شعر و ادبکالمز

پروفیسر عثمان علی(مرحوم)۔۔۔ایک ہمہ جہت شخصیت

کسی دانشور کا قول ہے۔’’موٗرّخ خود مرتا نہیں ،تاریخ کے پنّوں میں زندہ رہتا ہے۔مگر تاریخ کو مار دیتا ہے ،‘‘

اس قول کے تناظر میں بات کریں تو ابتدا سے ہی ،جب سے دنیا کی تاریخ لکھی گئی ہے ،ہر قوم کی ،ہر مذہب کی اور ہر خطے کی تاریخ موجود ہے ۔بڑے بڑے،چھوٹے چھوٹے ناموں کے لاتعداد مورخین پائے جاتے ہیں ۔ذرا سا غور کریں تو ہر ایک کا کام دوسرے سے مختلف ہے۔ایک ہی دور کے حالات و واقعات کا بیان بھی ،بے شمار تضادات اور اختلافات کا مرقّع نظر آتا ہے۔ یہ اختلاف کہیں کم ہے ،کہیں زیادہ ۔کہیں مذہبی تعصب ،کہیں سیاسی ،تہذیبی اور لسانی تعصب کے زیر اثر ،تاریخ کا اصل چہرہ بگاڑ دیا جاتا ہے ۔

زیادہ دور نہ جائیں ۔اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کو ہی دیکھیں تو آج تک اسلامی تاریخ پر لکھنے والے مسلمان مورخین ہی ایک دوسرے سے متفق دکھائی نہیں دیتے ۔کہیں کہیں یہ اختلاف اس قدر شدید ہے کہ اس کی بنیاد پر مسلمان کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہیں ۔

اپنی اپنی اپروچ کے مطابق محققین اور مورخین نے ماضی کی تاریخ کو ایسی شکلوں میں بیان کیا ہے کہ ایک شکل دوسرے کے لیے قابل قبول نہیں ۔اور اسی کی بنیاد پر یہ مسلمان بھی گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے لیے قابل قبول نہیں رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے غیر جانبدار اور مستند تاریخ جاننے کے لیے ہم غیر مسلم مورخین اور مستشرقین سے رجوع کرتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے ان غیر مسلم تاریخ نگاروں کا کام بھی تاریخی بدچلنی سے پاک نہیں ۔

اسی طرح گلگت بلتستان کی آزادی سے پہلے اور بعد کے واقعات پر بھی جن محققین اور مورخین نے کام کیا ہے ،بہت کم ان میں اتفاق رائے اور یکسانیت نظر آتی ہے۔اس لیے یہاں بھی اکثر مستند حوالوں کے لیے ،غیرمسلم تاریخ نویسوں کی کتب سے رجوع کیا جاتا ہے ۔

اس سب کے باوجود ان تمام مورخین (متقدّمین سے متاخرین تک)کا نام اور کام اہمیت بھی رکھتا ہے ۔یہ تاریخ نگار کہیں پورے قد کاٹھ سے نظر آتے ہیں ۔کہیں تاریخ سے ٹھٹھول کرنے کی پاداش میں گرے پڑے نظر آتے ہیں ۔

اب ایک دوسرا پہلو بھی ہے ۔یہ تاریخ نویس دنیا کے محسن ہیں ۔انہی کے قلم سے ،انہی کے علم سے اور انہی کی سمجھ کی بہ دولت ،آفرینِش سے ابھی تک دنیا کے بدلتے حالات و واقعات سے ہم آگاہ ہوتے ہیں۔

یہ تاریخ کیا ہے ؟آسان الفاظ میں یہ انسانی تہذیب کے مطالعے کا نام ہے۔جس طرح یہ انسان سوچوں ،رویوں اور مزاجوں کا جنگل ہے۔اسی طرح انسانی تہذیب اور اس کے بدلتے ہوئے حالات بھی کسی جنگل کی طرح پیچیدہ ہیں ۔مورخین اس انسانی جنگل میں گُھس کر انسان کو تلاش کرتے ہیں ۔اس کے رویوں کو ،اس کے حالات کو ،اس کے معاملات کو اس کے کمال اور زوال کو تاریخ وار سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ایسے میں جہاں ماضی کی دنیا کے بہت سے واقعات ،طشت ازبام ہوجاتے ہیں ،وہاں تاریخ نویسوں کی ہی غلطیوں کی وجہ سے ماضی کے اصل واقعات ،اختلافات کا شکار بن جاتے ہیں ۔

اگر ان غلطیوں کا تعلق مورخ کی کم علمی یا تحقیق کی کمی سے ہے تو اسے ایک تکنیکی غلطی سمجھ کر درگزر کیا جاسکتا ہے ۔اگر ان غلطیوں کا تعلق مورخ کے تعصب اور واقعاتی صحت میں مفاداتی بدنیتی اور بدچلنی سے ہے تو ایسا مورخ، تاریخ کا دہشت گردہے۔

گلگت بلتستان کی معلوم تاریخ ،ایک ہاتھ کی انگلیوں سے بھی کم صدیوں پہ مبنی ہے۔ابتدا میں باہر کے لوگوں نے اس خطے کے جغرافیائی ،ثقافتی ا ور سیاسی پہلؤوں کو بیان کیا تھا۔ان میں انگریز بھی تھے،ہندوستان کے مسلم و غیر مسلم محققین بھی تھے۔پھر جب علم عام ہوا ۔تحقیق کا شعور بڑھا تو مقامی لکھنے والوں نے بھی اس طرف توجہ دی ۔تاریخی اور تحقیقی کتب منظرِ عام پہ آئیں ۔ان مقامی لکھنے والوں نے اکثر شروع کے انگریز اور ہندوستانی محققین سے خوشہ چینی کی ۔چند ایک کے علاوہ اکثر مقامی مورخین کا اپنا کام بھی قابلِ قدررہا ہے۔

یہ الگ بات ہے مقامی لکھنے والوں کی تاریخی کتب میں کچھ مشترکات کے علاوہ متعدد اختلافات بھی پائے جاتے ہیں ۔کہنے والوں نے اسے عصبیت کا رنگ قرار دیا ہے۔چونکہ دنیا کے ہر خطے کی ،ہر زبان کی اور ہرمذ ہب کی تاریخ ان تضادات اور مفادات سے بھری پڑی ہے ،اس لیے یہاں کی تاریخ میں کی گئی دراندازی بھی اپنی رَو میں متوازی چلتی رہی ہے۔آج گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کی تہذیبی ،سیاسی اور مذہبی تاریخ پر متعدد لکھنے والے تاریخ نویس موجود ہیں اور ان کی تاریخی اور تحقیقی کتب یہاں کے ماضی کی ترجمانی کرتی ہیں ۔

پروفیسر عثمان علی صاحب ایک نابغۂ روزگار شخصیت رہے ہیں ۔ان کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو معاشرے پر کئی پہلووں سے اثر انداز ہوتے ہیں ۔ان کی شخصیت کا ہر پہلو ،ان کی عظمت اور اہمیت کا نقیب ہے۔

عام لوگوں کے لیے عثمان صاحب ایک استاد تھے۔اگرچہ عام معنوں میں اپنی تقریباََ ۴۰ سالہ مدت ملازمت کے دوران ،محض دس گیارہ سال بہ حیثیت استاد پڑھاتے رہے ہیں ۔باقی تیس سال ڈی آئی ایس، ہیڈ ماسٹر سے لے ڈپٹی ڈائیریکٹر ایجوکیشن تک خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں ۔مگر اس کے باوجود لوگوں کے دل و دماغ میں آپ بہ حیثیتِ استاد زندہ و جاوید ہیں ۔اس کے پیچھے ان کی ذہانت ،قابلیت اور تعلیم سے ان کی محبت ظاہر ہوتی ہے۔

عثمان علی صاحب ،اس سماج کے لیے ،یہاں کے سیاسی و مذہبی حالات سے متاثر ہونے والوں کے لیے ایک ہم درد مصلِحِ قوم تھے۔ماضی قریب کا گلگت کسی بھی لحاظ سے اچھے الفاظ میں یاد رکھنے کے قابل نہیں ۔ جب تاریخ ہی کے غلط بیانیے کو بنیاد بنا کر یہاں کے عوام کو مسلکی نفرت کی آگ میں جھونکا گیا تھا ۔ایک ہی علاقے کے لوگ ،ایک ہی گلی محلے کے لوگ ایک دوسرے کے لیے ناقابلِ برداشت بن گئے تھے۔ایسے میں عثمان علی صاحب کا کردار اور اتحاد بین المسلمین کی کوششیں ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہیں گی۔

عثمان صاحب پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ایک موٗ رخ اور محقق تھے۔ان کی زندگی کا یہی وہ پہلو ہے جس سے گلگت بلتستان سے باہر کی دنیا میں ان کا نام اور کام متعارف ہوا۔جہاں جہاں اردو زبان لکھی اور پڑھی جاتی ہے ، عثمان صاحب کا تاریخی اور تحقیقی سرمایہ ،ایک قومی اثاثے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

پروفیسر عثمان صاحب کی کتابیں گلگت بلتستا ن کے ماضی کا آئینہ ہیں ۔ ان کی کتابوں کی تعداد بیس کے قریب ہے۔بیس کتابیں تصنیف کرنا کچھ معمولی بات نہیں۔اسی فیصد سے زیادہ لوگوں نے تو کبھی زندگی میں بیس کتابیں پڑھی بھی نہیں ہوں گی۔ ان کتابوں میں ’’گلگت کی روگ کہانی‘‘ ’’شنا لوجی ‘‘ ’’گلگت ،نظریہ اور آزادی ‘‘ اور آخری مطبوعہ ضخیم کتاب ’’گلگت کا انقلاب ‘‘ایسا بیش قیمت تاریخ نامہ ہیں جن سے آزادی سے پہلے کے گلگت کے حالات و واقعات ،بِدیسی حکمرانوں کے مظالم اور دیسی حکمرانوں (راجاؤں وغیر ہ) کی ہوسِ اقتدار کے نمونے اور یہاں کے بے بس ،بے وسیلہ اور بے حیثیت عوام کی بدحالی کے حالات و معاملات سمجھنے میں آسا نی ہوتی ہے ۔پھر تحریکِ آزادی ،انقلابِ گلگت اور آزاد گلگت بلتستان کے حالات و واقعات بھی ان کی کتابوں کے ذریعے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

تاریخ نگاری ،حقیقت میں ماضی کے حالات و واقعات کا منظر نامہ ہوتی ہے ۔اور اکثر اس کے اظہار کے لیے خشک اور غیر ادبی اسلوب کا استعمال ہوتا ہے ۔مگر عثمان صاحب کی مذکورہ بالا کُتب میں ایسا اسلوبِ بیاں اور جملوں کی ایسی پختگی نظر آتی ہے کہ ایک منجھے ہوئے ادیب اور تخلیقی قلمکار کی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔ایک طرح سے انہوں نے تحقیق اور تاریخ کے خشک موضوع کو تخلیق کے تڑکے سے ذائقہ دار بنا دیا ہے ۔آزادی کے بعد ستر سال گزر چکے ہیں ۔اس دوران سماجی ،سیاسی اور مذہبی رویوں میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ان بدلتے ہوئے حالات ،سماجی تغیُّرات اور ذہنی رویوں سے ہماری تاریخ ،ہماری تہذیب اور تمدن کے خدو خال بھی بدل رہے ہیں ۔

ایسے میں عثمان صاحب کی کتب ہمیں پھر سے ماضی میں جھانکنے ،اپنے آباؤاجداد کے کردار کو سمجھنے او ر ان کو یاد رکھنے کا اہم ذریعہ ہیں ۔ان کی کتب ہمیں پھر سے اپنی تہذیبی ،تاریخی اور لسانی وراثت کے عظیم خزانے سے جُڑنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

ابتدا میں جو ایک قول بیان کیا ہے کہ مورخ کا نام تو زندہ رہتا ہے مگر تاریخ کو مار دیتا ہے ۔عثمان صاحب کے فن اور شخصیت پر ایک اجمالی جائزہ لینے سے یہ بات ان کے لیے غلط ثابت ہو تی ہے۔انہوں نے اپنی کتابوں کے ذریعے خو د کو بھی امر کر دیا ہے یہاں کی تاریخ کو بھی زندہ جاوید بنا دیا ہے۔انہوں نے ان تاریخی اور تحقیقی کتابوں کی شکل میں جو دولت چھوڑی ہے اس کا فائدہ تبھی ممکن ہے کہ پڑھنے کا کلچر عام ہوجائے۔ان کا دن منانے سے یا ان کے نام سے کسی عمارت یا سڑک کو منسوب کرنے سے ہی حق ادا نہیں ہوتا ۔نوجوان اور بڑے ان کی کتب پڑھ لیں ۔اپنے ماضی کو جاننے اور سمجھنے کا احساس سب میں ہونا چاہیے۔ایک عثمان صاحب کی ہی نہیں ،بہت سے دیگر لکھنے والوں کی کتابیں بھی مطالعے کی میز پر لازمی ہونی چاہیے۔مطالعے سے ہی سوچ اور رویوں میں مثبت تبدیلی ممکن ہے۔گفتار اور کردار کی اسی سے تہذیب ہوسکتی ہے۔

ہماری دعا ہے مرحوم نے جس طرح اپنی کتابوں کے ذریعے تاریخی اور تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے آسانیاں فراہم کی ہیں ۔اسی طرح اللہ پاک ان کا سفرِ آخرت آسان فرمائے ۔آمین!

(یہ مقالہ پروفیسر صاحب مرحوم کے فن اور شخصیت کی خدمات کے اعتراف میں منعقدہ تعزیتی تقریب میں پڑھا گیا تھا )

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button