کالمز

سیاسی جماعتیں اور شیور مرغیاں 

سوشل میڈیا کے بانیان نے بہت بڑا ظلم یہ کیا ہے کہ ،،ڈیجیٹل گالیوں،،کے آپشن کے ساتھ ڈائریکٹ سیاسی اختلاف کرنے والوں کو گالی کے ساتھ گولی مارنے والا کوئی آپشن نہیں رکھا ہے ۔

اب دیکھیں نا ،شیور مرغیوں کی طرح وقت سے پہلے جوان ہونے والی سیاسی جماعتوں کو کتنی مشکل پیش آرہی ہے کہ ،سیاسی اختلاف کرنے والوں کے خلاف ،،ڈیجیٹل گالیاں تو دے سکتے ہیں لیکن سیاسی مخالف کو ڈائریکٹ گولی نہیں مار سکتے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سوشل میڈیا کے بانیان ایسا کوئی آپشن رکھتے! شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ مستقبل قریب میں سیاسی جماعتوں کو اس آپشن کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی ۔

خیر اب شاید ایسا آپشن آجائے کیونکہ سوشل میڈیا کی بڑی مارکیٹ پاکستان بھی ہے اوراس آپشن کی زیادہ ضرورت ان سیاسی جماعتوں کو ہے جو شیور مرغی کی طرح وقت سے پہلے جوان ہو کر ،سیاسی خطرناک بیماریوں کا باعث بن رہی ہیں ،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قدرت کے قانون سے جب بھی بغاوت ہوئی وہ عمل معاشرے کیلئے تباہی کا باعث بن گیا ،پیدائش سے لے کر جوانی اور بڑھاپے سے موت تک ایک قدرتی عمل ہے جس سے گزر کر آگے بڑھا جائے تو وہ عمل نقصان دہ نہیں ،مثال کے طور پر ہم شیور مرغی کو ہی لے سکتے ہیں شیور کو وقت سے پہلے ہی مصنوعی طریقے سے جوان کیا جاتا ہے اس میں کیمیکل کا استعمال بھی ہوتا ہے اور فیڈ کا بھی ،یہی وجہ ہے شیور مرغی کو طبی ماہرین مضر صحت اور جسمانی بیماریوں کا موجب مانتے ہیں۔

بلکل اسی طرح، سیاسی جماعتوں کو بھی ریاضت اور سیاسی طبعی عمر سے پہلے جوان کرنے کی کوشش کی جائے تو بالکل شیور مرغی کی طرح نتائج نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ ایسے ہی سیاسی جماعتوں کو وقت سے پہلے سیاسی فیڈ اور سیاسی کیمیکل دے کر فربہ اور جوان کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ سیاسی ماحول کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتیں ہیں ۔سیاسی جماعتوں کو ایک جہد مسلسل اور سیاسی تربیت سے گزرنا ہوتا ہے تب جا کر اس سیاسی جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں میں اخلاقیات اور سیاسی اختلاف کو دلیل سے سے رد کرنے کا فن آتا ہے اگر یہ عمل نہ کیا جائے تو نتیجہ وہی ہوتا ہے جو آج کل ہمارے ملک میں ہو رہا ہے۔

ایک سیاسی جماعت شیور مرغی کی طرح وقت سے پہلے ہی جوان ہو کر معاشرے کی اخلاقیات ،روایات اور تمام تر سیاسی شائستگی کو بہا لے گئی اور اب ماحول ایسا بن چکا ہے کہ اگر کوئی صحافی ان سے سیاسی اختلاف کی جر ات کرے تو وہ لفافہ صحافی بن جاتا ہے اور کوئی سیاسی رہنما اختلاف کرے تو اس کو چور اور ڈاکو کالقب عطا کیا جاتا ہے ۔اس سیاسی جماعت کے ہر کارکن کی جیب میں القابات اور ڈیجیٹل گالیوں کا خزانہ ہوتا ہے اور ستم یہ کہ بیان ،تحریر اور سوشل میڈیا پر آدھی تحریر اور پوسٹ پڑھ کر ہی ڈیجیٹل گالیوں کی پوٹلی کھولتے ہیں پوری تحریر پڑھ کر سمجھنے کی بھی تکلیف گوارا نہیں کرتے!

ایسا کریں بھی کیوں؟ ان کی تو ڈیوٹی ہی گالیاں دینی ہیں ،بس گالی دے کر ہی رفو چکر ہوتے ہیں۔صحافی جائے تو جائے مگر کہاں، کیونکہ صحافی لکھتا ہے تو ظاہر بات ہے کسی کے حق میں بات جاتی ہے تو کسی کے خلاف۔ ماحول یہ بنا ہے کہ صحافی کی بات کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے اس کی ذات پر کچڑ اچھالنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے جاتا ہے اور جس کے حق میں بات جائے تو ان کے نزدیک وہ بہت بڑا صحافی ہے یہ دہرا معیار کہیں ہمارے معاشرے کو برباد نہ کر دے ۔۔۔۔

پرانے لوگ کہا کرتے تھے کہ کسی گھر کے بڑوں کی ذہنی حالت ،تربیت ،مزاج اور ان کے رہن سہن کے حوالے سے معلوم کرنا ہو تو اس گھر کے بچوں سے مل کر چار باتیں کریں گے تو سب معلوم ہوگا۔یہ بھی کہا جاتا تھا کہ لفافہ کو دیکھ کر خط کے مضمون کا اندازہ ہو جاتا ہے ،اب خطوط کا دور تو ختم ہو گیا اب سوشل میڈیا کا دور ہے اب کہہ سکتے ہیں کہ کسی کی پروفائل اور وال پر پوسٹیں دیکھ کر اس کی سیاسی تربیت اور اس کی سیاسی جماعت کی اصلیت کا اندازہ کر سکتے ہیں بالکل ایسے ہی کسی سیاسی جماعت کی سیاسی پختگی اور سیاسی تربیت کا اندازہ کرنا ہو تو اس سیاسی جماعت کے کا ر کنوں سے مل کر یا آج کل سوشل میڈیا میں سیاسی اختلاف کریں تو اندازہ ہو جائے گا کہ اس سیاسی جماعت اور اس کے رہنماؤں کی سیاسی تربیت کتنی ہے اور پختگی و شائستگی کتنی ہے ۔۔۔

ایک بات کا اظہار کرتاچلوں کہ میرا بھٹو اور محترمہ بے نظیر کی پیپلز پارٹی سے نہیں ،،زرداری کی پیپلز پارٹی،، سے شدید اختلاف رہا ہے۔ لیکن میں داد دیتا ہوں پی پی پی کے کارکنوں کو کہ ان کے اندر کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکنوں سے بہت زیادہ تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہے۔ دوسری طرف ن لیگ کے کارکن ہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی ،جمیعت علماء اسلام یہ وہ جماعتیں ہیں جن کی سیاسی پرورش شیور مرغی کی طرح نہیں ہوئی، اس لئے ان میں برداشت کا مادہ بھی ہے۔

لیکن اللہ کی پناہ ان جماعتوں سے جو شیور کی طرح وقت سے پہلے جوان تو ہوئی ہیں لیکن نہ ان کے رہنماؤں میں اخلاقیات کا کوئی عنصر پایا جاتا ہے اور نہ ہی کارکنوں میں سیاسی اختلاف کے برداشت کا حوصلہ، ان میں ایک جماعت کے کارکنوں کے پاس تو خوش قسمتی سے سوشل میڈیا میں آپشن نہیں ورنہ سیاسی مخالفت کرنے والے سیاسی کارکن اور صحافی کو ،ڈیجیٹل گالی کے ساتھ گولی مارتے اور ایسے میں پورے ملک میں صرف اس جماعت کے کارکن ہوتے اور ایسے میں نہ رہے بانس تو نہ بجے بانسری ،والی صورتحال ہوتی،،،،،

اس میں اس جماعت کے کارکنوں کا کوئی قصور نہیں اس کے رہنما ہی جلدی میں ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ جلدی میں شیطان ہوتا ہے ،اب جو عمل وقت سے پہلے انجام دیا جائے اس کے نتائج بھی ایسے ہی ہوتے ہیں ،سیاسی تربیت کے لئے سیاسی جماعت کی سیاسی عمر اور سیاسی ریاضت کا بڑا دخل ہوتا ہے مسلم لیگ ،پیپلز پارٹی ،جمیعت علماء اسلام اور جماعت اسلامی اپنی سیاسی جوانی سے بھی گزر کر بڑھاپے تک آچکی ہیں اور بڑھاپے میں ہی اصل تجربہ حاصل ہوتا ہے ایسے میں ان کے کارکنوں میں بھی سیاسی حوصلہ اور حزب مخالف کی باتوں کو برداشت کرنے کا فن ہے ان جماعتوں کے کارکن سیاست کی گرم بھٹی سے گزر کر کندن بن چکے ہیں اب جو سیاسی جماعت جمعہ جمعہ آٹھ دن میں مصنوعی طریقے سے جوان ہو کر اقتدار کی کرسی کی طرف چھلانگیں مارے تو اس کے کارکنوں کو تو سیاسی تربیت کا وقت کہاں سے ملتا۔

اس گالم گلوچ اور طوفان بد تمیزی کے ماحول میں میرا مشورہ تو سب سیاسی کارکنوں کو یہی ہوگا کہ اس جماعت کے کارکنوں اور رہنماؤں کی وقت سے پہلے مونچھیں نکلی ہیں اور جوانی چڑھی ہے اس لئے ان سے الجھو گے تو بہت بری طرح مار بھی کھاؤ گیااور گالیوں کا تحفہ بھی بونس میں ملے گا۔ دلیل نامی چیز کا تو ان کے ہاں سے کھبی گزر بھی نہیں ہوا ہے۔ اس لئے عافیت اسی میں ہے کہ اس  جماعت کے کارکن دور سے بھی نظر آئیں تو پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کرو کیونکہ ان کے ہاں دلیل نہیں غلیل ہوتی ہے ۔جہاں دلیل نہ ہو وہاں جہالت ہوتی ہے جہاں جہالت ہو وہاں معاشرے کی بری حالت ہوتی ہے ،آئیں سب مل کر رب سے التجا کریں کہ ہمیں شیور مرغیوں سے بھی بچائے اور شیور سیاسی جماعتوں سے بھی۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button