Uncategorized

کھرمنگ کے سرحدی علاقوں کے لوگوں کی ختم نہ ہونے والی مشکلات

تحریر ۔ سرور حسین سکندر

گزشتہ ہفتے کھرمنگ کے سرحدی علاقوں تک جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں بسنے والے لوگوں کے مسائل دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا۔ کھرمنگ کا سب سے آخری گاوٗں گنگنی اور برولمو 1999 میں لڑی گئی پاک بھارت جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ لوگوں کے  مکانات زمینیں اور سرکاری عمارات تباہ ہوگئے تھے۔ اہل علاقہ اُس وقت اپنی زندگیاں بچانے کے لئے غاروں بنکروں میں رہنے پر مجبور تھے۔ جنگ کے بعد کچھ خاندان زیرین کھرمنگ کے علاقوں اور سکردو میں مہاجرین کی زندگی گزارنے لگے۔ کچھ اپنی زندگیا ں گنوا بیٹھے۔ شدید جنگ کی وجہ سے برولمو اور گنگنی گاوں کو خالی کرایا گیا۔ لوگ سکردو شہر کی طرف مکمل ہجرت کر کے گئے بچارے در بدر کی ٹھوکریں کھانے لگے۔

آج اس جنگ کو تھمے 18سال گزر گئے لیکن ہجرت کرنے والے عوام کو ان کے گھروں میں دوبارہ بحال کرنے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھانے کی وجہ اہلیان گنگنی اور برولمو کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

جنگوں کے بعد آبادی کی بحالی کے لئے عموماً حکومت ہنگامی بنیادوں پر کام کر کے ان کے مسائل کم کرنے کے لئے دن رات محنت کرتی ہے لیکن ان دیہات کے عوام کئی سال گزر جانے کے باوجود بھی خیموں اور کچی عمارتوں میں رہ رہے ہیں۔ اہل علاقہ فریاد کررہے ہیں کہ تباہ حال مکانات کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں ہے۔ ستم بالائے ستم، کچھ لوگوں کے پاس اپنی فیملی کو سکردو سے دوبارہ آبائی علاقے تک لے جانے کے لئے کرایہ تک بھی نہیں ہے۔ مزدوری کرکے جو کچھ کماتے ہیں اس سے ان کے مہینے کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے ۔

متاثرین کارگل جنگ نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے ہر در پہ دستک دی ہے لیکن کسی نے بھی کچھ نہیں کیا۔ سب آکر وعدے کرتے ہیں لیکن ان کے وعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

سابق ڈپٹی سپیکر سید زیدی مرحوم اس وقت کے چیف سکریٹری کو لیکر آئے تھے اور نقصانات کا تخمینہ بھی لگایا گیا تھا، لیکن ان کی زندگی نے وفا نہیں کی۔ ان کے جانے کے بعد فائل پتہ نہیں کہاں پہنچا ہوا ہے۔ اہل علاقہ کہتے ہیں کہ معاوضے اور بحالی کے مطالبات کو لیکر راولپنڈی تک گئے۔ لاکھوں روپے یہاں کے غریب عوام نے خرچ کئے، دسویں بار گلگت اور اسلام آباد وفود بھیجے گئے، لیکن کہیں بھی شنوائی نہیں ہوئی۔

وزیر اطلاعات اقبال حسن نے الیکشن سے پہلے یہاں کے عوام کے ساتھ سابقہ عوامی نمائندوں کی طرح معاوضے کی ادائیگی اور بحالی کے وعدے کئے لیکن حسب سابق الیکشن جیتتے ہی ان کو بھی وعدہ یا دنہیں رہا۔

اہل علاقہ کا مطالبہ ہے کہ ان کو مکانات تعمیر کروا کر دئیے جائیں۔ تباہ شدہ زمینوں اور درختوں کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔

 جہاں ہماری زمینوں پر سرحدی حفاظت کے لئے بارودی سرنگیں نصب کی گئی ہیں، ان زمینوں کے بدلے میں متبادل جگہوں پر زمینیں الاٹ کی جائے۔ متاثرین پاکستان کی خودمختاری کی حفاظت کے لئے تعینات پاک آرمی کے جوانوں کی جراٗت کو سلام پیش کرتے ہیں، اور  اہل علاقہ افواج پاکستان کے ساتھ ہمہ وقت ان کی خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں اور ضرورت پڑی تو دوبارہ بھی جانیں اور جائدادیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن ان کی طرف سے بھی بحالی کے لئے اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے عوام مایوس ہیں۔

متاثرین نے کہا ہے کہ اگر ان کی مطالبات نہ مانی گئ، تو وہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوجائینگے۔

حکومت کو چاہیے کہ سرحدی علاقوں کی عوام کی ملک کے لئے دی گئیں قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوے ان کی بحالی اور نقصانات کے ازالہ کے لئے اقدامات اُٹھائیں۔ اس کے علاوہ کھرمنگ کے دیگر علاقوں میں بھی ایسے مسائل ہیں کہ اگر کھرمنگ کو مسائلستان کہا جائے، تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

کھرمنگ کے علاقے حمزی گوند میں پینے کا صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں طرح طرح کی بیماریاں عام ہیں، ہیپاٹائٹس بی اور معدے کی بیماریوں سے عوام سخت پریشان ہیں۔ بہت سارے افراد ان بیماریوں کی وجہ سے جان سے چلے گئے ہیں۔

مشرف دور حکومت میں پاکستان کے ہر یونین کونسل کو ایک واٹر فلٹریشن پلانٹ دیا گیا تھا۔ حمزی گوند میں بھی فلٹر پلانٹ کے لئے زمین خریدی گئی تھی، اور اس کا معاوضہ بھی ادا کیا گیا تھا۔ لیکن تاحال فلٹریشن پلانٹ نصب نہیں ہوسکا ہے۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ کھرمنگ میں پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے، تاکہ عوام جان لیوا امراض سے سامنا نہ کرنا پڑے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button