زبان قومی ہویاکہ اپنی، فی زمانہ تحقیق ، تخلیق اور تدریس کی زبانوں کی دراندازی صارفین اور مفادکاروں کی زبانوں کوشکست و ریخت سے دوچارکرتی رہی ہیں۔ ہد ہد کا سلیمان سے ہو یا چونٹیوں کا سلیمان کی لشکر سے ، موسیٰ کا خدا سے ہو یا آدم کاملائیکہ سے الغرض حیواناتِ معاشرتی ہو یا بنوں کوہساروں اور ریگزاروں کے باسی، بولیوں کا ان سے باہمی تعلق بے حد قدیمی ہے ۔زبان جہاں ہمہ جہت سماج کی بنیاد ہے وہاں اسے ثقافت کا حصہ بھی شمارکیا جاتا ہے ۔زبان کسی بھی ثقیف و لطیف شخص کی ملکیت میں تب تک رہتی ہے جب تک یہ اپنے محل وقوع کے اندر رہیں وگرنہ حدود پھلانگنے پر ان آوزوں کو ہرکوئی اپنی بساط و قابلیت کے مطابق مستعارلیتے ہیں ۔زیادہ دور نہیں، ہمارے ہی وطن عزیز میں عنقریب چوہتر مختلف زبانیں یا بولیاں پائی جاتی ہیں اورحالیہ مردم شماری فارم سے ہی واضح ہے کہ ان میں سے صرف سات زبانیں ہی دستاویزی طور پر جانی مانی گئیں ہیں اور باقی ماندہ سڑسٹھ زبانیں دیگر کہلاکر باہم گمنام کردی گئیں ہیں۔ خطہ گلگت بلتستان کی رنگینیوں میں شامل ادھر کی مختلف زبانیں بھی ہیں۔ یہاں کے دس اضلاع میں کم وبیش چھ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مگر کسی کاحال کسی سے مختلف نہیں ۔سبھی زبانوں کے تاریخی اور قدیمی سحر انگیز اور موثر الفاظ خزاں کے پتوں کے مانند جڑتے جارہے ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ جب تعلیم، تحقیق اور تخلیق پر عربوں کا غلبہ تھا تب دیگر زبانوں پرعربی کے اثرات کی چھاپ تھی۔ جبکہ دھیرے دھیرے لاطینی، فرانسیسی اور انگریزی زبان کے اکابرین نے تخقیق اور ایجادات کی بھرمار کی تو اب گلوبلائزیشن کی ہوا انگریزی زبان کو ٹیکنالوجی کی تندرولہروں کی دوش پر دنیا کے کونے کونے تک پھیل چکی ہے۔سائنسی نکتے اور نظریات ہوں یا گھریلو ساز وسامان سب کے نام انگریزی زبان کے ہیں۔حتیٰ کہ نئی نسل کے بچے بھی اپنا نام انگریزی زبان میں رکھنے لگے ہیں۔ گئے وقتوں میں جب کوئی بھائی بھندو اندرونی دھنگا فساد سے عاری گاوں بدر ہوکر کہیں عارضی پناہ گزیں ہوجایا کرتے تو وہ مہاجر کہلاتا تھااور انصارانہیں باسعادت سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان کی معاونت اپنا فرض سمجھ کر نبھاتے تھے۔ آجکل ایسے افرادآئی ڈی پیز کہلاتے ہیں اور ان سے ہر کوئی دامن کھینچ لیتاہے۔ گویا ان کا اثر ہماری زبانوں پر ہی نہیں بلکہ دل ودماغ پڑ کر ہمارے رویوں میں تبدیلی کا باعث بن چکا ہے۔
پہلے لوگ وقت کی پابندی پر زور دیتے تھے اب اوقات یہ ہے کہ ٹائم پرپہنچنے کی فقط کوشش کرتے ہیں۔گلگت بلتستان کی زبانیں کم و بیش یکساں کمزوریوں سے دوچار ہیں۔ نصاب تو درکنار ان میں سے کسی بھی زبان کا قاعدہ تک عنقا ہے۔انگریزی زبان حتی کہ عصر حاضر کی ضرورتوں کے پیش نظرچینی زبان کی طرف جو رغبت دیکھی جارہی ہے اتناانہماک یہاں کی مقامی زبانوں کے حصے میں نہیں ۔ ادب و ثقافت اور تہذیب وتمدن کی سرزمین بلتستان کی بات کریں تو یہ علاقہ تبت خورد کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں بلتی زبان بولی جاتی ہے۔ جغرافیائی اعتبارسے بلتی زبان بلتستان کے علاوہ بھی دیگر ملحقہ علاقوں میں مختلف شکلوں میں آج بھی بولی جاتی ہے۔بلتی زبان تبتی زبان کے خاندان سائنو تبتن اور اس کی زیلی شاخوں تبتو برمن اور کلاسیکل تبتن میں سے کلاسیکل خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔جوکہ تبت ، لداخ، بھوٹان، نیپال، سکم،چین اور بلتستان میں عالمی صحافتی، تعلیمی ، مذہبی اور ثقافتی اثرات کے زیر اثر ہر چند تفاوت اور تبدیلیوں کے ساتھ مستعمل ہے۔ چائنہ کے چھ صوبہ جات کے علاوہ کئی ممالک میں بلتی زبان اِگے رسم الخط کے ساتھ لکھی بھی جاتی ہے۔ سن 569 تا649 قبل مسیح میں جب سارے تبتی زبان والے علاقوں پر سونگسن گمپو تخت نشین تھے تب انہوں نے ان سارے علاقوں کے انتظامی معاملات کے لئے موثر رابطہ کاری کی ضرورت کے پیش نظر اس زبان کے لئے لکھنے کا طریقہ دریافت کرنے پر غوروخوص کیا۔ اس نے اپنے ایک مقرب دانشورتھونمی سمبوتا کو ہندوستان کی طرف اسی کام کی خاطر بھیجا۔تب وہ 632 قبل مسیح میں موجودہ رموزِ زبان دانی اور طریقہ تحریر کے ساتھ لوٹا اور اسی اصول وضوابط کو پورے تبتی خطے میں رائج کردیا۔ بلتی طرز تحریر اِگے کو دو طرز سے لکھا جاتا ہے (بو چن اور بومید)۔ تھونمی نے بلتی زبان کے قوائد کے حوالے آٹھ کتابیں لکھیں ۔ لیکن ان میں سے صرف دو ہی کتابیں دستیاب ہیں۔ ان تمام تبتی بولیوں میں سب سے بنیادی فرق مخرج کا ہے ۔ جدید تبتی کی نسبت کلاسیکل تبتی بولی میں تحریر شدہ ایک ہی لفظ کے لیے بھی آوازوں کی تعداد زیادہ ہے۔
بلتستان کی تبت سے علیحیدگی کی کہانی کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ جب سن 842 قبل مسیح میں بادشاہ لنگ درمہ کا قتل ہوا جو کہ تبت ، لداخ اور بلتستان کا مشترکہ بادشاہ تھا۔تو اس کی سلطنت چند ٹکڑوں میں بٹ گئی اور بلتستان سیاسی اور انتظامی لحاظ سے تبت سے علیحیدہ ہوگیا۔ جب چودہویں صدی میں یہاں اسلام پھیلا تب تبت چونکہ بدھ مت کے پیروکارتھے اس لئے ان سے روحانی تعلق کا قلع قمع ہوگیا۔ عقائد نظریات اور ثقافتی تبدیلی کے اثرات نے موجودہ بلتی بولی کو بطورخاص ایک نئی بولی کے طور پر جنم دیا۔ بلتی زبان کی شکست میں جہاں مذہبی عقائد اور نظریات کی تبدیلی کا عمل دخل رہا وہاں مبلغین اور اسلامی تعلیمات کی زبان کے طور پر عربی اور فارسی زبانوں نے بھی اپنے اثرات مرتب کئے۔ اس زبان کی ترویج میں اب تک ہرچند اقدامات کئے گئے ان میں سے سرفہرست سید ابوالحسن تحسین کا نام آتا ہے جنہوں نے 1152 ہجری میں نصاب الصبیان بلتی فارسی لغت لکھی ۔ ایچ اے جشکی نے تبتی لغت بابت ابتدائی بولی مرتب کی۔AFC بلتی گرائمر 1934 میں جبکہ شیخ احمد نے معرفتہ المبدین نامی عربی، فارسی اور بلتی لغت 1959میں لکھی۔ برن یونیورسٹی سوئٹزرلینڈ سے غلام حسن لوبسنگ کا بلتی قوائد زباندانی شائع ہوا۔ جناب یوسف حسین آبادی نے قرآن مجید کا بلتی میں ترجمہ کیا اور انہوں نے بلتی زبان کے لئے نیا رسم الخط متعارف کرانے کی کوشش کی۔ شگر کے راجہ اور نامور شاعر جناب راجہ صبا نے 2003 میں بلتی اردو لغت مرتب کیا۔فداحسین غاسنگی نے بلتی گرائمراور بول چال، جبکہ معروف شاعر غلام حسن حسنی مرحوم نے بلتی ضرب المثل پر مشتمل کتاب خسمبی میلونگ لکھی ۔ بلتی رسم الخط اِ گے پر میجر فاچو اقبال کی لکھی ایک کتاب بھی دستیاب ہے۔ بلتی زبان کی ہر چند خصوصیات میں سے چند یہ ہے کہ فرد کی ذاتی اور سماجی معاملات کاجامعیت کے ساتھ احاطہ کرتی ہے۔تمام مذاہب کے لئے الگ الگ پہچان موجود ہے مثلا برون چھوس، ہلہ کھانگ اور فیق وغیرہ۔بلتی میں مخصوص اسما ء بھی موجود ہیں اور لوگ رکھتے بھی ہیں مثلا سودے، لوبسنگ، کھیفرووغیرہ ۔ بلتی زبان میں القابات بھی موجود ہیں جیسے انچن، سکن چن، ترنگپہ، کانگسکن وغیرہ۔انتظامی امور کے عہدوں کے لئے مخصوص اسماء ہیں جیسے، ترنگپہ، چو، فاچو وغیرہ ۔ ریاستوں کے نام بھی موجود ہیں مثلانیپال کو بل یل، روس کو رگیہ سر اور لداخ کو ماریول ۔سکردو کے سیاحتی مقام منٹھل گاوں میں موجود آثار قدیمہ بدھا راگ پر لگ بھگ ایک ہزار سال پرانی بلتی اِ گے کی تحریر آج بھی بلتی زبان کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتی ہے۔ البتہ موسمی تغیر اور ضعیف العقیدہ افراد کی چشم حسود نے نقش پر سنگ کو بھی مٹانے کی خاطر خواہ کوشش کی ہے مگر پھر بھی اس کی رمق آج بھی باقی ہے۔
بلتی زبان کی ڈوبتی نیہ کو کنارے لگانے کے لئے بلتستان کے چند دانشور آج بھی کوشاں ہیں۔ یہاں کے شعرا بھی بلتی زبان میں شاعری کرتے ہیں البتہ عجیب حسن اتفا ق ہے کہ تین ٖغلام حسینوں، غلام حسین بلغاری، شیخ غلام حسین سحر اور غلام حسین حکیم کی شاعری میں کلاسیکل بلتی اشارے، کنائے، تشبیہات اور استعارات کی وہ دلکشی ہے جو جدید بلتی زبان بولنے والے لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ بلتی زبان اور ادب کی ترویج میں یہاں کے نوجوان بھی کسی سے پیچھے نہیں ، سکردو کچورا کے رضاغالب اور چھوربٹ کے عبدالحمیدجیسے ہونہار طالب علموں نے اپنے تئیں بلتی اِگے کی سکھلائی کے لئے باقاعدہ کلاسوں کا اجراء کیا ہے۔ یہاں کے غیر سرکاری ادارے بھی بلتی موسیقی کی بقا اور تحفظ کے ساتھ ساتھ چوبکاری اور دیگر فنون کے تحفظ اور ترویج میں کوشاں ہیں۔ یوسف حسین آبادی اور ڈاکٹر حسن خان عماچہ نے انفرادی کوششوں سے بلتی تاریخی اور ثقافتی نادر نمونوں پر مشتمل عجائب گھر قائم کئے ہیں۔ چند مصنفین نے بلتستان کی تاریخ پر اردو زبان میں بھی کتابیں شائع کی ہیں۔ بلتستان کی علمی اور ادبی تنظیموں کی بدولت یہاں علم و ادب کا پرفضا ماحول باقی ہے جس کی بدولت نوجوانوں میں اپنے ادب و ثقافت کے تحفظ، بزرگوں میں اصلاح اور رہنمائی کا جذبہ اور دانشوروں میں فکر وشعور بیدار ہورہے ہیں۔ یقیناًیہی کاوشیں بارآور ثابت ہوں گی ۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button