کالمز

ایک شاعرجوجان سےگزرگیا

تحریر: شکورخان ایڈووکیٹ

کھلکھلا کر ہنسنےکی مانوس آوازکانوں میں پڑتے ہی میری بھی باچھےخودبخود کھل جاتیں اور مڑےبنا  بےسا ختہ جملہ زبان سےادا ہوتا ؛ یاژولے اشقور۔  یاژولے، بروشسکی زبان میں اپنوں کو ولکم کہنےکےلیےبولا جاتا ہے اور اشقور بالوں کے رنگت کی مناسبت سےپکارنےکاانداز۔

وہ دھان پان سا نودس سال کا لڑکا سرخ و سفید ائیرش چہرہ، پھینی سی ناک، شرارت سےپر چمکتی آنکھیں ، کنپٹی سےٹھوڑی تک گولڈن روے، کالےکپڑےاورسفید ہاف بازو والی ہاتھ کی بنی دیسی بنیان میں ملبوس دورسےسلام کرتا یا سلام سےقبل ہی کہتا: بھائی جان! جانتےہو! کتنےپودےلگا آیا ہوں؟ دس سفیدےآٹھ بید کے پورے اٹھارا، ہاں! اورآپ ہیں کہ صبح سےدھوپ سینکتےجارہےہیں، زوردارقہقہ لگتا اورراقم بےاختیاراسےگلےلگاتےہوےکہتا: تو! اوراتنےسارےپودے! تم مبالغہ ارائی سےباز نہیں آؤگے، وزیر، امتیازاوراعجاز نے پودےلگائےاورتم نےپانی وانی دیاہوگا۔ کہتا: لالا آپ یقین نہیں کرتے، کھبی تومان جایا کریں نا۔ چائےوائےنوش کرتےہوےڈھیرساری باتیں کرتا پھرچل پڑتا ، یہ جا وہ جا، کیونکہ اندھیرا پھیلنےسےقبل گھرپہنچنا ہوتا، نہیں تو ماں پریشان ہوجاتی کیونکہ وہ ابھی منا سا ہی تو تھا۔

شرارت اورزندگی سےبھرپور اس بچے کا نام بشارت حسین تھا جنہیں آج ہم سب بشارت شفیع کےنام سےجانتےہیں۔  ان کا قدیم گاؤں دریا پار بھرکوھلتی، یاسن میں واقع ہے۔ گرمش نالہ سےبہتی ندی کےاطراف زمینیں قدیم آباد ہیں، پانی کی فراوانی ہے، ندی کنارے جابجا سفیدےاوربید کےجھنڈ ہیں، آبادیاں، باغات ذرا  ہٹ کے واقع ہیں۔ بشارت کےپرکھوں کی وسعی جائیدادیں ندی کےآرپار تھیں، سارا قبیلہ وہی پہ مقیم تھا۔ ان کے والد شفیع اور تایا کوبٹوارے کےنتییجےمیں حصہ رسیدی میں موضع ہندورکی زمینیں ملیں یوں وہ ہندورمنتقل ہوگئے۔ 1970 میں اپنےہی قبیلےمیں شفیع کی شادی ہوئی۔

ایک اوربات یاد رکھنےکےقابل ہےکہ پاکستان سمیت گلگت بلتستان کا قومی ہیرو لالک جان شہید نشان حیدرکا تعلق بھی بھرکوھلتی سےتھا ان کا والد بھی بٹوارے کےبعد اپنا حصہ رسیدی آباد کرنے کے لئےہندور شفٹ ہواتھا۔ بشارت اور لالک جان شہید کا ماضی اور یادیں بھرکوھلتی سےوابستہ تھیں۔ ہندورجاکرایک بار پھریکجا ہوےتھے۔

بشارت کے نگڈ دادا اور ان کےبھائیوں کوہندورکی جاگیرسمیت بہت ساری جاگیریں بیارچی، شیرقلعہ، بارگو، اوربھوپ سنکھ پڑی میں ڈوگرہ افواج کو تہ تیغ کرنےکےصلےمیں بطور انعام مل گئ تھیں۔ ان کی فیملی کےجنگی ہیرو بڈول اور بدنگ تلوارزنی میں یدطولے رکھتےتھےجنہوں نےمیدان کارزار میں ناقابل یقین کارنامےانجام دئیےجنہیں یاسن کی قوم آج بھی رزمیہ گیتوں میں یاد کرتی ہیں۔

بشارت شفیع کے قبیلےنے بھرکوھلتی گاؤں میں پہاڑ کےدامن میں واقع ڈھلوانی زمینیں تقسیم کئیں تو اس کےوالد کو بہت سا رقبہ ملا۔ نئ نئ زمین اورشوق بھی نیا نیا،جوانوں میں زیادہ سےزیادہ پلانٹیشن کا مقابلہ تھا کہ تھمنے کا نام نہ لیتا تھا اوربشارت کہا ں پیچھےرہنےوالا تھا !  یہ چاربھائی چھٹیوں کےایام اور عام دنوں میں بھی بید اور سفیدے کی ٹہنیاں کاندھوں پر لادے شرقی جانب کے پہاڑوں سے گزر کر اپنی زمینوں پر پہنچتے، گھنٹوں گھنٹوں زمین ہموار کرتے، پودے لگا کر انہیں پانی دیتے، ڈھلوانوں سے لڑھکتےپتھروں کو کھبی روکتے کھبی نظارہ کر کے لطف لیتے۔ سنجیدہ تھےلیکن شرارت سےبھی بازنہ آتے۔

نشیب میں واقع محلہ جات اپنےقبیلےکی تھیں، وہ لوگ رشتے میں چچے،چچیا اور چچازاد بہن بھائی تھےاورکچھ گھرانےماموں لوگوں کی بھی تھیں۔ اکثر یہ ہنس مکھ لڑکا آبادکاری سےواپسی پر ان گھروں میں گھستا، ہمجولیوں کےساتھ کھیلتےکھیلتے شام کو گھرلوٹتا۔ کیا چھوٹا کیا بڑا ہرایک سےبےتکللف، بڑوں کی سنتا ہم عمرلڑکوں سےخوب بحث کرتا، تخلیقی صلاحیت کا ما لک اور بلاکا اداکارتھا۔ بچپن میں ثقافتی اورمذہبی تقاریب میں نہ صرف بهرپورحصه لیتا بلکه ان پروگراموں کی ترتیب وتیاری میں مرکزی کردار ادا کرتا تھا . بڑی شعلہ بیانی تھی، لاتعداد تقاریب میں جاندار تقریریں کیں اور چھوٹی چھوٹی ٹیبلو اور سٹیج ڈرامیں بھی لکھیں اور یادگار اداکاری بھی کی .

مرحوم بڑے بھائی وزیرشفع ایڈووکیٹ کی معیت میں سن0200 کی دھائی کے ابتدائی سالوں میں گلگت بلتستان کی قوم پرست تحریک بالاورستان نیشنل فرنٹ (بی۔این۔ایف) کی طلبا تنظیم میں شمولیت اختیارکرکے تحریکی سرگرمیوں میں  نہ صرف حصہ لیا بلکہ طلبا تنظیم میں ہراول دستے کا کردارادا کیا جس کی پاداش میں کم عمری ہی میں قیدوبند کی صعوبتیں جهیلی۔ جیل سےرہائی کےبعد مزید سرگرم ہوگئے۔ پاٹی کےمرکزی ترجمان کی حیثیت سےبھی کام کیا۔  بعد کے سالوں میں تحریکی سرگرمیوں  کوذاتی مصروفیات کی وجه سے زیاده وقت نه دے سکیں اور غیرفعال رہیں.

مرحوم نے گلگت شہرمیں مقیم ہنزه کی کسی خاندان کی لڑکی سے شادی کی تهی جو کامیاب نه ہوسکی .وه گذشته سالوں اعلی تعلیم کے حصول کے لئیے بنگله دیش میں مقیم رہیں اور وہا ں سے  پبلک هیلتھ میں ماسڑزکی ڈگری حاصل کی قبل ازیں کراچی یونیورسٹی سے کرایمنالوجی میں ماسٹرزکی ڈگری لے چکے تهے 2014 میں  سندہ کی رہنےوالی دوشیزه کے ساتھ لومیرج کی ِ شادی کی اس خوبصورت  تقریب میں راقم بھی معروف قوم پرست شیرنادرشاہی اور محبوب ایڈووکیٹ کے ہمراہ شریک ہوا تھا . یاسن کی معروف اورواحد موسیقار فیملی (بجائے  )  کی کلاسیک دهنوں پرمحبوب ایڈووکیٹ اور بشارت کی باری باری فن و انرجی سے بهرپورلازوال ڈانس راقم کی ان چند یادوں میں سے ہیں  جواداس لمحوں کو خوشگوار بنانےکا باعث ہیں  .

راقم والدین کی فوتگی اور بهائیوں سے ناچاقی کی بنا پردلبرداشتہ ہوکر مئی 2001فیملی کو سسرال چھوڑ کرپشاورچلا گیا، ایسی گمنام زندگی گذاری کہ سات سال پیچهے مڈ کر بھی نه دیکھا .  جولائی 2008 میں واپس بهرکوهلتی پہنچاِ۔  سات سال کےدورانئیےنے ادھرکی دنیا ہی بدل دی تھی ِ ماضی کے بٹن کویوں بے دردی سے گمایا کیا گیا تھا کہ ماضی اپنے ہی گردوغبار میں کہی گم ہوچکی تهی ۔ میں نوجوان ادھرسے گیاتھا اب شاید ادهیڑ عمرشخص بن کےواپس آیاتھا۔ اب مڈل ایج مین کی نظر سے دیکھا جارہا تھا ِ وہ معتبرلوگ جو1999ضلع کونسل تهوئی سلگان کا انتخاب لڑنے کے دوران میرےلیے کمپین کررہےتھے، ان میں سے بیشتر گذرچکے تھے اور جوباقی مانده بچے تھے وہ بھی گذرنےکےقریب تهے . تپ کے نوجوانوں نے اب اپنے اپنے خاندان کی سربراہی سنبهالی تهی،   تپ کےکئی معتبر اب گمنامی میں چلے گئےتھے۔  کئ مالدار اب ضروریات زندگی کوترس رهے تھے۔ ایسےبهی تھے جوآٹھ سال پہلے گرمیوں کے موسم میں اڈوس پڈوس میں کسی کے ہاں اور سردیوں میں گلگت جاکرمزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پال رہےتهے، آج اپنےان صالح بچوں کے طفیل دوسروں کوروزگاردینے پرقادرتھے ِ

 ایک اور انوکی تبدیلی بهی دیکهی ِ ماضی کے بعض جگری دوستوں کے چہروں پراجنبیت کارنگ چڑھا ہوا تھا، وہ پرتکلف اندازسے پیش آرہےتھےجبکه زمانه گذشتہ کے کئ محض ہاتھ ملانے والے اجنبی آج  بےتکلف دوست بنتے جارہے تھے اوریہی حال رشتہ داروں کابهی تھا . وه چھوٹے چھوٹے بچےجوکچھ بولےبنا خاموشی سےمہمانوں کی خاطرتواضع کرتےدکھائی دیتےتھےآج محفل میں براجمان ہوکرسنجیدہ ایشوز پر اظہارخیال کر رہےتھے جبکہ ہاتھ بٹانے اورخاطرمدارت کےلیے نئے بچے پیدا کیےگئے تھےوہ  اپنےپیشروں کی جگہ سنبھالےبخوبی فرائض امورمہمان داری انجام دے رہے تھے.

میرا آبائی قبرستان پهیل کرہموارحدود پارکرکے ڈهلوانی حدود مں داخل ہو چکا تها ِ  والدین اور مرحوم بہن بهائیوں کی قبریں جومشرقی سرے پر واقع تهیں اہل قبور کی آبادیاں بڑہ  جانے کی وجہ سے درمیان میں آچکی تهیں .  ایک خوشگوار تبدیلی جو خوشگوارحیرت کا باعث بنی وہ یہ کہ میلے کچیلے بکهرےبالوں، پچکے گالوں والے بچے اب اجلے دهلے صحت سےبھرپورخوش باش مسٹنڈےنظرآئے۔

آٹھ سال بعد اسی پس منظر میں بشارت سےہندور میں ملاقات ہوئی۔  میں اسےدیکھتا رہ گیا۔ ایک دھان پان سا لڑکا جسےمیں چھوڑ گیا تھا وہ ماضی کا حصہ بن کر ماضی میں رہ گیا تھا۔  آج میرےسامنےسرو قد، بھرا بھرا چہرہ والا، بانکا سجیلا، گبرو جوان تھا۔  لڑکپن اس سےجدا ہو کرماضی کا حصہ بن چکا تھا۔  متانت اوروقار سے بھرپور، آنکھوں میں وہی ذہانت اورشرارت ناچ رہی تھی، مجھے بےحد پیارا لگا۔  وہ لالا کہتا ہوا بےاختیار مجھ سےلپٹ گیا۔ اس نےمجھےگلےلگایا، میں نے اسےبانہوں میں لیا۔  کتنےخوش تھےہم۔  پتہ نہیں کتنی دیر ہم وہی کھڑے بولتے ہی جا رہےتھےجس دوران اس کی امی آکر ہمیں گھر لےگئ۔

دسمبر2009 کی کوئی تاریخ تھی۔ بشارت اورراقم ٹہلتےٹہلتےکراچی کے ایک چھوٹے سے پارک میں داخل ہوے، اس کےہاتھ میں ڈائری تھی۔  پارک کےسبزہ زار میں آمنےسامنےپاؤں پھیلا کربیٹھ گئے۔ ڈائری کھول کر میری طرف دیکھا، مسکرایا، بولا: میری غزل پڑھیں گے؟ میری رضامندی پا کر ڈائری میری طرف بڑھایا اور میں غزل پڑھنےلگا۔

میں شاعر نہیں البتہ نظم و نثر ہردو اصناف سےشغف رہی ہے۔  ہائی سکول طاؤس میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ ان دنوں نیم بلوغت کےمرحلے سے گزر رہا تھا، ٹوٹی پھوٹی  نظمیں غزلیں لکھنےکی مشق کیا کرتا تھا، کبھی کبھار ہم جماعت لڑکوں کو سناتا اورکچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی بڑی واہ واہ ہوتی تھی۔ 2002 سے2006 تک پشاور کے اردو اخبارات میں بطور سب ایڈیٹر نوکری کی۔ ایک دن چارسدہ کی ایک خوبرو دوشیزہ نیوز ڈسک پر آئی کاغز کا پرزہ میری طرف بڑھا کر کہنے لگی: میری غزل چھاپ دو۔گویا اس شعر کےمصداق۔  وہ آکر بولی نقاب میں    تصویرچھاپ دومیری کتاب میں۔  میں انکار نہ کر سکا، چھاپنےکی ہامی بھرلی۔ وہ مطمئن ہوکر چلی گئ۔ میں سبینگ/ایڈیٹیگ کا کام نمٹانےکےبعد کاغز کھول کر پڑھنےلگا۔ غزل وزل تو کچھ نہ تھا البتہ اردو کے چند جملےتھےوہ بھی گرائمر کی قید سے آزاد۔ لڑکی بڑی دل پھینک معلوم ہوتی تھی۔ ان بےربط جملوں میں بھی خیالات عاشقانہ تھے۔ وہ کسی سے مخاطب تھی۔  لڑکی مقامی کالج میں انٹر کی طالبہ تھی۔ پڑوسی یا کالج کےکسی چھوکرے سے عشق لڑا بیٹھی ہوگی۔  اپنے وعدے کا لاج رکھنے کے لئےغزل چھاپنا تھا۔ جس غزل نےچھپنا تھا وہ ابھی تخلیق نہیں ہوئی تھی۔ سوچا کسی کی غزل چھاپ کراسے کہ دوں: لو جی تمہاری غزل چھپ گئ۔  لیکن ایسی غزل لاؤں کہاں سے جو اس کی باتوں سےلگا کھاتی ہو!  سوچ بچارکےبعد حل تلاش کرلیا۔  نوخیز حسینہ کے خیالات کو سلیس اردو میں قلمبند کیا، رات طبع آزمائی کی، اگلےدن استاد چشتی مرحوم سےاصلاح لی۔ لوجی تیار! غزل اخبار کےادبی صفحے پرنام کےساتھ شائع ہوگئی۔

اس روز کے بعد متعدد غزلیں لکھیں اصلاح کے مراحل سےگزر کر ادبی صفحات کی زینت بنتی رہیں۔ کوئی دوسال اس طرح چلتا رہا اور بالاخر بلا کسی کے کہے سنےآزخود اس نتیجےپرپہنچا کہ میں اس میدان کا کھلاڑی نہیں۔  شعرکی آمد توہوتی نہیں، آورد میں بڑا زور پڑتا ہے۔ خود پہ جبرمسلسل دانشمندی نہیں، یوں توبہ تائب ہوکر اس صنف دلنشین کونہ چاہتےہوے بھی، خود کو اس قابل نہ پا کر خیرباد کہ دیا۔

بشارت کی غزل میں روانی تھی۔ الفاظ کا انتخاب عمدہ اور انداز دل کو چھونے والا ۔ میری دلچسپی بھانپ کرڈائری میں موجود چند دیگر غزلوں کی طرف میری توجہ دلائی۔ بشارت کی غزلوں میں وہ کمزوریاں نظر نہ آ‏ئیں جو اہل زبان نہ ہونےکی وجہ سےہم گلگت بلتستان کےباسیوں کودرپیش ہیں۔ میں نےاسےمبارک باد دیں، گال تھپتھپا کر اس کی حوصلہ افزائی کی جس کا وہ بجا طور پر مستحق تھا۔

میں نے اسےایک مشورہ دیا کہ اردو نظم کے حوالےسےبرصغیر میں ایک سے ایک قدآور شاعر موجود ہے، غالب سے لیکر فیض تک، احمد فراز، پروین شاکر، محسن نقوی، حبیب جالب، جون ایلیا جیسے بڑے نام، آج کل اس میدان میں بھی لابیاں اور اجارہ داریاں چلتی ہیں، احمد فراز جیسےقدآور شاعر کو بھی لاہوریوں نےدیوار سےلگانےکی ناکام کوشش کی تھی جس کا ذکر انہوں نے بارہا کیا۔ اس میدان میں بطور شاعرخود کو منوانا بےحد مشکل ہے۔ ہاں البتہ بروشسکی شاعری کا میدان خالی ہیں، آج اس کی ضرورت بھی ہے۔ کلاسکل بروشسکی کےچند گانے ہیں جنہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ پڑھےلکھےجوانوں کا رجحان اس صنف کی جانب کم ہے۔ اس میدان میں طبع آزمائی کرو گےتو عزت شہرت دونوں ملےگی اس پر مستزاد یہ کہ زبان و ادب کی خدمت ہوگی۔

اسے میری رائےسےاختلاف نہ تھا۔ کہا: لالا آپ کوپتہ ہےاس کا شوق مجھےبچپن سے ہے۔ بروشسکی ادب کےحوالے سے بھی لکھا ہے کسی دن لیکر آؤں گا، نہیں بلکہ ایس۔ایم۔ایس کیا کروں گا، اپنی رائے سے آگاہ کیجیےگا۔ اس کےبعد متعدد بار وہ اپنی ادبی کاوشیں ایس۔ایم۔ایس کرتا رہا۔ میں نےانہیں انجوائی خوب کیا جواب بہت کم دیا، اس کےبعد یہ سلسلہ بھی نہ رہا۔

میری کوتاہیاں آج مجھےکچوکےلگارہی ہیں، ستارہی ہیں، جھنجوڑ جھنجوڑ کے پوچھ رہی ہیں کہ اس شریر کی قربت سے کیوں محروم رہا۔ اس کی قربت بھی ان چند خواہشات میں سے ہیں جنہوں نے جیتےجی وفا نہ کی۔ میں انہیں سینےسےلگانےکولپکتا وہ ہربارڈاج دےکرنکل جاتیں۔  آج وہ خود ہم سب کو ڈاج دےکے نکل چکا ہے، وہاں جا چکا ہے جہاں کی لنک مل نہیں رہی، اور نہ پتہ دے گیا ہے !!

ڈھونڈوگےہمیں ملکوں ملکوں
ملنےکےنہیں نایاب ہیں ہم

ہاں، جاتےجاتےاپنا قیمتی اثاثہ، اپنی خوبصورت شاعری ہمارےسپرد کر گیا ہے۔ امید ہےبروشو قوم اس سے استفادہ کریگی، عصرحاضر کے تعلیم یافتہ نوجوان شعرا مرحوم کےمشن کوآگے بڑھاتےہوئے بروشسکی ادب کو بہت آگےلےکےجائیں گے۔

اپنےوطن گلگت بلتستان اور آبائی گاؤں سے دوری کا احساس شدد سےہورہا ہے، اسےکاندھا دینےکی سعادت حاصل کرتا، صواب کی نیت سے نہیں حق ادا کرنےکی نیت سے۔ حق تو تھا حق ادا نہ ہوا۔

بشارت اس گھرانے کا چشم وچراغ تھا جس کا در ہر آنے والے کے لیے وا رہتا تھا۔ مسکراتے، کھلکھلاتےچہرےآنےوالوں کا استقبال کرتےتھے۔ کیا والدین کیا بچے مہمان داری میں ایک دوسرے کونیچا دکھانے کی دھن میں مگن محبت بکھیرتےلوگ تھے، کڑا وقت بھی ان پہ گزرا لیکن ان کے پائےاستقلال میں لغزش نہ آئی۔ پریشانیوں میں گھرا غموں سےنڈحال کوئی انسان بھوجل قدموں سےاس چوکھٹ میں داخل ہوتا تو اس کے غم والم اڑنچھو ہوجاتے، مزاح سے پر باتیں سن کرزعفران زار بن جاتا، چہرے پر نئ تازگی سجائےبشارت کی دھلیز سےہشاش بشاش رخصت ہوتا۔  چار دھائیوں سے خوشیاں بانٹنے والا گھرانہ آج خود کس کرب و الم سےگزر رہا ہوگا اسےسمجنا چنداں مشکل نہیں، دعائےمغفرت و تعزیت کے لیےآنے والوں کا تانتا بندھا ہو گا جوکہ رسم دنیا بھی ہے موقعہ بھی ہےاور دستور بھی ۔ تعزیت کےلئے آنےوالے جم غفیر کے نپےتلے دلاسےکےچند رسمی الفاظ اس درد کا  مداوا  تو نہیں جو اپنوں کےدل وجگرسے اٹھتا ہے۔ موت برحق ہے لیکن جوانی کی بےوقت موت  اپنوں کے سینوں کا وہ  انمٹ داغ ہے جو تادم مرگ  مٹائے نہیں مٹتا۔

بحیثیت بروشسکی شاعر دلوں پر راج کرتا تھا۔  بروشسکی کےمعدوم ہوتےہوئے الفاظ کو  نئےسرےسےچن چن کر طاق پہ سجایا، وہ واقعی تل و رخسار تک محدود نہ تھا۔ گلگت بلتستان سےمحبت، زبان و ثقافت، معاشرتی مسائل، انسانی روئے، فطرت و عادات، پس پردہ خواہشات اور فطری حسن یعنی نیچر کو موضوع سخن بنایا۔ ان کی شاعری ہم عصر بروشسکی شعراء و ہرطبع آزما نوآموز کےلئےبیکن لائیٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔

بشارت جدید بروشسکی ادب کا پہلا شہید ہے جس نےاس کےنشاط ثانیا کی بنیاد رکھی اور اس کی پرورش کو نصب العین بنایا۔  ادبی خدمت کو اپنا فرض آولین بنایا اور اسی فرض کی ادائیگی کے دوران جان سے گزر گیا۔ بروشسکی شاعری کا تزکرہ ان کے بغیر ناممکن ہے۔ ان کی یاد آخری سانسوں تک رہےگی۔ بشارت کوخود بھی یقین تھا کہ اسےکوئی نہ بھولےگا۔ ایسا لگ رہا ہےکہ ان کی زندگی سے بھرپور، شرارتوں سے بھری آنکھیں ہماری طرف دیکھ رہی ہیں۔ اور وہ ہم سےمخاطب ہوکرکہ رہا ہے۔

ممکن نہیں کہ   یاد ہماری نہ آ سکے
ہم وہ نہیں کہ ہم کو زمانہ بھلا سکے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button