کالمز

’’فلسفہ یوم آزادی اور طلبہ کی ذمہ داریاں‘‘

گزشتہ چند سالوں سے سرکاری سطح پر’’یوم آزادی پاکستان‘‘ ،پورے گلگت بلتستان میں بڑے جو ش وخروش سے منایا جاتا ہے۔محکمہ ایجوکیشن گلگت بلتستان اس حوالے سے شاندارکارکردگی کا مظاہرہ کررہاہے۔ تمام اضلاع کے اسکولوں میں ،بین الاضلاعی سطح کی تقریری و تحریری اور دیگر ایکٹیویٹیز میں مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جبکہ کالجز کی طرف سے ڈویژنل سطح پر تقریری مقابلوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ان مقابلوں میں گلگت بلتستان کی سرکاری تمام سرکاری کالجز کے طلبہ و طالبات حصہ لیتے ہیں۔بالآخر تینوں ڈویژونوں سے چھ طلبہ وطالبات مرکزی مقابلے کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال کی طرح امسال بھی دیامر استور ڈویژن سے مرکزی تقریری مقابلے کے طالب علم کیے لیے تقریر تیار کرنا اور تیاری کروانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ہے۔چودہ اگست 2017ء کو فاطمہ جناح ویمن ڈگری کالجز گلگت میں اس مقابلے کا اہتمام ہوا۔ جس میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان، چیف سیکرٹری اور دیگر ارباب علم و دانش اور خواتین و حضرات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔یوم آزادی اور طلبہ کی ذمہ داریوں کے عنوان سے لکھی گئی تقریر طالب علم اسامہ حسین (گورنمنٹ انٹرکالج استور)نے سامعین کو سنایا۔ استفادہ عامہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ملاحظہ کیجیے۔

محترم جناب صدر محفل!معزز مہمانان گرامی، میرے واجب الاحترام اساتذہ کرام اور میرے ہم سفر دوستو

السلام علیکم ورحم اللہ وبرکاتہ

آج یوم آزادی کے حوالے سے اس خوبصورت محفل کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اس جذبہ بھری محفل میں جس عنوان پرمجھے لب کشائی کا شرف حاصل ہورہا ہے وہ ہے (فلسفہ یوم آزادی اور نوجوانوں کی ذمہ داری) میں اللہ کے حضور التجا کرتا ہوں کہ وہ مجھے حق اور صداقت کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

جناب صدر!مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے اور ہم سب جانتے بھی ہیں کہ کسی بھی ملک کے سیاسی شعور اور بیداری رکھنے والے اور قومی مقاصد کی تکمیل کے لیے متحرک ہونے والے طلبہ نے ملک میں تبدیلی لانے کے لیے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ خود ہماری تاریخ بھی اس حقیقت کا واضح ثبوت فراہم کرتی ہے۔ برصغیر میں طلبہ سیاست کا باقاعدہ آغاز سن 1905 میں تقسیم بنگال کے موقع پر برطانوی راج کی مخالفت کے باوجود شروع ہوا۔ اس تحریک میں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے پہلے سپیکر مولوی تمیز الدین خان نے بطور طالب علم حصہ لیا۔جواب میں انگریز سرکار نے اس سال ہونے والے میٹرک کے امتحانات میں نصف سے زیادہ طلبا کو فیل کر دیا۔

سامعین محترم ! طلبہ ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے فکر اقبال کو پروان چڑھایا اور قائداعظم کے شانہ بشانہ تحریک کو جلا بخشی۔

سامعین ذی وقار!کیا یہ سچ نہیں کہ تشکیلِ پاکستان کے بعد طلبہ تحریک کا از سر نو آغاز مشرقی پاکستان اور صوبہ سندھ سے ہوا۔ پاکستان بنتے ہی مختلف مسائل کے حل کے لیے طلبہ نے احتجاج کا علم بلند کیا۔ اور ظالم و جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق بلند کیا۔ میں سلام کرتا ہوں ان عظیم طلبہ و طالبات کو جنہوں نے اس دھرتی پاک کو سنوارنے میں دامے درمے قدمے سخنے کردار اد کیا۔

جناب صدر! یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نظریاتی بنیاد پر بننے والی طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کا ایک دوسرے سے نظریات پر بحث ومباحثہ مکالمے کی فضا پیدا کرتا ہے اور اس سے طلبہ میں سیاسی شعور بلند ہوتا ہے۔ یوں معاشرے کو باشعور نوجوانوں کا وہ گروہ ملتا ہے جو ان کی راہ نمائی کرتا ہے، مگر طلبہ یونینز نہ ہونے اور طلبہ تنظیموں کی موجودہ صورت حال کی وجہ سے ہم اس عظمیم فکری جماعت سے محروم ہوگئے ہیں۔

جناب والا!یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ

نوجوانوں کو ہمارے راہ نما ملک کا مستقبل کہتے نہیں تھکتے۔

انھیں قوم کی امید قرار دیا جاتا ہے، ان کی روشن آنکھوں سے آس لگائی جاتی ہے کہ وہ ہمارے وطن سے اندھیرے دور کردیں گے۔

لیکن جہاں یہ نوجوان کسی کے لیے امید کی کرن ہیں تو کسی کے لیے خوف کا سایہ بھی ہیں، یہی خوف ہے جو ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کے قیام میں رکاوٹ ہے۔یاد رہے کہ ہم فکر اقبال اور بانی پاکستان جناب قائد اعظم کی راہ و منزل اور سوچ سے دوری بلکہ بغاوت اختیار کررہے ہیں۔ ہمارے رہنماوں کو چاہیے کہ وہ بانی پاکستان کی طرح طلبہ سے محبت کریں اور انہیں فکری و نظریاتی طور پر پھلنے پھولنے کے لیے کردار ادا کریں۔ اور اپنے عمل سے ثابت کریں کہ وہ طلبہ سے محبت کرتے ہیں ۔ انہیں طلبہ نے تو ملک و ملت کا مستقبل سنوارنا ہے۔

میرے محترم دوستو!ہماری انکھوں میں ایک منصف مزاج، پرامن، امن و آشتی اور باہمی اخوت کی بنیادوں پر استوار معاشرہ کا خواب سجا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو اپنا مستقبل اس خواب سے وابستہ کرنے کے لئے اعلی اخلاقی اقدار کا علم اور اس پر عمل ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی مروجہ جدید علوم از قسم طب، حرفت، صنعت ، معاشیات وغیرہا کا شعور بھی درکار ہے تاکہ معاشرہ اور اس کے افراد متحرک رہیں اوربہتر معاشرہ کا سفر جاری رہے۔اور یہ سفر صرف اور صرف طلبہ و طالبات کی درست رہنمائی اور بہترین علم وعمل پر ہی منحصر ہے۔ اس بات کو مطمع نظر رکھیں کہ زندگی اپنے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے جینے کا نام ہے۔ انسان سے نفرت کی بجائے اس سے بلا تخصیص رنگ و نسل و مذہب محبت کریں۔

میرے دوستو۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی کیا ذمہ داری ہے۔۔۔َ؟

۱۔آپ اس ملک و ملت کے آمین ہو۔۔۔خدارا اس امانت میں خیانت نہ کریں۔

۲۔ آپ اس ملک کے آئین کے پاسدار ہو۔

۳۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ فکر اقبال اور مشن قائداعظم کی حفاظت کریں۔

۴۔آپ اس ملک و ملک کے جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں۔۔۔۔۔اپنی ذمہ داری کا احساس کیجیے۔

۵۔میرے دوستو۔۔۔۔۔۔ایک انتہائی اہم بات کرنے جارہا ہوں۔۔۔دل و دماغ سے نوٹ کرلیجیے۔

آپ کو یوں محسوس ہو گاجیسے سور ۃالنحل کی آیت نمبرایک سو بارہ اللہ تعالی نے پاکستان کے لیے اتاری تھی ،میں بات آگے بڑھانے سے قبل آپ کو اس آیت کا ترجمہ سناتا ہوں ۔آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے ۔

’’اور اللہ ایک ایسی بستی کی مثال دیتا ہے جس میں امن بھی تھا اور اطمینان بھی اور بستی کے لوگوں کو ہر طرف سے فراوانی سے رزق ملتا تھا لیکن پھر ان لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کی نا شکری کی اور اللہ نے جواب میں انھیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا ‘‘۔

یہ ملک اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت تھا چنانچہ اس میں امن بھی تھا اطمینان بھی تھا اورا س ملک کے لوگوں کو فراوانی سے رزق بھی دستیاب تھا مگر

یوں محسوس ہوتا ہے ہم سب اللہ کے عذاب کا شکار ہیں۔اب ہم طلبہ و طالبات کی ہی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس نہج پر تیار کریں کہ ہم آزادی کی اس عظیم نعمت کو اجتماعی توبہ کرکے، اجتماعی شکر ادا کرکے، امن، اطمینان، فراوانی رزق کو واپس لائیں۔۔ اور خوف، بھوک اور دھشت گردی کو دور بھگائیے۔وما علینا الا البلاغ

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button