اخباری صنعت میں رپورٹنگ سے نیوزایڈیٹنگ کا پیشہ اختیارکرنے پرچند دوستوں نے روزنامہ کے ٹو طرزکی سرخیاں بنانے کا مشورہ دیا ۔ بتانے لگے کہ گلگت بلتستان سے شائع ہونے والے تمام اخبارات میں کم وبیش ایک جیسی خبریں شائع ہوتی ہیں، لیکن کے ٹو کی مشہوری کے پیچھے اس کی جاندار سرخیوں اور خبروں کی فالواپ کا عنصر کارفرما ہے۔
بات سوفیصددرست تھی، کیونکہ ہوتا بھی یہی ہے کہ آج کل کی دنیا میں بہت کم لوگ خبروں کی تفصیل میں جاتے ہیں۔ وہ بھی اپنی دلچسپی کی کوئی خبرہوتو۔ ورنہ قارئین کی اکثریتی تعدادصرف سرخیاں پڑھ کر ہی اخبار بینی پر اکتفا کرلیتی ہے۔ ایسے میں سرخیاں جاندارنہ ہوں تواخبارقارئین کی توجہ کھودیتا ہے جس کا اس اخبارکی مجموعی سرکولیشن پر گہرااثر ہوتا ہے۔
دوستوں کے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے میں نے روزانہ کی بنیادپرموقر قومی وعلاقائی اخبارات کی سرخیوں کی مانٹرنگ شروع کردی، جن میں روزنامہ کے ٹو سرفہرست تھا۔ کے ٹومیں شائع ہونے والی خبروں کی دلچسپ اور معنی خیز سرخیاں پڑھ پڑھ کر میرے ذہن میں یہ سوال ابھراکہ ان سرخیوں کا خالق آخرکون ہوسکتا ہے۔کیونکہ کے ٹو کے چیف ایڈیٹر راجہ حسین خان مقپون تو سال بھراشتہارات اورریکوری کے چکروں میں سرگرداں رہتے ہیں جبکہ سعادت صاحب نے گلگت آفس کا نظم ونسق سنبھال رکھا ہے۔
یوں ایک دن ایک سینئرصحافی کی وساطت سے معلوم ہواکہ کے ٹوکی ان چٹخارے دار سرخیوں کے پیچھے ایک عظیم شخصیت کی محنت کار فرما ہے،جن کا نام سیدمہدی ہے۔ سید مہدی کوگلگت بلتستان کے صحافی مہدی صاحب کے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔اکثر محفلوں میں ان کا ذکرکیا جاتا لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ وہی مہدی صاحب ہونگے۔کیونکہ میں نے پی این کے زیرانتظام شائع ہونے والے کسی اخبارمیں مہدی صاحب کا نام نہیں دیکھا تھا۔ حالانکہ نقارہ اخبار کا اجراء تو انہوں نے ذاتی حیثیت میں کیا تھا، جوکہ بعدازاں کے پی این گروپ کا حصہ بنا، مگر اس میں بھی مہدی صاحب کا کوئی تذکرہ نہیں ہورہاتھا۔
ایک دن استاد محبوب خیام نے بتایا کہ مہدی صاحب چونکہ ریڈیوپاکستان میں ملازمت کررہے ہیں، اسی لئے ان کا نام اخبارمیں مخفی رکھا جاتا ہے۔ لیکن اخبار کا سارا کرتا دھرتا وہی ہیں۔ بس اسی دن سے میرے اندرمہدی صاحب سے ملاقات کا تجسس پیدا ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مہدی صاحب کے زیرادارت اخبارکی سرخیاں پڑھنے کا نشہ چڑھ گیا۔ خاص طورپرگلگت بلتستان میں پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق دورمیں حکومتی پالیسیوں پرتنقید اور اس کے نتیجے میں مہدی شاہ سرکاراور کے پی این گروپ کے مابین پیداہونے والی کشیدگی کے بعدتومیں مہدی صاحب کی مزاہمتی صحافت، پیشہ ورانہ استقامت اور مستقل مزاجی سے مانوس ہوا۔
تب سے میرے اندرمہدی صاحب سے ملاقات کے تجسس میں مذید اضافہ ہوا۔ جب بھی اسلام آباد جانے کا ارادہ ہوتا، سب سے پہلے مہدی صاحب سے ملاقات کی تمنّارہتی۔ لیکن عین وقت پردفتری وذاتی مصروفیات کے ہاتھوں مجبورہوکریہی تمنّالئے واپس لوٹ جاتا۔ تاہم خوش قسمتی یہ رہی کہ رواں سال فروری ماہ میں اسلام آباد میں کچھ دن قیام کے دوران کے پی این گروپ کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر وبرادرمحترم راجہ شاہ سلطان مقپون نے ایک دن دفترمدعوکیا۔دفترجانے سے قبل ہمیں راجہ صاحب کے کسی عزیزکی وفات پر تعزیت کے لئے جانا تھا۔ راستے میں آگے جانے والی کارکی طرف اشارہ کرکے راجہ صاحب بولے اس کارمیں کے ٹوکے بانی چیف ایڈیٹرراجہ حسین خان(
مرحوم) کے فرزند و روزنامہ کے ٹوکے پرنٹروپبلشرعزیزم راجہ کاشف حسین مقپون اور کے پی این کے روحِ رواں محترم سیدمہدی صاحب سوارہیں ۔جائے تعزیت پردونوں سے رسمی سلام دعا کے بعد ہم لوگ ایکسپریس وے پر واقع کے پی این آفس کی جانب روانہ ہوئے۔ دفترپہنچ کرراجہ صاحب نے مہدی صاحب سے میرا تعارف کروایا تو وہ اپنی کرسی سے اْٹھے اورانتہائی مشفقانہ اندازمیں گلے ملے ۔ ہاتھ تھام کربولے بیٹا بہت اچھا کالم لکھتے ہو۔ شاباش! پھربولے بیٹا عوامی ایشوزپرتواترکے ساتھ لکھا کرو، کے ٹوکے صفحے آپ کے لئے خالی ہیں۔
تھوڑی دیرگپ شپ کے بعدوہ اپنے معمول کے کام میں مشغول رہے اور راجہ صاحب سے مخاطب ہوکربولے انہیں اچھی سی چائے پلادینا۔
راجہ صاحب کے دفترمیں مہدی صاحب کی فرمائش پربننے والی چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میں اس سوچ میں گم ہوا کہ ایک چھوٹے سے آفس میں دو عدد ٹیلی فون سیٹ، دوجوڑے عینک اور قلم اور کاغذلیئے ایک شخصیت نے کس قدر اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بنا رکھی ہے۔ ان کی زندگی اور پیشہ ورانہ اندازمجھ جیسے صحافتی طلباء کے لئے کھلی کتاب کی عکاس تھی۔ ان کی سادہ گی اور مشفقانہ اندازِ تکلم سے ان کی متاثرکن شخصیت عیاں تھی۔جبکہ ان کی انتھک محنت اورکمال مہارت روزنامہ کے ٹوکی بے باک پالیسی سے کی بنیاد تھی۔
سیدمہدی صرف ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک عہد کا نام تھا جو گلگت بلتستان میں پرنٹ میڈیا کی ترقی وعروج کا سبب بنے۔ وہ اپنی ذات میں ایک ایسی تحریک تھے جس سے خطے میں مزاہمتی صحافت پروان چڑھی۔ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت ایک پھل دار درخت کی مانند مجھ جیسے سینکڑوں صحافتی طالب علموں کے استادوں کے استاد رہے۔
انہیں صحافت اور ادارت سے جنون کی حدتک لگاؤ تھا۔چنانچہ نیوز ڈیسک پرموصولہ خبروں میں سے کسی خبرمیں کوئی کمی بیشی نظرآجاتی تو فوراً متعلقہ رپورٹر کو کال ملا کر تفصیل معلوم کرلیتے۔ علاوہ ازیں بعض اوقات کسی اہم ایشوسے متعلق خود ایسی خبرنگاری کرتے کہ پڑھنے والے اس کی خبریت اور اندازِ بیان کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے۔ وہ اخباری صفحات کے لئے خبروں کی سلیکشن میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے۔ ذاتیات اور شہرت مشہوری سے متعلق خبروں اور پریس ریلیزوں کووہ ہروقت ناقابل اشاعت سمجھ کر ردی کی ٹوکری بنادیتے۔ یہی اکثرلوگوں کا کے ٹوکی پالیسی سے اختلاف کی ایک بنیادی وجہ تھی۔
وہ تادم ازمرگ اپنے اس موقف پرقائم رہے کہ اخبارکسی فردواحد کا نہیں بلکہ عوام کا اجتماعی پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے وہ اپنی محرومیاں اوراجتماعی مسائل اجاگرکرسکیں۔ اسی موقف نے ہی انہیں صحافتی دنیا میں ایک بے مثال عروج دیا ۔ان کی شخصیت کا کمال دیکھیں کہ جس قدر محنت اور لگن سے انہوں نے صحافتی ترقی کے لئے کام کیا ، اسی طرح اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت میں بھی کوئی دقیقہ وفراگزشت کا مظاہرہ نہیں کیا۔جس کی بدولت آج مرحوم کے تین بیٹے اور ایک بیٹی پاکستان کے اعلیٰ ترین مقابلے کا امتحان پاس کرکے ملکی سطح کے اہم اداروں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
مہدی صاحب صحافت کا ایک درخشاں ستارہ تھے۔ان زندگی اس شعبے میں آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے۔اس شعبے سے وابسطہ افراد ان کی زندگی اور صحافتی اصولوں سے سبق حاصل کرکے علاقے میں ایک نئی صحافتی تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔
مہدی صاحب بالآخر دنیائے فانی سے چلے گئے مگران کا نام صحافتی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گا ۔
اللہ تعالیٰ مرحوم سید مہدی صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔(آمین)
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button