کالمز

آگئی ہے جیسے ہر شے میں کمی تیرے بغیر

اکتوبر2001کی بات ہے کہ میں کسی کا م سے اسلام آباد گیا تھا کہ شام کو میرے بزرگ اور محترم استاد سید مہدی کا فون آیا کہ اپ سے کوئی کام ہے روزنامہ پاکستان کے دفتر آنا۔ چونکہ اس وقت محترم سید مہدی صاحب روزنامہ پاکستان اسلام آباد میں بحیثیت ایڈیٹر کام کر رہے تھے اور راقم بھی غذر سے روزنامہ پاکستان کے بیورو چیف حیثیت اپنے فرائض انجام دے رہاتھا اور اس وقت روالپنڈی اور اسلام آباد میں جنگ کے بعد سرکولیشن میں کوئی اخبار تھا تو وہ روزنامہ پاکستان تھا اور گلگت بلتستان میں بھی روزنامہ پاکستان کی سرکولیشن دیگر اخبارات کی نسبت زیادہ تھی جس کی اصل وجہ یہاں کے مسائل کی بہترین کوریج تھی جبکہ دیگر اخبارات میں گلگت بلتستان کی کبھی کبھی کوئی خبر نظر سے گزرتی تھی۔

ایسا کیوں تھا اس کی صرف ایک ہی وجہ تھی کہ اس اخبار کا ایڈیٹرگلگت بلتستان کا ایک سپوت تھا اور وہ سپوت سید مہدی تھے اور راقم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس جیسے محترم استاد کی شاگردی میں میں نے کالم لکھنا شروع کیا۔ آج مجھ جیسے سینکڑوں ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے سید مہدی کا ہاتھ پکڑکرصحافت میں قدم رکھا اور انھوں نے ہر وقت ہمیں یہ نصیت کی کہ شمالی علاقہ جات انتہائی پسماندہ ترین خطوں میں سے ایک ہے اور یہاں کی پسماندگی کو دور کرنا ہے تو ہمیں قلم کے زرو پر یہ جہاد کرنا ہوگا۔ ان کی باتوں پر آج خطے میں جو تبدیلی آئی ہے تو اس میں صحافت کا اہم کردار ہے۔

جب سیدمہدی صاحب سے اسلام آباد میں روزنامہ پاکستان کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو کہنے لگا کہ بیٹا میں گلگت بلتستان کے مسائل کے حل کے لئے ایک ہفتہ روزہ اخبار نکالنا چاہتا ہوں اور اس میں اپ کے مشورے کی ضرورت ہے۔ میں نے عرض کیا کہ سر گلگت بلتستان سے اس وقت تین اخبارات کے ٹو ،بادشمال اور وادی کی اشاعت ہورہی ہے اگر ایک اخبار کا اضافہ ہو تو اس سے اچھی کیا بات ہوسکتی ہے جس پر ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں چند ہفتوں میں ایک اور اخبار کا اضافہ ہوگااور کچھ دن بعد دیکھا تو روزنامہ پاکستان کے فرنٹ پیج میں باقاعدہ اشتہارات آنا شروع ہوگئے کہ بہت جلد ہفتہ روزہ نقارہ گلگت بلتستان کا اشاعت شروع ہوگا اور اشتہارات کے ساتھ ہی اخبارات کے پوسٹر بھی گلگت بلتستان کے کونے کونے میں چسپاں ہونا شروع ہوگئے اور13 دسمبر 2002میں ہفتہ روزہ نقارہ کی اشاعت شروع ہوگئی جس کے بعد یہ اخبار بغیر کسی تعطل کے شائع ہونا شروع ہوگیا۔

اس کے بعد میری اورمیرے محترم دوست راجہ حسین خان مقپون کی روالپنڈی میں میرے استاد محترم سید مہدی کے گھر میں ملاقات ہوئی اور وہاں پر یہ فیصلہ ہوگیا کہ آئندہ کے ٹو اورنقارہ ایک ہی دفتر سے شائع ہونگے اور اس کے بعد ہفت روزہ وادی سمیت یہ تینوں اخبارات ایک ہی دفتر سے شائع ہونا شروع ہوگئے اور جب سید مہدی صاحب کے ہاتھ میںیہ تینوں اخبارات آگئے تو شمالی علاقہ جات کی بیورو کریسی خصوصا کانا ڈوثرن کے بڑوں کی من مانوں کی شہ سرخیوں کے ساتھ خبریں شائع ہونا شروع ہوگئی تو یہ تینوں اخبارات گلگت بلتستان کے عوام کی آواز بن گئیں۔ چند ہی ماہ بعد ہفتہ روزہ کے ٹو کو روزنامہ بنایا گیا۔

کے پی این کے زیر ادارت یہ تینوں اخبارات کی اشاعت کے ساتھ ہی شمالی علاقہ جات، جس کی قسمت کے فیصلے کانا ڈوثرن میں ہوا کرتے تھے اورشمالی علاقہ جات کے نام سے یہ خطہ مشہور تھا، جب اخبارات کی پشیانی پر گلگت بلتستان شائع ہونے لگا توکشمیر افیرز کے بیوروکریسی کے ہوش ٹھکانے آنا شروع ہوگئے اور اس طرح یہ تینوں اخبارات خطے کے ترجمان بن گئے عوام کے مسائل اور یا گلگت بلتستان کے آفسیران جو کئی کئی سال ایک ہی گریڈ میں کام کرتے پنشن پر چلے جاتے تھے ہر ایک کی آواز ان ہی اخبارات کے ذرئعیے وقت کے حکمرانوں تک پہنچناشروع ہوگئے جس کے بعد شمالی علاقہ جات کا یہ خطہ بھی ملک میں عوام کی پہچان بن گیا کہ گلگت بلتستان کا بھی کوئی علاقہ ہے جہاں کی غیور عوام نے اپنے زرو بازو سے آزاد کراکے اسلام کے جذبے سے سرشار ہوکر پاکستان میں شامل ہوگئے تھے ۔

گلگت بلتستان کوآج جو مقام حاصل ہے جس میں سب سے اہم مقام ہماری پہچان گلگت بلتستان کا نام ،تو اس میں ہمارے گلگت بلتستان کے اخبارات خصوصا قابل احترام سید مہدی اور راجہ حسین خان مقپون کا جو کردار رہا ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ان جیسے دلیر صحافیوں کی وجہ سے آج گلگت بلتستان کوترقی کے میدان میں ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لانے کی کوشش ہورہی ہے حالانکہ 2000اور 2001میں شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان ) کا ترقیاتی بجٹ 80اور نوے کروڑ سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔

آج اگر یہ خطہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو اس میں ان دو شخصیات جو آج ہم میں موجود نہیں کا جو کردار ہے وہ تاریخ کا ایک حصہ بن گیا ہیں۔

عوام کے حقوق اور مطالبات ان دونوں شخصیات نےاپنے کالم اور قلم کے ذریعے وقت کے حکمرانوں تک جس موثر انداز میں پہچایا اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔

آج یہ دونوں شخصیات ہم میں موجود نہیں مگر ہمارے دلوں میں ان کی قدر اور عزت ہے وہ ہمارادل ہی جانتا ہے۔

ﷲپاک سے دعا ہے کہ میرے محترم دوست راجہ حسین خان مقپون اور مرحوم سید مہدی صاحب کواپنے جوار رحمت میں جگہ دیں۔

ان دونوں شخصیات کی کمی صدیوں تک رہیگی ۔

بقول شاعر

یاد آتی ہے جو مرحوم تمناؤں کی
بھول جاتا ہوں کہ مرحوم تمنا ہو ں میں

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button