کالمز

علاقائی زبانیں اور پرائمری نصاب

از قلم اعجازہلبی

ایک محقیق کو تحقیق کی سوجھی۔ اس نے دیکھا کہ سامنے سے ایک مینڈک گزر رہا ہے۔بغرض شامل تحقیق،  پکڑا اور تحقیق خانے لے کر گیا-  تھوڑی سوچ بچار کے بعد محقق نے مینڈک کو ایک ٹیبل کے کونے میں رکھ کر آواز دی۔ مینڈک نے چھلانگ لگادیا۔محقیق نے چھلانگ کا فاصلہ نوٹ کیا۔ مینڈک کو واپس لایا اور ایک ٹانگ کاٹ ڈالا۔ پھر تجربے کو دہرایا۔ اس بار فاصلہ پہلے کے نسبت کم ہوا۔ اسطرح باری باری ایک ایک ٹانگ الگ کرتا رہا اور فاصلہ نوٹ کرتا گیا حتٰی کہ چاروں ٹانگیں کاٹ ڈالا۔ چھٹے بار جب تجربہ دوہرایا۔اور  آواز دی ،تو مینڈک کو ہلنے سے عاری پایا۔ وہ ہل نہ سکا۔

محقق خوش ہوئے اور نتیجہ لکھ دیا کہ اگر مینڈک کے چاروں ٹانگ کاٹ دیاجائے تو مینڈک کے سننے کی صلاحیت ختم ہوجاتی، کیونکہ وہ بہرا ہوجاتا ھے۔

  یہ قصہ اسلیے یاد آیا کہ  سننے میں آرہا ہے کہ گلگت بلتستان حکومت نے مادری زبانوں کی ترقی و تروج کے لیے چار علاقائی زبانوں کو پرائمری سطح کے نصاب میں  شامل کرنے کی منظوری دی ہے اور نصاب کی تشکیل کیلیے ٹیم  بنادی گئی ہے۔ یہ اچھی خبر ہے کہ دیر سےہی سہی مگر  حکومت کو اپنی مادری زبانوں کی تحفظ کا خیال تو ایا۔ اور اس ضمن میں کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

خوشی کی اس دہلیز پر چند پریشانیناں، دل  کی دیواروں سے ٹکرا کر بشکل شکوہ نذرِ قلم یوں ہوئے ہیں کہ، آخرکار حکومت نے کسی حکمت عملی کے تحت یہ سوچا کہ علاقائی نصاب کا انضمام پرائمری سطح پر ہو ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت ادیبی میلے کے شعراء اور علاقائی دانشوروں کی بات کو حرف آخر سمجھ رہی ہے؟

 پریشانی کی بات یہ ہے کہ ذوالسانی نظام تعلیم کی وجہ سے جو بوجھ بچوں پر پہلے سے ھے وہ مزید بھاری بنتا جا رہا ہے۔ پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ پرائمری لیول ایجوکیشن جسکا فوکس کردار سازی، زہنی ارتقاء، عادات سازی اور فکر سازی ہے وہاں ادب اور زبان دانی کی درس و تدریس کا کیا جواز؟۔ پرائمری سطح کی تعلیم میں زیادہ فوکس ایفیکٹیو ڈمینز آف لرننگ پر ہوتا ہے۔ اس لیول پر بچوں پر مزید بوجھ ڈالنے سے پہلے ماہرین تعلیم سے مشاورات انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ مثل مشہور ہے جسکا کام اس کو ساجھے۔۔۔۔۔ قوٰی امکان ہے کہ ناسمجھی میں مادری زباں سے محبت، نسل ائندہ کیلیے سبب رسوائی ہو۔

 پریشانی کی بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی تعلیمی نظام پرائمری سطح پر درس ادب و زبان دانی کی حمایت نہیں کرتا۔ مڈل لیول پر جہاں مرکز توجہ ، تحقیق، سائنس شناسی، جغرافیہ شناسی ، فلکیات شناسی اور ریاضیات و میکانیات ہونا چاہیے ۔ وہاں پر پہلے سے ہی اردو، عربی، فارسی انگریزی اور دینیات کا بوجھ بچوں کی قوت برداشت پر سوالیہ  نشان لگا رہا ہے- مزید نصاب کا انضمام بہت اذیت ناک ثابت ھوگا۔ میڑک اور انٹرمیڈیٹ کا فوکس کیرئیر پلاننگ پر ہے۔ ایسے میں ان کا مرکز نگاہ ہلانے سے دور رس معذوریاں پیدا ہوسکتی ہیں ۔

اگر ہم ان تمام حالات کا بغور  بنگاہ طاہرانہ مشاہدہ کرے تو یہ چند سوالات ابھرتے ہیں کہ  کیا٪100 بچوں کو مادری زبان بمثل اسلام پڑ ھنا ضروری ہے؟ کیا  ٪100 یچے لینگویج انٹیلجنس (لسانی ذہانت) کے مالک ہیں؟ کیوں کہ زباں دانی کی اپنی قابلیت ہوتی ہے-

ہم سب نے کم وبیش 5 سال فارسی اور عربی  پڑھی ہے، کیا ہم سب فارسی اور عربی لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں؟  پریئمری اور مڈل سطح پر عربی اور فارسی ھمارے سیلیبس میں شامل ھونے کے باوجود ھم ان سے نابلد ہیں۔ ان محرکات کو سامنے رکھتے ھوے ایک بات واضح ھوجاتی ہے اسکول سطح پر مزید بوجھ ڈالنے سے پہلے متعلقہ محقیقین سے مشاورت انتہائی لازم ہے۔

بحیثیت نوجواں ہمارے لیے یہ بات قابل فخر ہے کہ ہماری حکومت اپنی ادب سے محبت رکھتی ہے۔ ہم ہر قدم  ان کے ساتھ پیں۔

مگر لمحئہ فکریہ یہ ہے کہ تبدیلی کی  آہٹ کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا ہرغیر منظقی قدم آنے والی نسل کے لیئے مصیبتیں کھڑی کرےگا۔ اس لیئے ضروری امر ہے کہ ھم جذبات کو منطق  کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے آگے بڑہیں۔

زبان دانی اور تدریس ادب، آیاتگو (انڈراگوگی) کے زمرے میں آتے ہیں ۔ اس لیے یہ بہترین امر ہے کہ ان چار زبانوں کو یونیورسٹی لیول پر لینگوسٹک گروپ میں کمپلسری مضامین کے طور پر شامل کیا جائے، تاکہ زباندانی پہ تحقیق کرنے والوں کیلیے بھی تحقیق کا ایک مرکز ہو اور وہ شوق اور دل سے اپنے تحقیق کو اگے بڑھائے۔

بصورت دیگر  بمثل مینڈک، زباں پر تحقیق ہر  کوئی کر یگا اور زباں کو بھی اک دن جامد اور بہرا ٹھہرائےگا ۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button