بلاگزشعر و ادب

دستک (افسانچہ)

السّلام علیکم! امی جان، نازلی نے سکول سے آتے ہی امی سے جھگڑنا شروع کر دیا۔ ’’میں آپ کو روزانہ کہتی ہوں کہ دروازہ بند رکھا کریں تاکہ میں دستک دے کر گھر میں داخل ہوجاوں۔‘‘ لیکن نازلی بیٹے! تمہیں بھی معلوم ہے کہ میں تمہیں سکول بھیجنے کے بعد ہمیشہ دروازہ کھلا رکھتی ہوں اور تمہارا انتظار کرتی رہتی ہوں، تم آجاتی ہو تو دِل کو قرار آجاتا ہے، اتنے میں ابا جان بھی آگئے اور نازلی اب ابا سے لاڈ کرتے ہوئے لڑنے لگی، امی میری بات نہیں مانتیں، مجھے دستک دینے کا شوق ہے اور امی جان یہ اتنا سا شوق بھی پورا نہیں ہونے دیتیں، وہ گڑیا سی بچی تیزتیز بول رہی تھی۔ اچھا چلو منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھالو۔ یہ ہلکی پھلکی محبت بھری لڑائی دونوں ماں بیٹی کے درمیان تقریباََ روزانہ کا معمول تھا، زندگی کے رات دن گزرتے رہے، نازلی بڑی ہوتی گئی، بالکل آنگن میں لگے سرو کے پیڑ کی طرح اس کی کوئی دوست نہیں تھی اور اس کی دنیا اس کے گھر کے اندر تک ہی محدود تھی، گھر تین کمروں پر مشتمل تھا جس میں ایک کمرہ پکا تھا اور دو کچے سرخ مٹی کے بنے ہوئے، یہ اس لیے کہ نازلی کو ان دیواروں اور مٹی کی چھتوں سے محبت تھی، ساون اس کی سہیلی تھی، جب وہ کھل کر برستا تو مٹی کی سوندھی سوندھی مہک اسے سرشار کر دیتی، اس لمحے نازلی کو دنیا جہاں کی کوئی خبر نہیں رہتی، نازلی اور اس کی سہیلیاں جھولا جھولتی اپنی دنیا میں گم ہوجاتیں، وقت گزرتا گیا اور آخر وہ دن بھی آگیا جس کا اس کو بے چینی سے انتظار تھا، وہ دن کالج کا پہلا دن تھا، وہ رات بھر سو نہ سکی، وہ نہایت خوش تھی اور محسوس کر رہی تھی کہ آج وہ بڑی ہوگئی ہے، اسے اپنے آپ پر اعتماد ہو رہا تھا، وہ سوچ رہی تھی اب امی اور ابو اس کی بات مان لیں گے، ایسا کروں گی کہ میں صبح جاتے ہوئے ان سے کہوں گی کہ دروازہ بند کردو، یہ دروازہ اب میں ہی اپنی دستک پر کھولوں گی،

اللہ اللہ کرکے صبح ہوئی، نازلی نے خوشی خوشی نماز پڑھی، کالج جانے کی تیاری کرنے لگی، ٹھیک سات بجے گھر سے نکلنے لگی تو ابو سے سر پر پیار لیا اور امی جان سے کہا کہ امی آج میں دروازہ باہر سے بند کردوں گی اور واپسی پر دستک دے کر کھولوں گی، ابا جان نے کہا کہ ٹھیک ہے نازلی بیٹا، ایسا کرتے ہیں آج میں بھی کام پر نہیں جاتا کیونکہ آج میری بیٹی پہلے دن کالج جا رہی ہے، اسی خوشی میں دن گھر پر ہی گزاروں گا۔

نازلی گھر سے روانہ ہوگئی، اس دن مطلع صبح سے ابر آلود تھا، بالکل نازلی کا پسندیدہ موسم تھا، نازلی کو کالج بھیجنے کے بعد ماں کا دِل گھبرانے لگا، نازلی کے ابا پتہ نہیں کیوں میرا دِل بیٹھا جا رہا ہے، اللہ کرے سب خیر ہو، اس بند دروازے سے مجھے وحشت ہو رہی ہے، وہ اس طرح کے خدشوں اور اندیشوں میں مبتلا تھی اور اسی دوران دروازے پر دستک ہوئی، یہ دستک بہت سے لوگوں کی تھی، دروازہ کھولا تو چند لوگ سفید کپڑوں میں ملبوس نازلی کو خون میں لت پت لائے اور بتایا کہ بس سٹاپ پر کسی تیز رفتار ویگن نے اسے کچل دیا،

ماں کا تو پہلے ہی دِل گھبرا رہا تھا، جب دیکھا تو اپنے ہوش ہی کھو بیٹھی، شام تک ماں کو ہوش نہ آیا، اس دوران اتنی بارش ہوئی کہ کچے کمرے کی چھت گر گئی، جب ماں کو نازلی کی سکھیوں کی یاد آئی تو چیخنے لگی، نازلی بیٹا اٹھو تمہاری سہلیاں تمہیں لینے آئی ہیں، دیکھو تمہاری سکھی ساون کی بارش آئی ہے، اچھا یہ دیکھو کچے کمرے کی چھت گر گئی ہے جس سے تم کو پیار تھا، دیکھو اٹھ جاؤنا، تمہیں سب بلا رہے ہیں، کیا اب بھی نہ اٹھو گی، خدارا نازلی بیٹابہت دیر ہوگئی، آج تم نے اپنی منوالی ہے، دیکھونا سارا دن میں نے دروازہ نہیں کھولا، دیکھو تمہارے ابّا اب تک صحن میں تمہارا انتظار کر رہے ہیں، بیٹا نازلی کب دستک دوگی۔۔۔؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(’’کلیاتِ کریمی‘‘ کی پہلی جلد سے ایک مختصر افسانچہ)

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button