جب انسان ایسا عمل کرتا ہے، جس کا نتیجہ کسی دوسرے انسان کیلئے بلکہ کسی زی روح کیلئے نقصاں کا باعث ہو، تو انسان کے اندر سے ایک صدا آتی ہے کہ یہ اپ نے اچھا نہیں کیا، اور یہ احساس اس کو اندر ہی اندر سے کھاجاتا ہے کہ میں نے یہ غلط کیا، مجھے یہ ایسا نہیں کرنا چایئے تھا۔ یہ اندرونی قوت جو یہ احساس دلا رہا ہے کہ آپ نے غلط کیا ، اس کو ضمیر کہتے ہے۔
اگر چہ اس حوالےسے بعض مفکر یں یہ رائے پیش کرتے ہے کہ چونکہ انسان ماحول، حالات اور سماجی اصولوں کے تحت زندگی بسر کرتا ہے ، اور یہی حالات ، ماحول اور سماجی اصول اس کی شناخت قائیم کرتے ہے ، حتی کہ ضمیر بھی کچھ ایسا ہی احساس ہے جس میں والدیں سے جینز کا عمل ، پیدائیش ، حالات اور ماحول کے چند طے شدہ اصول اس کے نفسیات میں اچھے اور برے کا فرق بٹھا تے ہیں، اور یوں یہی احساس ضمیر کی آواز بن کر ابھرتا ہے۔
ہمارا بحث اچھا یا برا کا تصور بھی نہٰیں، اور نہ ضمیر کا فلسفیانہ بحث ہے ، البتہ انسانی سماج میں کچھ ایسے عوامل کار فرما ہے، جن کو ہم اچھے اور برے کے فرق سے سمجھ سکتے ہیں۔
ضمیر ازلی سچائیوں اور قوانین کا محفوظ اسٹور ہے، اور قانون فطرت کا داخلی نگراں ہے ، کسی اخلاقی قد غن کے بغیر عیاشی اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے۔خود غرض، لالچی اور ابو الحوس عناصر کی یہی پہلی سوچ ہوتی ہے کہ اس کام کیلئے میرے لیئے کیا ہے، میرا مفاد کتنا ہے، ااس سے مجھے کیا خوشی ملے گا، معاشرے کے بدلتے اقدار کے باعث لوگ اب خوشیوں کا حصول ضمیر کی نگرانی یا ضمیر کی زمہ داری کے احساس کے بغیر چاہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنے فرایض اور کام کے نام پراپنے بیوی ، بچوں کو بھی یکسر بھلا دیتے ہے۔لیکن احساس زمہ داری کے بغیر عیش و عشرت کا نتیجہ وقت اور دولت کے ضیاع کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ بد نامی ہاتھ آتی ہے، اور دوسرے لوگوں کو بھی زہنی اور روحانی ازیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
خوشی یا سکوں کی کیفیت انسان کے اندر سے پھوٹھتا ہے، یہ کیفیت اندرون ہے، روحانی ہے، زہنی ہے، سماج میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ احترام جو کہ انسان کی ایک فطری طلب ہے، ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کی عزت کی جائے، کسی کا احترام کرنے سے اپ کی شخصیت متاثر نہیں ہوتی، بلکہ آپ کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے، اپ کو اندرونی سکوں نصیب ہوتا ہے۔ اسی طرح محبت اور خلو ص کا رشتہ قائیم کرنا، غرض اور زاتی مفادات ، لالچ سے پڑے ہو کر صرف انسان سے محبت کرنا ہی مسرت کا باعث ہے۔
لیکن جب انسان اپنی فطرت کے خلاف جاتاہے، تو وہ دکھوں، اداسی اور منفی عوامل کی گرفت میں آجاتاہے اور اس کا واحد حل وہ منشیا ت اور نت نئی راہوں میں تلاش کرتاہے۔
ضمیر کے بغیر خوشیاں مصنوعی ہوتی ہے، کچھ لمحوں کی ہوتی ہے، جب ضمیر کی آواز دبا دی جاتی ہے، اور شعور میں پردہ حائل ہو جاتاہے ، تب انسا ن برے عمل کر بیٹھتا ہے، ہمیں ضمیر کو زندہ رکھنا ہے، اور کوئی برا عمل کرنے سے پہلے ہمیں یہ احساس کرنا ہے کہ یہ کسی دوسرے انسان یا زی روح کیلئے شر کا باعث ہے۔ اور مجھے نہیں کرنا چایئے۔ بلکہ یہ اندازہ لگانا بھی کہ اس عمل سے مجھے کیا نقصا ن پہنچتا ہے، اور انسان کی ساری جستجو بھی تو سکوں کیلئے ہے، اور ضمیر کی آواز کے خلاف جانے سےاپ کا سکوں غارت ہو جاتاہے۔ لہذ ا
بحیثت انسان ضمیر کے بغیر خوشیوں کو الوداع کہنا ہو گا، اور ضمیر کی آواز کو لبیک کہہ کر استقبال کرنا ہوگا۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button