بلاگز

یہ کون ہماری روایات سے کھیل گیا؟

تحریر: تاج النسا

یہ کس نے اسی ڈھب کی سیاست کی؟ یہ کس نے  ھنزہ  میں  ہُو    کا عالم   بنا ڈالا؟ یہ کس نے ھمارے شہر میں گیر دار کا عالم بر پا کیا؟         یہ کس نے صدر پاکستان   کے  دورہؑ ہنزہ کے موقعہ پر غیر ضروری  ہا ئی  سکیورٹی الرٹ کر کے یہاں کے باسیوں کا جینا دوبھر کر دیا؟ یہ کون منتظم تھا جس نے ہنزہ کی روایات واقتدار کی قدر نہ کی؟         گلگت -بلتستان انتظامیہ یہ کیسے بھول گئی کہ پو رے پاکستان  سے امن  کی تلاش میں لوگ  ہنزہ  آ تے ہیں ؟

"ؤہ  ڈنڈا لے کے پھرتا  ہے ہم چھتوں پہ  سوۓ رہتے تھے

ارے او تھانیدارو !   تم سے چوکیدار بہتر ہے”  ۔(عبدالخالق تاج)

صدر پاکستان  اپنی فیملی کے ساتھ پکنک منانے تین دن کے لیے ہنزہ تشریف لائے   تو   نہ جانے کس  نا عا قبت اندیش نے ایسی منصوبہ بندی   کروائی ،    نہ جانے یہ لا علمی تھی  یا نا اہلی ؟ یا واقعی  ک ی بد دیا  نتی کا نتیجہ  کہ جس نے  ان  تین دنوں میں نہ صرف  مقا میوں  کی    زندگیاں اجیرن کر کے   رکھا   دیا بلکہ     سیلانیوں   کے ساتھ بھی بدسلوکیاں  کیں، جس کے با عث   محترم  صدر کے دورہ ء   ہنزہ پر بہت سخت قسم کے سوالات اٹھے۔ صدر پاکستان کے دورے کا سن کر جہاں  علاقے کے پیروجوان، مردوزن  ان کے شاندار استقبال کی تیاریوں میں لگےتھے، مگر   ان کو اپنے گھروں میں  ایک طرح سے قید کر دیا گیا ، جہاں دوکان دار علاقے کی روایات کا لحاظ رکھتے ہوے خیرمقدمی بینرز بنوا       رہے تھے  وہاںان کی  دوکانوں کو جبراً  بند کروا دیا گیا۔شہر میں کر فیو کا منظر تھا ، دور دور سے آ ئے  ہوۓ  سیاح  بھی محصور ہو کر رہ گئے۔ کچھ  جگہوں پر تو خار  دار  تار  ایسے لگائے-جیسے  علا قے کو کسی بڑے دہشت گرد  کا سامنا  ہو۔ اس حالت میں ایک بزرگ خاتون نے  پولیس سے پو چھا کہ   "واقعی  ہمارا صدر    آنے والے     ہیں یا  کوئی   حملہ   آور کا   خدشہ ہے؟” کیونکہ  اس سے پہلے  بڑے  بڑے   مہمانوں کوآ  تے  جا تے دیکھا  تھا ۔ ایسا ہنزہ  کی تا ریخ میں پہلی بار ہوا تھا۔  ایک  استاد فرماتے ہیں ۔ کہ   خنجراب کی طرف  صدر صاحب جا نے والے تھے  اس دوران سنٹرل ہنزہ   کے ایک سکول کے اساتذہ  اپنی  پکنک سے واپس  آئے  تو پولیس نے ان کو  گنیش   پل کے نیچے گھنٹوں ا   نتظار کروایا ۔ان میں زیادہ تر تعداد خوا تین کی تھیں۔ان کا کہنا ہے کہ پولیس کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ گھر جا رہے ہیں مگر پولیس نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ وہ تو استور،سکردو اور چلاس سے آئے ہیں۔ان کو کیا پتہ کون کہا ں سے آئے ہیں ۔اوپر سے جو ہدایت ملی ہے اس پر عمل کر رہے ہیں۔ہدایت نہ ماننے گے تو ہمارا تبادلہ ہو گا ۔کہا گیا ہے کہ

 "سرکار ی ملازموں کا یہ رد و بدل ان رہبروں کا محبوب مشغلہ ہے ۔رفاہ ِعامہ کی آڈ میں دراصل یہ حربہ علاقائی کارندوں پر دھونس قائم رکھنے کا موثر ذریعہ ہے ۔اگر ڈپٹی کمشنر اس قسم کے ہتھکنڈوں سے بے نیاز رہنے کی کوشش کرے تو بہت جلد اس غریب کا اپنا تبادلہ ہو جاتا ہے ۔

(قدرت اللہ شہاب 2004)

لہذا انتظامیہ تو اس حد تک بڑھی کہ علاقے کے قریبی سکولوں کو زبردستی جلدی چھٹی کروائی گئی ۔

با وثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ رُکن قانون ساز اسمبلی شاہ سلیم خان نے پروگرام کی منصوبہ بندی پر شدید اعتراضات اٹھائے تھے ۔ان میں اور رانی صاحبہ میں شدید اختلافات اس وقت پیدا ہوئے جب انہوں نے ہنزہ کے کچھ بے گناہ قیدیوں کےلئے عام معافی کی درخواست پیش کرنے کی بات کی اور کے آئی یو کیمپس کی افتتاح محل کی بجائے کالج ہی میں کروانے کا کہا ۔ایک معتبر ذرائع کے مطابق وہ چاہتے تھے کہ کالج میں  طلبہ  اپنے مسائل بھی کھل کر صدر صاحب کے سامنے رکھ سکے اور اسی دوران نوجوانان ہنزہ کو صدر صاحب سے ملنے کا موقع مل جائےگا۔مگر رانی صاحبہ نے ان تمام معاملات کو ماننے سے انکار کر دیا  تو وہ کہہ کر ان تمام سرگرمیوں سے دور ہو گئے کہ اس طرح کے دورےسے ہنزہ کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ معاشی طور پر نقصان ہے ۔ہنزہ کے بعض حلقوں میں اس حوالے سے شدید تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ صدر صاحب نے ہنزہ کے عوام کےلئےکوئی بھی اعلان نہیں کیا جس سے علاقے کے عوام یہ سمجھتے کہ ان کے تکالیف کا ازالہ ہوا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا ۔گلگت میں میری دوست نے یہ سب سن کر طنزاً فرمایا "گاؤ  آکو کار چارن پالہ کارنے چارنِ”.

۔بہر حال کچھ مثبت لوگ اب بھی کان لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید صدر صاحب واپس ایوان صدر پہنچ کر کوئی ڈھنک کا اعلان کرینگے ۔ایک اور بات پر عوام پریشان ہے کہ جہاں بیکار اور فضول کی ہائی سیکورٹی الرٹ پر کرڑوں روپے لگائے گئے اگر یہ رقم صدر صاحب کی فیملی پکنک کامیاب بنانے کےلئے متعلقہ فنڈز سے استعمال ہوا تو عوام کے ساتھ سخت زیادتی ہو گی ۔

میر صاحب کے محل میں اگرKIU کیمپس کی افتتاح کی بات کرے تو در حقیقت یہ ایک دلیل ہے اس لا پروائی کی جو پورے پاکستان میں تعلیم کے ساتھ روا رکھی گئی ہے اور یہ لا پروائی کے پانچ دہائیوں کے منطقی تسلسل کی ایک کڑی ہے ۔یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ تعلیم کم ترجیح کی حامل ہے ۔حالانکہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جدید دنیا میں کوئی چیز تعلیم سے زیادہ اہم نہیں ۔گلگت میں میری دوست نے یہ سب سن کر طنزاً فرمایا "گاؤ  آکو کار چارن پالہ کارنے چارنِ”

معاملے کو نمٹانے اور مسائل کے حل کےلئے ہنزہ میں دربار عام کا رواج 1800ء سے تھا ۔مہمان نوازی ہماری ثقافت کا حصہ تھا ،ہے اور رہے گا "ثقافت اس گل کا نام ہے جس میں عقائد ،علوم ،اخلاقیات،معاملات ،معاشرت ،فن و ہنر،رسم و رواج؛(مہمان نوازی) اور وہ ساری عادتیں شامل ہے جن کا انسان معاشرے کے رکن کے حیثیت سے اکتساب کرتا ہے اور جن کے برتنے سے معاشرے کے متضاد و مختلف افراد اور طبقوں میں اشتراک و مماثلت اور یکجہتی پیدا ہو جاتی ہے ۔”  (جابی        1985       )

کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے نمائندے بھی عوام کے ساتھ ایک دربار ِ عام لگاتے اور کچھ ٹھوس نکات چن کر صدر صاحب کے سامنے اپنے مسائل رکھتے تو اس کا حل ان کےلئے آسان ہو جا تا ۔

عوام کا پر زور مطالبہ ہے کہ

 اس دورے کے منتظم کو بے نقاب ہونا چاہئے

صدر صاحب کے دورے سے پہلے میونسپل میں صفائی کےلئے جو مہم چلایا اس کو جاری و ساری رہنا چاہئے

۔دکانوں کے بند ہونے سے جو معاشی نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ ہو نا چاہئے۔

عوام پر زور اپیل کرتی ہے کہ آیندہ متعلقہ افراد کی اور خاص کر عوامی منتخب نمائندوں کی سربراہی میں ہی  ایسے پروگرام بنایا جائے

 جمہوری قدروں کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسے پروگراموں میں عوام کی شرکت کو یقینی بنایا جائے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button