔ان کے نیچے باغ کی نرم اور نم آلود گھاس پہ ،شعرائے حاذ نرم گرم جذبوں اور تلخ وشیریں رویوں کو اشعار کی صورت بیان کر رہے تھے۔

مشاعرے کے دوران دنیور کالج گلگت میں اردو کے استاد اور شاعر عبدالعزیز صاحب بھی اپنے ایک مہمان شاعر د وست وسیم عباس کے ساتھ وارد ہوئے ۔ان کے مہمان دوست کا تعلق ہری پور سے تھا ۔حاذ کے ایک اور خو ش کلام شاعر شاہجہان مضطر بھی مشاعرے کے دوران پہنچ گئے۔

اس کھلے باغ میں ،نرم گرم ہوا کی لمس سے گُدگداتے ماحول میں ،مشاعرے کی یہ محفل ایسی خوب صورت تھی کہ مدّتوں اس کی تاثیر دل و دماغ پہ چھائی رہے گی۔

بڑی دیر بعد جب شام کی پریاں راکاپوشی کے دامن میں اُتر آئی تھیں ،یہ ناقابلِ فراموش محفلِ مشاعرہ اختتام پزیر ہوئی۔دن بھر کی ایک حسین سیر و تفریح کے بعد اربابِ ذوق کا سفر پھر سے بہ سُوئے گلگت شروع ہوا۔۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button