وادی بروغل چترال ٹاؤن سے دوسوپچاس(250) کلومیٹر شمال کی جانب واقع انتہائی پسماندہ علاقہ ہے ۔یہ وادی پاکستان کو افعان صوبے واخان سے ملاتی ہے پاکستان اور تاجکستان کے درمیان صرف آٹھ کلومیٹر واخان کی یہ پٹی موجود ہے۔موسم سرما میں اس وادی میں دس سے بارہ فٹ برف پڑتی ہے جس کی وجہ سے علاقے میں معاشی سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ بروغل سطح سمندر سے تقریبا چودہ ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے یہی وجہ ہے کہ اس وادی میں فصلیں وقت مقررہ پر پک کر تیار نہیں ہوجاتی۔علاقے کے لوگوں کی زندگی کا سارادارومدار مال مویشیاں پالنے پہ ہیں۔انتہائی اونچائی پر واقع ہونے نیز شدید ترین موسمی حالات اور شعور کے فقدان کی وجہ سے یہاں کے لوگ سردی سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے افیون کا استعمال کرتے ہیں۔ یہاں کے باسیوں کی اکثریت افیون کی لت میں مبتلا ہیں۔ حکومتی عدم توجہی اور غیر سرکاری اداروں کی غیر فعالیت کی وجہ سے یہاں پسماندگی کا دور دورہ ہے۔یہاں کے باسی وخی زبان بولتے ہیں۔ علاقے کے لوگوں میں شرح خواندگی بھی بہت کم ہے۔البتہ دور جدید میں چند غیر سرکاری تنظیموں کی وساطت سے بروغل کے نوجوانوں کو چترال کے دوسرے علاقوں میں لے جاکر ان کے لئے تعلیم کا بندوبست کیا گیا ۔درحقیقت وخی زبان بولنے والے افراد بام دنیا یعنی پامیر کے اردگرد مقیم ہے۔ ان میں چترال کے وادی بروغل، اپر ہنزہ گوجال ، افعانستان کے واخان، تاجکستان اور چین کے انتہائی بالائی علاقے شامل ہیں۔
سن 2010ء کو محکمہ وائلڈ لائف نے بروغل کے پورے علاقے کو کمیونٹی منیجمنٹ نیشنل پارک قرار دیا تھاجو کہ تقریبا ایک لاکھ چونتیس ہزارسات سو چوالیس ایکڑ رقبے پر محیط ہیں۔ اس سے قبل اسی محکمے نے چترال گول کو بھی نیشنل پارک کا درجہ دیا تھا۔ 2 ستمبر 2015ء کو محکمہ جنگلات حکومت خیبر پختونخواہ نے Development & Management of National Park in KP کے نام سے ایک پراجیکٹ کے لئے اخبارات میں اشتہار دیا جس میں صوبے کے اندر موجود نیشنل پارکوں میں مختلف اسامیوں کے لئے درخواستین مانگی گئی تھیں۔ چونکہ بروغل میں مواصلات کا کوئی انتظام نہیں ہے اور نہ ہی وہاں ان اسامیوں کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی اشتہار دیا گیا،یہی وجہ ہے کہ بروغل کے عوام کی اکثریت ان خالی اسامیوں سے بے خبر رہیں ۔البتہ علاقے سے تعلق رکھنے والے چند نوجوان جو بروغل سے باہر تھے انہوں نے اس سلسلے میں درخواستین جمع کی۔جانچ پڑتال اور اقراباپروری کے طویل پراسس سے گزرنے کے بعد بالآخر چند ماہ قبل ان خالی اسامیوں پر بھرتی کا عمل مکمل ہوا۔ جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ بروغل نیشنل پارک میں واچر کی چھ ، دو وائلڈ لائف ڈپٹی رینجر ،ایک ایس ڈی ایف او، ایک آفس اسسٹنٹ ،ایک پوسٹ سوشل آرگنائزر، نائب قاصد ،چوکیدار اور ڈرائیور کی ایک ایک آسامیاں تھیں ۔سوشل آرگنائزر کے لئے مردان سے تعلق رکھنے والی خاتون، آفس اسسٹنٹ کا تعلق پشاوراور ایس ڈی ایف او کا تعلق دیر سے ہیں۔ واچر یا نگہبان کی پوسٹوں پر تین سو کلومیٹر زرین واقع دروش، جغور،کوشٹ، مستوج، چپاڑی اور میراگرام سےتعلق رکھنے والے افراد کی تقرری عمل میں لائی گئی ۔ جبکہ چوکیدار ، نائب قاصد اور ڈرائیور کا انتخاب بھی مستوج، تورکہواور چپاڑی کے افراد کا ہوا۔ امین جان تاجک ویلج کونسل بروغل کا ناظم اور نوجوان سماجی کارکن ہے انہوں نے بتایا کہ ‘سن 2010ء میں محکمہ وائلڈ لائف چترال نے بروغل کے بے چارے اور سادہ لوح عوام کو سبز باغ دکھا کر بروغل کے پورے علاقے کو کمیونٹی منیجمنٹ نیشنل پارک قرار دیا تھا ۔ اس وقت وائلڈ لائف کے افسروں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ نیشنل پارک کے ڈیکلئیریشن سے بروغل کے عوام کو بہت فائدہ ہوگا اور یہ کہ بروغل نیشنل پارک کے قیام سے روزگار کے بہت سارے مواقع پیدا ہونگے ۔ جن پر مقامی لوگوں کی تقریری ترجیحی بنیادوں پر کی جائے گی ۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ سب وعدے ایفا نہ ہوسکے ۔حال ہی میں بروغل نیشنل پارک کے انتظام کو بہتر بنانے کے لئے واچر ز اور دیگر اسامیوں کا اشتہار دیا گیا ۔بروغل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے بھی درخواستین محکمہ وائلڈ لائف چترال کے دفتر میں جمع کیا لیکن مقامی افراد کی موجودگی کے باؤجود بروغل سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد کی تعیناتی نہ ہوئی ۔ کسی بھی پراجیکٹ کی کامیابی میں کلیدی کردار سوشل آرگنائزر کا ہوتا ہے لیکن محکمہ کی نااہلی اور اقراباپروی اس بات سے عیان ہے کہ بروغل جیسے دشوار گزار پہاڑی علاقے کے لئے مردان سے تعلق رکھنے والے خاتون کی تعیناتی عمل میں لائی گئی” امین جاان کا مزید کہنا تھا کہ” اگر ان تعیناتیوں کو جلد ازجلد منسوخ کرکے بروغل کے عوام کو ان کا جائز حق نہ دیا گیا تو وہ احتجاجا خود سوزی کرنے پر مجبور ہونگے”۔
دیکھا جائے تو بروغل کے عوام کو اس نیشنل پارک سے واحد فائدہ ان ملازمیتوں کی شکل میں ملنے کی امید تھیں جس پر کے پی حکومت اور محکمہ وائلڈ لائف اینڈ فارسٹ نے پانی پھیر دیا۔نیشنل پارک کی حفاظت واچر کی ذمہ داری ہوتی ہے چونکہ موجودہ سلیکشن میں واچرز کی پوسٹوں پر غیر مقامی افراد کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے اب ایسے لوگوں کے ذریعے ایک دور افتادہ اور انتہائی دشوار گزار وادی میں جاکر نیشنل پارک کی حفاظت کروانا ممکن نہیں۔ اسی طرح کسی بھی پراجیکٹ کی کامیابی میں سب سے کلیدی کردار سوشل آرگنائزر کا ہوتا ہے۔ بروغل نیشنل پارک کے لئے مردان سے تعلق رکھنے والے خاتون کو بطور سوشل آرگنائزر مقرر کیا گیا ہے ۔پٹھان کلچر سے تعلق رکھنے والے خاتون کے لئے اس دور دراز علاقے میں جا کر وہاں کے لوگوں کو موبلائز کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن امر ہے۔اس کے علاوہ بروغل کے مرکزی مقام لشکر گاز تک گاڑیوں کا راستہ پہنچا ہے اس سے آگے بروغل نیشنل پارک تک پہنچنے میں تین گھنٹےگھوڑوں پر سواری کرتے ہوئے جانا پڑتا ہے۔ راستے میں ٹوائلٹ سمیت کسی قسم کی سہولیات کا فقدان ہے ایسی صورت میں مردان سے تعلق رکھنے والے خاتون کا بطور سوشل موبلائزر بروغل جاکر سروس دینا ممکن نہیں۔ پھر وہاں کئی کئی دنوں تک ایک ہی ٹینٹ میں سارے افراد کو مل کر رہنا پڑتا ہے۔ جبکہ علاقے کے رسم ورواج اور زبان سے ناواقف کسی فرد کا وہاں جاکر اس منصوبے کو کامیاب بنانا بعید ازقیاس امر ہے۔
انہی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف سماجی حلقے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ان غیر منطقی تعیناتیوں کو فی الفور منسوخ کردیا جائے۔ علاقے کے لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر یہ تعیناتی منسوخ نہ ہوئی اور باہر سے بھرتی ہونے والے افراد نے بروغل میں قدم رکھنے کی کوشش کی تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہونگے اور کسی بھی ناخوش گوار واقعے کی ذمہ داری محکمہ جنگلات اور صوبائی حکومت پر عائد ہوگی۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button