اس ملک میں اپنے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس دینے والے لوگوں کو آئین نامی شے نے ضرور اہمیت دی ہے مگر عملی طور پر ان کے ساتھ ہمیشہ غلاموں والا سلوک ہوتا رہا ہے ۔اس ملک میں وہ لوگ وی آئی پی تصور کئے جاتے ہیں جو عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آتے ہیں یا عوام کے پیسوں سے زندگی بھر تنخواہ بٹورتے ہیں۔ عوام پہلے ہی بہت ساری مشکلات اور مصائب کا شکار ہیں ایسے میں یہی نام نہاد وی آئی پی لو گ جب کسی سڑک سے گزرتے ہیں تو غریب اور بے بس لوگوں کی آہ و بکا دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ایسے مواقعوں پر مریض ، طلبہ ، خواتین ، بزرگ ، بچے ، مزدور اور ملازم پیشہ افراد ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں ۔ وہ عام دنوں میں جن راستوں سے گزرتے ہیں ایسے مواقعوں پر وہ راستے سارا سارا دن ان کی آمدو رفت کے لئے بند کر دئیے جاتے ہیں۔وہ لاکھ عذر پیش کریں مگر ان سے دو ٹوک الفاظ میں کہا جاتا ہے کہ وہ کوئی اور راستہ اختیار کریں یہاں سے وی وی آئی پی موومنٹ ہونی ہے۔
ایسے کئی مواقع راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں جب غریب لوگ پیدل ذلیل و خوار ہوجاتے ہیں وہ ایک روٹ بدل کر دوسرے روٹ میں جاتے ہیں وہ بھی بند ہوتا ہے پھر ان کو تیسرے اور چوتھے روٹ کی تلاش میں ذلیل ہونا پڑتا ہے۔وہ وی آئی پی شخص کسی عالی شان ہوٹل میں کھانا تناول فرمارہا ہوتاہے یا کسی اجلاس کے نام پر خوش گپیوں میں مشغول ہوتا ہے یا چہل قدمی کر رہا ہوتا ہے ا یسے میں اُس شہر ، محلہ یا علاقے کے مکین ان کی آمد پر خون کے آنسو بہاتے اور سیکورٹی کے نام پر عذاب جھیل رہے ہوتے ہیں۔ ان کی آمد عام شہریوں کے لئے باعث راحت نہیں بلکہ ایک بڑی عذاب بن کرنازل ہوجاتی ہے۔ لوگ ایسے وی آئی پیز کو دل کھول بد دعا ئیں اور گالیاں دیتے ہیں مگر سیکورٹی کے سخت حصار کی وجہ سے وی آئی پی تک ان کی کوئی بد عا یا گالی نہیں پہنچ پاتی ہے۔ اس ملک کے تمام مسائل ایک طرف مگر وی وی آئی پی کلچر ایک طرف ہے۔ جس دن وی آئی پی کلچر ختم ہوگا ملک کے بیشتر مسائل کے حل میں آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔
آجکل صدر مملکت ممنون حسین گلگت بلتستان کے دورے پر ہیں اور گزشتہ تین دنوں سے ان کی مختلف سرگرمیوں کے لئے سیکورٹی کے نام پر عوام کو جس کرب سے گزرنا پڑ رہا ہے شاید وہ خود اگر اس کرب سے گزرتے تو اب تک کسی ہسپتال میں داخل ہو چکے ہوتے۔
آج صبح راقم جب گھر سے نکلا تو گھر کی گلی میں پولیس اہلکار دیکھ کر اندازہ ہوا کہ آج اس کرب سے گزرنا ہماری قسمت میں آیا ہے۔ دل کر رہا تھا کہ گلی کے آخر میں کھڑے پولیس جوان کو آج اصل کہانی سے آگاہ کیا جائے مگر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ یہ بے چارہ تو مجبور ہے تنخواہ کے لئے ڈیوٹی دیتا ہے اس کو انسانی حقوق، آئین ، اور شہری حقوق سے کیا غرض۔
جوں ہی مین روڑ پر نکلا تو دور کھڑا ایک پولیس اہلکار زور زرو سے وسل بجا رہا تھا اور روڑ پر کھڑی گاڑی کو ہٹانے کا اشارہ دے رہا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں سیدھے اس پولیس نوجوان کے پاس گیا اور کہا جوان اس گاڑی والے کا گھر ادھر ہی ہے صدر کے آنے پر یہ اپنا گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا آپ کیوں وسل پہ وسل بجائے جا رہے ہیں؟نوجوان نے سنی ان سنی کر دی اور کہا یہاں گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر خیال آیا اس جوان کی تعلیم میں کھبی یہ بات نہیں بتا ئی گئی ہے کہ آئین اور قانون کی رو سے صدر اور عام شہری برابر حقوق رکھتے ہیں اس لئے ان سے الجھنا بے سود ہے۔
جوں جوں میں آگے بڑھا جگہ جگہ پولیس جوان کھڑے تھے اور گاڑیوں اور انسانوں کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ نہ جانے روز اس روڑ سے گزرنے والے ہزاروں لوگ اور سینکڑوں گاڑیاں کہاں روکی گئی تھیں۔ معمول سے ہٹ کر پہلی دفعہ سڑک کی صفائی بھی کی گئی تھی تاکہ سڑک کے اطراف میں سالہا سال سے غریبوں کا منہ تکنے والی گندگی وی وی آئی پی شخص کی طبعیت پر گراں نہ گزرے۔صبح کے وقت ہی تمام سڑکیں بند کر دی گئیں تھیں جب کہ صدر کے قافلے نے اس روٹ سے سہ پہر دو بجے گزرنا تھا۔
راقم کے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ آف پاکستان میں نمائندگی بھی نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کی صوبائی اسمبلی کے ممبران صدر مملکت کے انتخاب میں اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں ۔ اس کے باوجود صدر کی آمد کی سزا گلگت بلتستان والوں کو کیوں دی جارہی ہے ۔ یہ سزا اگر سندھ ، پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان کے لوگوں کو دی جاتی تو انہونی بات نہیں ہوتی کیونکہ صدر مملکت کو منتخب کرنے میں وہاں کے لوگوں کا ووٹ شامل ہے۔ ایسے برے خیالات میں گم چلتے چلتے راقم دفتر پہنچ گیا۔
دفتر پہنچ کر پتا چلا کہ آفس بوائے دو گھنٹے پیدل چل کر دفتر پہنچا ہے۔ اسی طرح دوپہر کو بصارت سے محروم ایک دوست نے آکر یہی شکایت کی کہ عذاب جھیل کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ پتا چلا کہ ہزاروں لوگ تین دنوں سے ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ ایسے میں اچانک ایک دوست نے اسُی تقریب میں شر کت کی دعوت دی جس میں صدر مملکت نے شرکت کرنی تھی۔ دن بھر کی تمام شکایتوں اور عام لوگوں کی مشکلات سننے کے راقم اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ایسے تقریبات میں شریک ہونا گنا ہ ہے جو عوام کے لئے مشکلات کا باعث بنتی ہیں۔
چنانچہ راقم نے ایک ہی لمحے میں فیصلہ کیا کہ اس تقریب میں شرکت نہ کیا جائے جو ہزاروں لوگوں کو ذلیل و خوار کر کے سجائی گئی ہے۔ساتھ ساتھ مجھ شرم آئی ان لوگوں پر جو اس تقریب میں شرکت کے لئے پسینے میں شرابور بھاگم بھا گ جارہے تھے۔ ایک عام آدمی ہزاروں لوگوں کو ذلیل کرنے کا بدلہ کسی وی آئی پی سے ایسے ہی لے سکتا تھا کہ وہ اس تقریب کا بائیکاٹ کرے ۔وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی جدوجہد میں یہ ایک تنکے کی صورت میں ایک عام آدمی کا حصہ ہو سکتا ہے۔عوام کو وی آئی پی کا درجہ اس وقت مل سکتا ہے جب وہ اپنی تذلیل کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button