کالمز

گلگت بلتستان حکومت اور مقامی زبانیں

تحریر : امیر حیدر بگورو
ٹرینگ کوآرڈینیٹر : فورم فار لنگویج انشیٹیوز اسلام اباد

گزشتہ   ہفتے گلگت بلتستان حکومت اور قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی  کے تعاون سے مقامی زبانوں کی تدوین اور ترویج کے لیے   سہہ روزہ سیمنار بنام ً  پہلا دو روزہ ادبی میلہً قراقرم  انٹرنیشنل یونیوسٹی کے مشرف حال میں منایا  گیا۔  اس  پروگرام میں پاکستان بھر سے شعراء ، ماہرین لسانیات او ر  اور پنجاب، سندھ، خیبر پختون خواہ  ،  بلوچستان  اور دارلحکومت سے  زبان اور ثقافتوں پر کام کرنے والے  ماہرین  نے شرکت کی۔  اس دو روزہ سیمنار کا مقصد  گلگت بلتستان کی مقامی زبانوں کی  ترویج تدوین  اور ان  کے احیاء کے لیے ایک ادارے کا قیام تھا۔  گو کہ گلگت بلتستان کی مقامی زبانوں  کو ماضی میں نظرانداز کیا گیا    ۔ لیکن اس بار حکومت گلگت بلتستان کی سنجیدگی کا اندازہ مجھ اس سیمنار کے دواران ہوا۔

سیمنار کے دوران مقامی اور غیر مقامی   لوگوں نے زبانوں کی ترویج اور ادارے کے قیام کے لیے اپنی اپنی قیمتی آرا سے نوازا اور اس امر کو زور دیا کہ پاکستان بھر کی تمام زبانوں کی معدومیت سے بچانے کے لیے ایسے اداروں کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے جو اپنی ماں بولیوں کی کی حفاظت کرے اور ان کو اپنی انے والے نسلوں تک منتقل کر سکے۔ عزیز دوستوں     اپ کو معلوم ہونا چاہیے زبانوں کی اپنی ایک طبعی عمر ہوتی ہے  اُس عمر تک پہنچ کر ان کو مختلف امراض لاحق ہوتی ہیں  اگر ان امراض کی بروقت تشخیص اور  ان کا علاج جب نہیں کرایا جاتا ہے  ان کے مر جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ چونکہ میں لسانیات کا معمولی طالب علم ہوں اور شمالی پاکستان بشمول چترال گلگت اور سوات میں بولی جانے والے زبانوں کے ساتھ گزشتہ سات آٹھ سال سے تعلق  رہا ہے  اور جس ادارے میں میں کام کرتا ہوں وہ ان خطرے سے دو چار زبانوں کے احیاء کے لیے کام کرتا ہے۔ جس کے سلسلے میں مختلف زبانوں کے بولنے والوں کے ساتھ واسطہ پڑھتا ہے  اور کی زبانوں کے احیاء کے لیے  مختلف ورکشاپس اور سرویس کرتے رہتے ہیں ۔ شمالی پاکستان میں تیس سے بتیس کے قریب زبانیں بولی جاتی ہے  جن کی فیملی  دوجہ بندی کچھ یوں ہے    ان تیس زبانوں کا تعلق انڈو- یورپین  کی سب فیملی انڈو ایرانین   کی سب پرانچ انڈوـ آرین  کی شمالی مشرقی زون  ڈارڈک (دری زون ) سے ہیں۔ ان دری زبانوں کو چار مذید حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے  ایک کونڑ جو پاکستان میں ہیں  جس میں دمیلی اور گواربتی زبان شامل ہے۔ جو کہ چترال کے شمال میں آرندو  اور دمیل میں بولی جاتی ہے۔ اس کو دوسرا زون جو کہ چترالی زون ہے جس میں کھوار اور   کلاشہ زبان ہے  اس کا تیسرا زون کوہستانی زون ہے جس میں بٹیری، چلیسو، گاؤری، گورو،  انڈس کوہستانی اور تروالی  زبان شامل ہے جبکہ اس چوتھا اور آخری زون شینا زون ہے جس میں کلکوٹی، کنڈل شاہی، پالولا،ساوی،شینا، اور اوشوجو زبان شامل ہے۔   تاہم ان زبانوں  کے علاؤں  شمالی پاکستان میں ایک زبان ایسی ہے  جس کو ماہرین لسانیات نے  ائسولیٹ کا نا م دیا  ہے جس کا مطلب ہے اس زبان کا تعلق کسی زبانوںکی خاندان سے نہیں ہے اُس زبان کا نام بروشسکی ہے جو ہنزہ نگر اور   ضلع غذر کے کچھ علاقوں میں لہجے کے فرق سے بولی جاتی ہے۔  اسی علاقے میں ایک اور زبان جس کا تعلق  سینو ٹیبتن کی سب فیملی  تبتو برمن  کی سب فیملی  کے تعلق  رکھتی ہے اُس زبان کا نام بلتی ہے جو  بلتستان میں بولی جاتی ہے۔  ان کے ساتھ   شمالی پاکستان میں دو زبانیں ایسی بھی بولی جاتی ہیں جن کا تعلق انڈو-ایرانین  میں پامیری فیملی سے ہیں جن  میں ایک کا نام وخی ہے جو اپر ہنزہ  میں بولی جاتی ہے اور دوسری کا نام یدغا ہے جو  چترال میں  بولی جاتی ہے

پس ان زبانوں کو یہاں دکھانے کا مقصد اور مطلب یہی ہے کہ ماہرین لسانیات نے جب ان زبانوں کو خطرات سے دوچار زبانیں کہا ایسے میں حکومت گلگت بلتستان نے  ان زبانوں کی ترویج کا  بیڈہ اُٹھایا ہے جو نہایت احسن اقدام ہے ۔ جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔  تا ہم اب مستقبل میں ان زبانوں  پر کیسے کام کیا جائے  یہ حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے۔     چونکہ لسانیات کا شعبہ    اور مقامی زبانوں کی ریسرچ کا فقدان ہے ۔ میں ذاتی طور پر گلگت بلتستان  کی زبانوں پر کام کرنے والے ماہرین کو جانتا ہوں جن کو تعداد میں انگلیوں پر گنا  جا سکتا ہے۔  ان میں بہت سے احباب کا بلواستہ شعبے لسانیات سے تعلق نہیں رہا ہے۔  چونکہ نیٹو سپیکرز ہونے کی وجہ سے انہوں نے  اپنے لیول کے حساب سے بہترین خدمات انجام دی ہیں جن کو جتنا سراہا جائے کم ہے۔ لسانیات چونکہ ایک مکمل سائنس ہے جس کا ادراک کیے بغیر    مقامی زباونوں کی تدوین اور ترویج    میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہے۔  آئیں دیکھتے ہیں اقوام عالم نے اپنی زبانوں کو معدومیت سے بچانے کے لیے کیا کیااقدامات کیے ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

میان زبان کا تہوار:

میان کی زبان کی تشہیر کے لئے 1986میں کلیوئیڈ اسٹیٹ یونیوورسٹی نے کینال ونک فیسٹول کا آغاز کیا۔ اس فیسٹول کو سال میں دو دفعہ منعقد کروایا جاتا ہے جس میں اس زبان کےادیب ، ٹیچر، اسٹوڈنٹ اور دوسرے لوگ جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں ۔ اس تہوار کی بدولت میان زبان اور ثقافت کے بارے میں آگہی پیدا ہو گئی ہے اور اسی ہی کی بدولت اس زبان کے شاعر ، ادیب، اوع لکھاری ایک دوسر ے سے ملتے ہیں

کڈازندس کے سالانہ لکھائی کے مقابلے:

Kadazandsun Language Foundation ملائنیا میں سالانہ لکھائی کے مقابلے کرواتی ہے سرکار کار کڈازندس زبان کے مختلف لوک کہانیاں کا مقابلہ کرواتے ہیں جن کی کہانیاں لکھی جاتی ہیں اور ان کی زبان کے لوگوں میں پبلش کیا جاتا ہے یہ سرگرمی ان کو زبان کی ترویج میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اور ان کے پاس اس بدولت ان کی زبان کا کافی مواد بنا ہے

لکھائی کا ایلی فینٹ موبائیل لایبریری:

نادرن لوس کے دور افتادہ علاقوں میں NGO’sنے ایک ہزار بچوں کو کتابوں تک رسائی دی۔ An Elephant Mobile Library کے نام سے۔ انہوں نے زبان کی 640 کتابوں کو ہاتھیوں پر لاد کر اس جگہ پہنچایا۔ اس لائبریری میں بچوں کو کتابیں ادھار کے طور پر پڑھنے لکھنے کے لئے دی جاتی تھیں۔ ہاتھی جو کہ "لوس” زبان کا قومی نشان بھی ہے

آسٹریلوی زبان  کی تدریس کے حوالے سے یونیورسٹی پروگرام:

سڈنی یونیورسٹی کے کوری سنٹر نے مقامی زبانوں کےطلبہ کو اپنی زبان کے حوالے سے کام کرنے پر راغب کیا اور اس سے ان کی مدد بھی کی۔ طلبہ نے مقامی زبان کے  حوالے سے آپ میں گفت و شنید کی اور اسٹاف کے ممبران نہ ے بھی انہیں مفید مشوروں سے نوازاسنٹر نے ایسے کورسسز کا اہتمام کیا جس سے مقامی زبان کے بولنے والے زبان کے زبان کے اساتذہ بن سکیں۔

یہ چند نمونے ایسے تھے کہ اقوام عالم نے اپنی زبانوں کو معدومیت کے خطرے سے باہر نکالا ہے۔  تاہم ، ہم اپنی زبانوں کو معدومیت بچا کر ان کو   اقوام عالم کے لیےمثال بنا سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی سول  حکومت اور بیروکریسی کے مشکور ہیں کہ یہ آنے والے والا وقت ہماری زبانوں کے احیاء کا وقت ہو گا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button