کالمز

فکر آدم اور بدلتے حالات

وقت نے انسان کو سماج سے منسلک حالات و ضروریات سے مختلیف رنگ دکھا دیئے، انسانی خوابوں کی حقیقت بنتی تصویر اور امید کی حتمی صورت میں یقین کے اوصاف نے ایک سلسلہ وار جستجو کا راستہ ہموار کیا، جو کہ ہمیشہ ایک بدلتے دنیا کی تصویر پیش کرتی رہی۔ انسانی زندگی کے ارتقائی عمل میں آگہی کے پیغمبر کو مختلیف کرامات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن سماج کے حال ، ماضی اور مستقبل کے یہ مراحل خیالات کے معرکے میں بہ حسن خوبی انسان اور انسانی سماج میں بد لتے صورتوں سے ہمیشہ فتح حاصل کرتی رہی۔ وہ معجزہ جو صرف امید کے بطن سے پھوٹتا ہے ، وہ امید جو ہر زمانے اور خطے میں چہرے بدلتی رہی ہے،جو آگہی اور زندگی کی امید ہے۔ آدم کی کہانی نے خیر اور شر اور ساتھ میں خدائی حسن کو بہ خوبی اشکار کیا۔ فطرت کا غضب اور بت شکن کی تعبیر  باہم متضا د نہیں۔  فرعونیت اور ظلم کے بحر سلاسل میں انسانیت کا خواب بھی ممکنات کا جز ہے۔  اعظیم بلا آخر اعظیم تر ہے۔بہتر تھا کہ عیسیٰ ابن مریم کی صلیب کسی اورسے اٹھوائی جاتی خاص طور پر ان سے جو روم کے روساء کی امارت کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ بتایا جاتا ،اسے کیوں مسیح کہتے ہو ؟یہ کیسے مسیح ہو سکتا ہے اس کو تو تین سو برس بعد وہ لوگ مسیح کہیں گے جو آج اسے مصلوب کر رہے ہیں؟ گوتم کو نروان ملا تو برگد کے پتوں نے اعتراض کیوں نہیں کیا جاو بھئی نروان سے تمہارا کیا لینا دینا یہ تو ان کو ملنا چاہئے جو تمہاری راج دھانی کی ہر کونے میں اپنے پرکھوں کی طرح بیجائی کرتے ہیں، دھوپ سہتے ہیں، اور پسینے کی ہر بوند کے ساتھ اس دھرتی سے نروان کی فصل کا پھل پاتے ہیں؟ تم بدھا نہیں ہو تمہیں تو وہ لوگ بدھا کہہ رہے ہیں جو خود آگہی کے ہر دکھ سے محروم ہیں۔ کسی نے کیوں نہیں کہا کہ رسول اللہ !کیا کرتے ہیں؟ ان کو معاف کرتے ہیں جو آپ کے بعد کبھی ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوں گے، جو آپ پر پتھر برساتے رہے، جھوٹا کہتے رہے، جو آپ کے خانوادہ کو بھی نہیں بخشیں گے؟ کوئی کیوں نہیں تھا وہاں تیان من سکوائر پر جو سمجھاتا کہ اس ایک آدمی کی تصویر کیوں کھینچتے ہو ظلم کے خلاف تو بہت سے اور لوگوں کی تصویر کھینچی جاسکتی ہے۔ کہاں تھے وہ جو کہتے کہ لو بھئی جیل میں رہنے اور نظر بند ہونے سے بھی بھلا کوئی تبدیلی آتی ہے،جیل تو چور اور لٹیرے بھی جاتے ہیں پھر یہ جو کالے گورے کی تقسیم ختم کرنے کو تیس برس جیل میں رہا یہ کون سا کارنامہ ہے۔ مفت کا کھانا اور رہنا۔ اس میں کیا عظمت ہے؟

مگر صاحب اگر یوں ہے تو پھر تاریخ کی کوئی عظیم شخصیت عظیم نہیں۔ وہ شخص جس نے پہلی بار آگ دریافت کی، جس نے سوچا کہ مجھے بنانے والا کون ہے، جس نے کہا کہ علم نیکی ہے، جو جنگ کریمیا میں لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھتی رہی، جو ملیشیا پہنتا ہے اور ایمبولینس میں لاشے، مریض اور زندگیاں ڈھوتا ہے، جس نے کہا کہ میں حق ہوں اور جس نے کہا کہ ہر شے پر شک ہو سکتا ہے مگر اس پر نہیں کہ میں شک کر رہا ہوں، جس نے خیال کو رنگ کی صورت میں غار کی دیوار پر ابھار دیا، جس نے کھیتی میں پہلا بیج ڈالا، جسے لگا کہ کھیتی کسان کی اور کارخانہ مزدور کا۔۔۔ جو اٹھا اور کہا کہ سیاہ رنگت کمتری کی علامت نہیں۔ جس نے دھوتی پہن کر ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑی جو جیل میں رہے اور جیت گئے، جو انقلاب زندہ باد کہتا تھا اور شادمان چوک پر جھول گیا۔ جس نے پہلا حرف لکھا تھا۔ جو یہ سوچتا تھا کہ سمندر کے اس پار بھی کوئی نئی دنیا ضرور ہے۔ جس کے لئے زمین چپٹی اور کائنات کا محور نہیں تھی۔

 فیصلہ سچ کی حمایت کرنے والوں سے ہوگا،کیوں کہ ماتم حسین بھی کسی زینب کا محتاج ہے۔ کسی حواری کو مخبری کی بھینٹ چڑھنے والے کے زندہ ہونے اور پانی پر چلنے کی کرامات کا بیان بھی تو کرنا ہے۔ کوئی تو ہو جو کنعان میں یوسف کے انتظار میں نابینا ہو جائے۔ اعتراف کرنے اور ایمان لانے کی روایت بھی تو کسی کو زندہ رکھنی ہے۔ کسی کو تو گولی کھانے والی کے استقلال کا ساتھ دینا ہوگا۔ مگر سچ کا ساتھ دینے کی روایت کو زندہ رکھنے والوں کو اپنے قبیلے کے ہر جرم کی صفائی کب تک دینی ہے؟ کب تک روایت کرنے والوں کی شناخت کی پرچیوں پر درج قومیت اور ولدیت پر بتایا جائے گا کہ کون مستند ہے اور کون غیر مصدقہ؟ تاریخ کے تعصب کا بوجھ کتنی نسلیں اٹھائیں گی؟

یورپ اور امریکہ کی تاریخ پر پڑے خون کے چھینٹے ہیں اور یورپ اور امریکہ کا ہر فرد اس کا ذمہ دار ہونے کے باعث کسی سازش کا حصہ ہے تو اپنے اجداد کی خونریزیوں کا حساب ہم سب کو بھی دینا ہوگا۔ وہ جو تلواریں اٹھائے ہندوستان پر چڑھ دوڑے، بحر ظلمات کے اس پار کی ہر بستی کو تاراج کرتے رہے وہ جو بغداد کے حرم آباد کرنے کو دشمن کی عورتیں غنیم کا مال بنا کر لے آئے، جو اسکندریہ کے کتب خانوں کو جلانے والے تھے جو آئے اور پانچ ہزار مندروں کو ڈھا کر ہندوستان کو کلمہ پڑھاتے رہے، جو ہر اختلاف کرنے والے کے منہ پر کفر تھوکتے رہے جو شہروں کے دروازوں پر پہنچتے تھے تو خوف وبا بن کر ہڈیوں کے ڈھانچ تک چاٹ گیا، وہ اسلاف کی میراث کون اٹھائے گا۔ ہلالی تلوار سے رستے لہو کے قطرے جو اگرچہ لال ہی ہے مگر بہانے کو جائز تھا اس کاخون بہا کون دے گا۔ کل کو اگر ہر کسی نے اپنے اپنے گڑے مردے اکھاڑ کر عدالتیں سجا لیں تو کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہو گا جس کے اسلاف کے ہاتھوں کسی دوسرے کے بڈھڑوں کی داڑھیاں خون سے تر نہ ہوں۔ کوئی ایک بھی نہیں ہو گا جس کے اسلاف میں لوٹی گئی اور لٹوائی گئی عورتوں کے دودھ کی کوئیدھار نہ ہو۔ اوریا صاحب اگر ہر یہودی اسرائیل کی ہر گولی کا ذمہ دار ہے تو پھر آپ بھی پرکھوں کے بہائے گئے خون کے ہر قطرے کے زمہ دار ہیں۔ اگر ہر امریکی بغداد کی عورتوں سے جنسی زیادتی کا ذمہ دار ہے تو پھر بنگالیوں کے ہاں نیلی آنکھوں والے بچوں کی ولدیت میں بھی پاکستانی مردوں کا نام لکھنا پڑے گا۔ اگر ہر یورپ واسی نوآبادیاتی استحصالی ہے تو پھر مال غنیم کی ایک ایک پائی ہم سے بھی وصول کی جانی چاہئے جس سے بغداد، دمشق اور بصرہ کی گلیاں آباد ہوئیں۔ پھر بنگال میں دھوتیاں کھول کھول کر مسلمانیاں سبھی نے جانچی ہیں۔

لیکن آخر یہی بات ہے کہ فیصلہ سچ کی حمایت کرے والوں سے ہو گا۔ اہل شعور ضرور پیغام کو سمجھے ہوں گے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button