انسان کو زندگی کے تقاضوں نے کیا کم ہی الجھا دیا ہے کہ ہم پھر ریاستی حصول میں بھی سیاسی مفاد کی خاطر سادہ لوح عوام کی آزادی رائے بھی تلف کردیں۔ اب چونکہ سو شل میڈیا نے دنیا کو گلو بلائزیشن کی شکل دی ہے۔ لمحہ بھر میں ایک انسان دنیا کے کسی کونے میں بھی رابطہ کر سکتا ہے۔ پرا نے زمانے میں لوگ دیو مالائی کہانیا ں گھڑتے تھے کہ پریاں یا اور دیو تا اپ کے پیغام کو پہنچاتے ہے، یا آپ کی دادرسی کیلے کسی مسیحہ سے حصول نجات کی امید لاتے۔ اب اس زمانے میں یہ کا م پریوں کا نہیں بلکہ سوشل میڈیا بخوبی انجام دے رہا ہے جو کہ تو ہمات نہیں حقیقت ہے۔ بہر حال جو بھی ہے لیکن جب اظہار رائے کی آزادی ہو تی ہے تو ایک خاص طبقہ اپنی معجزے دکھانا شروغ کردیتا ہے۔ اخر کیوں نہ کریں ۔ پردہ نہ اٹھا و ، پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا ۔ اور یہ خاص طبقہ پاکستان کہ اشرافیہ اور حلقہ اختیار و طاقت جنہوں نے کبھی عقائد اور کبھی غربت کی زلت کبھی بے بسی و خوف کے آلات سے عوامی زہین کو مجروح کیا ۔ اور علم و آگہی سے ہمیشہ عوام کو دور رکھا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جس وقت پریینٹر ایا تھا تو لوگون نے اس کی مخالفت کی، اور ہاتھوں سے لکھنے کو ترجیح دی۔ اسی طرح کئی اور مثالیں ہے۔ مشہور شاعر زمانہ جون ایلیا نے کیا کوب کہا ہے کہ اگر کوئی صاحب ریش ان لوگوں کو یہ کہے کہ یہود و نصاری چاند اور خلا کی کہانیاں گھڑ کر امت کو گمراہ کرنے کی سازش کررہے ہے تو یہ لوگ اس کی بات امنا واصدقنا کہ کر عمل کریں۔ عر ض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ازادی کے بعد سے اج تک ہم اسی پست زہنی کا شکار ہے، جس وقت انگریز کی غلامی میں تھے، اور سر سلطان محمد شاہ، سر سید آحمد خان، قائد اعظم اور علامہ اقبال نے ہمیں شعور کی تعلیم دی ، اور ہمیں غلامی سے نجات دلایا ، لیکن ہم آزادی کہ بعد پھر وہی رہیں، اور اس میں سادہ لوح عوام کو مختلف حربے استعمال کرکے ہمیشہ ماتحت رکھا گیا۔ ہم کہتے ہے کہ ازاد ہوئے حالا نکہ ہم ایک غلامی سے دوسرے غالامی میں پھنس گئے۔ ہمارے اشرافیہ، حلقہ اختیار اور حکومتی اقتدار کبھی ہمیں با شعور ہونے نہیں دیا بلکہ ہماری آزادی کو تلف کرکے ہمیں آزاد پرواز کرنے تک نہیں کرنے دیا۔ اب چونکہ دنیا بدل گئی ، ظلم کا دامن اخر چاک ہو نا ہے اورعلم و اگہی کے شمع کو روشن ہونا ہے تو اب جتنے بھی کوشش کریں، جتنے بھی پا بندیاں لگا دیں ، اب وقت سے حقائق کو دکھانا ہے، اور سماج کے یہ درندہ نما چہرے بے پردہ ہو جائیں گے۔ بات ہو رہی تھی سوشل میڈیا کی تواس وقت دنیا میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد تین3 ارب 77 کروڑ کے لگ بھگ ہے جس میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد دو2 ارب 88 کروڑ ہے۔ جبکہ 2017 کے دوران پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد چار4 کروڑ 40 لاکھ کے قریب ہے اور جس میں سے اکثریت کا تعلق کراچی سے ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوھدری نثار علی کئی بار برملا کہہ چکے ہیں کہ وہ پاکستان میں مادرپدر آزاد سوشل میڈیا کی اجازت نہیں دیں گے۔ان کے مطابق بلاگرز اور نیٹ یوزرز جو فوج کے خلاف مہم چلا رہے ہیں ان کے خلاف بڑے پیمانے پر مہم کی شروعات کر دی گئی ہیں ۔دوسری طرف سینیٹ اور قومی اسمبلی میں حکومت کے ان اقدامات کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت سائبر کرائم کے قانون کا غلط استعمال کر رہی ہے۔
اس سے قبل جب نوجوانوں کے ایس ایم ایس کے استعمال پر پابندی یا اسے محدود کرنے کی بات سامنے لائی گئی تھی توسینیٹ کے سابقہ ڈپٹی چیئر میں جن کا تعلق بلوچستان سے تھا انہوں نے اس تجویز کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے یہاں نوجوانوں کی تفریح کی سہولیات پہلے ہی ناپید ہیں اگر ایسی پابندیاں لگائی گئیں تو اس کے الٹے نتائج ظاہر ہوں گے۔اس وقت سوشل میڈیا کے خلا ف ایسے ہی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جیسے انگریزوں اور فوجی آمریتوں کے ادوار میں فوجداری قوانین توڑنے کے الزمات لگا کر لوگوں کو بے گناہ قید کیا جاتا تھا اور ان قوانین کا سیاسی دشمنوں کے خلاف اطلاق کیا جاتا تھا ۔
کسی دور میں تو مویشی چوری کے الزامات لگا کر مخالفیں کے مویشی سرکاری باڑوں میں ھڑپ کر لیے جاتے تھے ۔ اور بڑے بڑے لوگوں کے خلاف گائے اور بھینسوں کی چوری کے مقدمات درج ہوتے تھے ۔ ٹھیک اسی طرح اب ۔
لیکن گذشتہ کچھ سالوں سےسوشل میڈیا کچھ اتنی تیزی سے پروان چڑھا ہے کہ اس کا شکار ہو کر کئی مالک کی حکومتیں گھر بھیجی جا چکی ہیں ۔ یہ سوشل میڈیا ہی کی کرامت تھی جو عرب اسپرنگ کے دوران لاکھوں کی تعداد میں عوام کو سڑکوں پہ لے آئی اور انہوں نے تیس تیس سالہ پرانے آمروں کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا جس کی ایک مثال مصر بھی ہے ۔ اس لہر سے وہ عرب ممالک بھی متاثر ہوئے جہاں اظہار رائے پر سخت ترین بندش لاگو ہے اور جہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی تھی۔
۔ہمارے یہاں پاکستان میں سوشل میدیا کو کنٹرول کرنے اور اس کی آزادی کے تعین کی بابت ’اینٹی سائبر لاز‘ اور ’رائیٹ ٹو انفارمیشن‘ جیسے قوانین سامنے لائے گئے ۔ اب انہی قوانین کو حکمران اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔ اس سے قبل ملک کے دستور میں اظہار کی آزادی کی ضمانت دی گئی اور یہ آزادی بنیادی حقوق میں شامل ہے لیکن اس کے باوجود ان حقوق کی پائمالی ایک عام سی بات ہے۔ آخر اتنی پابندیاں کیوں ؟ آپ خود فیصلہ کریں ۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button