بلاگزسیاحت

محمد ذاکر خان ہنزائی کی یورپ بیتی ۔۔۔۔۔۔۔ دوسری قسط

کراچی والے صاحب کی مدد میں نے لی نہیں۔اب کیا ہو۔ جیب بھی تیزی سے خالی ہو رہی تھی۔ایسے میں انگلستان میں مقیم ایک عزیز مقبول بھائی کا خیال آ یا۔ ان کے گھر والوں سے میں ان کا فون نمبر لیکر آیا تھا۔ انہیں فون کر کے رہنمائی کی درخواست کی۔کہنے لگے پہلے بتایا ہوتا تو کوئی ایسا راستہ بتاتا کہ تم لندن آسکتے تھے۔ اس کیلئے پاکستان سے کچھ کاغذی تیاریاں ضروری تھیں۔ یہا ں یہ کاغذ نہیں بن سکتے۔ انہوں نے کہا کہ میں اوسٹینڈ (Ostend)چلا جاؤں۔ یہ بیلجیم کا ایک ساحلی شہر ہے۔وہاں ریل گاڑی جاتی ہے۔ وہاں میرے ایک دوست محمد حسین رہتے ہیں۔ ان سے جاکر ملو ، وہ تمہاری کچھ نہ کچھ مدد کر دینگے۔ میں بھی انہیں فون کر لونگا۔ محمد حسین صاحب کا پتہ نہیں تھا ان کے پاس۔ کہنے لگے اوسٹینڈ کوئی اتنی بڑی جگہ نہیں تم انہیں آسانی سے ڈھونڈلو گے۔میں نے حامی بھر لی،ان کا شکریہ ادا کیا اور فون بند کر دیا۔

میرے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ ہی نہیں تھا۔چنانچہ اگلے ہی روز ہوٹل کو ادائیگی کی، ایک کمبل اور سوٹ کیس لیا اور ٹرین پر سوار ہو گیا۔ باقی بستر مع بستر بند وہیں چھوڑ دیا۔ ہو ٹل والوں سے کہا پھر آکر لے جاؤنگا ، لیکن اسکی نوبت کبھی نھیں آئی۔ اوسٹینڈ واقعی اتنی بڑی جگہ نہیں تھی۔ سٹیشن سے پیدل چلتا ہوا ایک قریبی سٹریٹ پہنچا۔ دو ایک بندوں سے پوچھنے پر محمد حسین صاحب کا تو نہیں البتہ کسی اور پاکستانی کا پتہ مل گیا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان کا نام آفتاب تھا۔ میںآفتاب کے گھر پہنچا تو وہ گھر پر نہیں تھے۔ دو ڈھائی بجے کا وقت تھا۔سو چا انتظار کر لیتا ہوں۔ سوٹ کیس کو زمین پر رکھا اس کے اوپر کمبل رکھ دیا اور کھڑا ہو گیا انتظا ر میں۔ آتے جاتے لوگ مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہو ئے گزر جاتے۔ کسی نے کچھ نہیں پوچھا ، کسی نے کوئی بات نہیں کی۔میں جانے کتنی دیر کھڑا رہا۔ٹانگیں شل ہو گئیں۔ رات پڑ گئی لیکن آفتاب نہیں آئے۔ عجیب احمقانہ صورت حال تھی۔ اب تو آس پاس کے گھروں کے لوگوں کی نظروں میں شک و شبہات کی جھلک صاف نظر آ رہی تھی۔ خیر خدا خدا کرکے آفتاب آ گئے۔ انہیں جب بتا یا کہ میں کب سے کھڑا ہوں تو کچھ ناراض سے ہو گئے۔ کہنے لگے کیا ضرورت تھی تما شہ بننے کی ۔کسی سے پوچھ کر میرے کام کی جگہ پر آجاتے۔ بہر حال وہ مجھے ساتھ لے کر محمد حسین صاحب کے ہاں لے گئے۔

محمد حسین ایک ادھیڑ عمر شریف النفس انسان لگے ۔ موٹر مکینک تھے۔ ان کا تعلق بھی لاہور سے تھا اور صفانوالاچوک مزنگ میں واقع ایک موٹر ورکشاپ میں کام کرتے تھے۔ یہاں آنے سے پہلے وہ مقبول بھائی کے ساتھ لندن میں تھے۔ لندن سے مقبول بھائی کی کال انہیں آ چکی تھی۔ کھانے کا وقت تھا۔ انہوں نے کھانا لگوا دیا۔بہت دنوں کے بعد گھر کا پکا ہوا کھانا نصیب ہوا۔دال چاول اتنے مزیدار تھے کہ جی بھر کے کھائے۔کھانے کے بعد چائے سے تواضع کی گئی۔پھرگپ شپ ہوئی۔ اسطرح بلا کسی منزل کا تعین کئے ماں باپ بیوی بچوں کو چھوڑ چھاڑ کر گھر سے نکل آنے پر وہ بہت حیران تھے۔کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد آفتاب اور محمد حسین صاحب نے مجھے ساتھ لیااور کچھ فاصلہ پر واقع ایک ہوٹل نما تین منزلہ عمارت پہنچ گئے۔یہ اوسٹینڈ میں میری جائے رہائش تھی۔یہ ہوٹل جسے ریسٹ ہاؤس کہنا زیادہ بہتر ہوگا، ایک بوڑھے میاں بیوی کی ملکیت تھا جو خود بھی اپنے دو جوان بچوں(بیٹا بیٹی) کے ساتھ نیچے رہتے تھے۔محمد حسین صاحب نے مجھے وہاں موجود بوڑھی لینڈ لیڈی کے حوالے کر دیااور بتایا یہاں تمہیں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہو گی۔یہ تمہاراپوراپورا خیال رکھیں گی۔تم یہاں رہو، کھاؤ پیؤ اور پیسے دھیلے کی پرواہ مت کرو۔یہ تمہیں کام دلائیں گے اور اپنے پیسے تم سے وصول کرلیں گے۔اگر تم انگلستان جانے کے خواہشمند ہو تو مطلوبہ معاوضہ ادا کر دینا یہ تمہیں وہاں پہنچا دیں گے۔ان کا اصل کاروبار انسانوں کی سمگلنگ کا ہے۔

مجھے اوپر دوسری منزل کے ایک کمرے میں بستر فراہم کر دیا گیا۔ اس کمرے میں انور نامی ایک پاکستانی پہلے سے براجمان تھا۔ انور بھی اتفاق سے لاہورکا نکلا۔ وہ لاہورکے مضافاتی علاقے چوہنگ کا رہنے والا تھا۔اچھے کھاتے پیتے گھرانے کالگتا تھا۔ انور اور میرا ساتھ ہماری اگلی منزل تک رہا۔اس سے زیادہ بے تکلفی نہ ہو سکی۔ وہ ذرا وکھری ٹائپ کا بندہ لگا مجھے ۔جی کا بوجھ ہلکا ہو گیا ، وقتی طور پر ٹھکانہ مل گیاتو پاؤں پسار ، لمبی تان کر سو گیا۔صبح اٹھ کر ہاتھ منہ دھویا اور نیچے واقع گروسری سے ایک دودھ کی بوتل اور بن مکھن لے کر ناشتہ کر لیا۔اپنا کھاتہ کھلوایااور پیسے حساب میں لکھوادئے۔ کاؤنٹر پر لینڈ لیڈی موجود تھی ۔ریسٹ ہاؤس کی دیکھ بھال شاید اسی کے ذمہ تھی ۔بڑے میاں شاید دوسرے کاموں یعنی بندے ادھر ادھر کرنے میں لگے رہتے تھے۔ اوپر آیا تو انور بالکنی سے نیچے جھانک رہا تھا اور کافی دیر تک جھانکتا رہا۔ میں بھی جھانکنے چلا گیا تو دیکھا ایک نوجوان لڑکی برہنہ حالت میں الٹی لیٹ کر سن باتھ لے رہی تھی۔میں الٹے پاؤں لوٹا اور بستر پر آکر لیٹ گیا۔ انور صاحب کا وکھرا پن سمجھ میں آ گیا۔

ہفتہ دس دن مفت کی روٹیاں توڑتا رہا۔روٹیوں کی بھی سن لیں زیادہ تربن مکھن پر ہی گزارہ کیا ۔کیونکہ معلوم نہیں تھا کیا حرام ہے کیا حلال ۔ایک دن بڑی بی نے بلابھیجا اور کام ملنے کی خوشخبری سنائی۔غالبا ہفتے کا دن تھا ۔ مجھے شام کو کام پر جانا تھا۔اللہ کا شکر ادا کیا اور سرشام نہا دھو ، تیار ہوکر بیٹھ گیا۔غروب آفتاب کے بعد ایک وین آئی اور مجھے شہر کے مضافات میں واقع ایک کنٹری کلب لے گئی۔جہاں گاڑی سے اتار کر مجھے سیدھا ایک وسیع و عریض کچن میں پہنچا دیا گیا۔ پہننے کو ایک ایپرن دیا اور کام پر لگا دیا۔مجھے جھوٹی پلیٹیں دھونی تھیں۔یہ تھی یورپ میں میری پہلی نوکری۔کام مشکل نہیں تھا کیونکہ پلیٹیں دھونی تو ایک بڑی ڈش واشنگ مشین نے تھی جو میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی ۔پلیٹوں کو پہلے نیم گرم پانی سے بھرے ہوئے ایک ٹب میں ڈال کر کھنگالنا تھا اور مشین میں ترتیب سے کھڑی کرکے اسے چلا دینا تھا۔مشین پلیٹوں کو خوب گرم پانی سے دھو کر سکھا تی جاتی تھی۔میں صاف جھاڑن سے انہیں پونچھ کر ایک طرف ترتیب سے لگاتا جاتا تھا۔ نہایت آسان کام تھا۔ پلیٹوں سے فارغ ہوا تو شیف نے فرش صاف کرنے کے لئے ایک وائپر نما چیز میرے ہاتھ میں تھما دی ۔ فرش صاف کر رہا تھا کہ منیجر صاحب تشریف لائے اور اچھی طرح کام کرنے کی تلقین کی۔ میں نے جواب میں سراثبات میں ہلادیا ۔ منیجر صاحب مجھے یقین ہے ، مجھے یقین ہے تم کام اچھی طرح کروگے، کہتے ہوئے چلے گئے۔

میں ہفتے کی شام کو آیا تھا اور اتوار کی رات تک کام کیا۔رات گئے کام ختم ہوا تو کچن کے اوپر ایک کمرے میں رات بسر کرنے کیلئے پہنچا دیا۔جہاں سفید چادر سے ڈھکا صاف ستھرابستر میرے آرام کیلئے بچھا ہوا تھا۔اتوار کی رات بھی وہیں بسر ہوئی اور پیر کی صبح واپس اپنی جائے رہائش لوٹ آیا۔ اس کلب میں مجھے دوبارہ نہیں بھیجا گیا۔کلب نے میرا معاوضہ براہ راست لینڈ لیڈی کو ادا کردیا۔ انہوں نے کیا دیا ، نہ میں نے پوچھا نہ بڑی بی نے بتایا۔البتہ یہ بتادیا کہ میرا اس دن تک کا ادھار ادا ہو گیا ہے۔

اب پھر بیکاری۔ اس ریسٹ ہاؤس میں انڈیا کے لوگ بھی تھے۔جو زیادہ تر سکھ تھے اور انگلینڈ جانے کیلئے آئے ہوئے تھے۔ہم سب باہر کم ہی نکلتے تھے کہ کہیں پولیس ہم سے پوچھ گچھ کرکے دھر نہ لے۔ ہمارا قیام تھا تو غیر قانونی۔کبھی کبھار ساحل سمندر کی طرف چلے جاتے جہاں لوگ لہروں سے اٹھکھیلیاں کرکے لطف اٹھا رہے ہوتے۔اوسٹینڈ چھوٹا سا بہت صاف ستھرا اور نفیس شہر تھا۔لوگ بھی اچھے تھے۔ پاس سے گزرتے تو ہاتھ ہلا کر ، مسکرا کر ہیلوکہتے۔ایک روز بی بی سی ٹیلیوژن سے ہمارے ریسٹ ہاؤس کو دکھایا گیا اور یہ خبر نشر ہوئی کہ اس عمارت سے لوگوں کو غیر قانونی طور پر انگلینڈ جانے میں معاونت کی جاتی ہے اور حال ہی میں کچھ لوگ سرحد پار کرتے ہوئے گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ہم ڈر گئے کہ کہیں چھاپہ نہ پڑ جائے اور ہم بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں۔دوڑے دوڑے لینڈ لیڈی کے پاس گئے اور پوچھا یہ کیا ماجرا ہے۔بڑے اطمینان سے فرمایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ہمارے بارے میں ایسی لا یعنی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ہمیں ان کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ ہمارے ملک پر انگلینڈ کا قانون نہیں چلتا۔اس خبر کے بعد باباجی(بڑی بی کے شوہر)البتہ کئی روز تک غائب رہے۔

کچھ دن بعد قسمت پھر جاگی۔ مجھے اوربغیر ڈاڑھی کے ایک سکھ مہندر سنگھ کو کام کے لئے ایک ہوٹل بھجوایاگیا۔ اس ہوٹل کے مالکان بھی کافی عمر رسیدہ میاں بیوی ہی تھے۔انہوں نے بتایا کہ ہمیں کچن میں باورچی کی مدد کرنی ہے۔ ڈبل روٹی کے سلائس بنا نے ہیں۔ ناشتے کی ٹرے سجانے میں مدد کرنی ہے۔ استعمال شدہ برتن دھونے ہیں۔ کچن کی صفائی کرنی ہے۔ایک مقامی موٹی سی لڑکی بھی وہاں کام کرتی تھی۔ میں تو ان دنوں دھان پان سا ہوا کرتا تھا البتہ مہندر سنگھ اچھے قد کاٹھ کا تھا۔ لڑکی نے سردار جی پر کافی ڈورے ڈالے لیکن کامیاب نہ ہوئی۔

کام صبح صبح کا تھا بس۔ اس کے بعد چھٹی۔اس ہوٹل میں ٹھہرنے والوں کو صرف ناشتہ دیا جاتا تھا۔ کھانے وانے کا جھنجھٹ نہیں رکھا تھا مالکان نے۔ اوسٹینڈ ساحل سمندر ہونے کی وجہ سے موسم گرما میں سیاحو ں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔گرمیوں میں یہاں خاصہ رش رہتا ہے۔اور یہی دن ہوتے ہیں ہوٹلوں کی کمائی کے ۔اس کے بعد تو بیٹھ کر کھانا ہوتا ہے۔

اوسٹینڈ کی ایک اور وجہ شہرت اسکی بندرگاہ ہے۔اور بندرگاہ کی نمایاں خصوصیات میں انگلستان کی بندرگاہ ڈوورDover) (تک فیری سروس بھی ہے۔ ہم ایشیائی فیری سے انگلستان جانے کے لئے بھی قسمت آز مائی کر لیتے ہیں۔اگر قسمت یاوری کرے تو ڈوور پر تعینات گورا امیگریشن افسر آپ کو اینٹری دے سکتا ہے۔ میں نے بھی قسمت آزمائی لیکن اوسٹینڈ میں ہی عزت و آبرو کے ساتھ فیری سے اتار دیا گیا۔

ہوٹل میں ڈیوٹی چلتی رہی۔ میں اور مہندر صبح جاتے اور دوپہر سے قبل لوٹ آتے۔ہو ٹل میں رش کم ہوا تو کام بھی گھٹ گیا۔ایک دن ہم کچن میں فارغ بیٹھے کسی ناشتے کے آرڈر کا انتظا ر کر رہے تھے کہ مالک صاحب تشریف لائے اور اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ وہ ہمیں سیدھا باتھ رومز میں لے گئے، ہمارے ہاتھ میں فرش کی صفائی کا سامان دے کر کہا کہ شروع ہو جاؤ۔میں نے مہندرکی طرف دیکھا اور اس نے میری طرف ۔ سردار جی نے پنجابی میں ایک موٹی سی گالی نکالی اور کہا’ خان جی میں تے نئیں کرنا اے کم‘۔ میں نے جواب دیا ’تے میں کدوں کرریاواں‘۔ ہم نے بڑے صاحب سے کہا کہ ہم یہ کام نہیں کرسکتے۔ وہ حیران ہو کر ہمار ا منہ تکنے لگا۔ وائپر اٹھایا اور خود شروع ہو گیا۔ہم باہر نکل آئے اور مالکن کے پاس جاکر حساب کرنے کو کہا۔ اس نے بھی سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن ہم نے ایک نہیں سنی اور پیسے لیکرچلے آئے۔

اس اثناء میں مجھے سپین کے شہر بارسلونا سے ہرات میں بچھڑے ہوئے دوست جاوید پاشا کا جی پی او کی معرفت خط موصول ہوا۔ یورپ میں خط و کتابت کی یہ بہت بڑی سہولت موجودہے۔ہر شہر کے جی پی او میں ایک پوسٹ بیگ مختص کردیا گیاہے۔جسے پوسٹ ریس ٹین ٹے… (Post Rest’ente)کہتے ہیں۔آپ اس پوسٹ بیگ کی معرفت خط لکھ کر جس شہر میں چاہیں اپنے کسی دوست کو بھیج سکتے ہیں۔ سفر کے دوران جس شہر سے گذریں جی پی او میں اپنی ڈاک چیک کرلیں۔ کہیں نہ کہیں ، کبھی نہ کبھی ، کسی نہ کسی سے رابطہ ہو ہی جاتاہے۔

پاشا نے رابطہ کیلئے ایک ٹیلیفون نمبر بھی بھجوایا تھا۔ اس سے بات ہوئی اپنا حال بتایا ۔ کہنے لگا بارسلونا آجاؤ۔جواب دیا دیکھتا ہوں۔پاشا کی باتوں سے بارسلونا پر کشش لگا مگر سوال یہ تھا کہ بذریعہ ریل گاڑی جانے کے لئے کچھ ممالک سے گزرنے کا ویزہ درکار تھا۔ جس میں نہ صرف کافی وقت لگ جاتا بلکہ ویزہ نہ ملنے کے بھی امکانات تھے۔ بحری جہاز کا سفر بھی لمبا اور نا خوشگوار ہوتا۔ ہوائی سفر ہی ایک صورت تھی آسانی سے وہاں پہنچنے کی۔ ہوائی سفر کیلئے پیسے بھی تو ہوں جیب میں۔ دو ایک دن اسی ادھیڑ بن میں رہا۔روزنامہ مشرق لاہور کے بانی مبانی جناب عنایت اﷲ صا حب مرحوم کا بھتیجہ کلیم اﷲ کچھ عرصہ میرے ساتھ مشرق میں کام کرتا رہا تھا ۔ جسے بعدمیں عنایت صاحب نے اخباروطن لندن بھجوا دیا تھا۔ اس کا فون نمبر میرے پاس تھا۔ میں نے اسے فون کیا اور مدد کی درخواست کی۔ اس نے دوسرے دن پچاس سٹرلنگ پاؤنڈ بھجوا دئے۔بارسلونا کے ہوائی ٹکٹ کا انتظام ہو گیا۔ مجھے کلیم اﷲ کا یہ احسان آج تک یاد ہے۔اس کا یہ قرض مجھ پر اب بھی واجب ہے۔بعد میں پاکستان میں اس سے ملاقاتیں بھی ہوئیں لیکن قرض کی ادائیگی نہ کر سکا۔ اس بھلے مانس نے کبھی تقاضا بھی نہیں کیا۔کلیم اللہ اب بھی لندن میں رہتا ہے۔

میں نے او سٹینڈ سے برسلز کے لئے رخت سفر باندھا۔ میرے کمرے کا ساتھی انور بھی میرے ساتھ جانے کیلئے تیار ہو گیا۔ہم دونوں ٹرین سے برسلز پہنچے ، ایک ٹریول ایجنسی سے رابطہ کیا اور پہلی دستیاب پرواز کا ٹکٹ خرید لیا جو کہ دو گھنٹے بعد جا رہی تھی۔ہم بھاگم بھاگ ائیر پورٹ پہنچے۔ بریفنگ ہو رہی تھی ۔ لائن میں لگ گئے۔ سامان (دو سوٹ کیس ) جہازوالوں کے حوالے کئے، بورڈنگ کارڈ لیا اور اپنی دانست میں بارسلونا جانے والی پرواز کے لاؤنج میں بیٹھ گئے۔ لاؤنج میں ہم دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ کچھ ہی دیر میں یونیفارم میں ملبوس دو افراد ہمیں ڈھونڈھتے ہوئے آ گئے۔ ہمارے بورڈنگ کارڈ چیک کئے اور زور زور سے غالباً فرانسیسی زبان میں کچھ کہتے ہوئے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔

ان کے پیچھے چلتے ہوئے ہم جہاز کے اندرپہنچ گئے۔تقریباً دوسرے تمام مسافروں نے مڑ کر ہمیں زہر آلود نظروں سے گھورا۔ معلوم ہوا کہ ہم غلط لاؤنج میں بیٹھے رہے ، پرواز کا وقت ہو چکاتھا، مسافر وں نے اپنی اپنی نشستیں سنبھال لیں تھیں جبکہ ہم دونوں بیوقوف وہاں غلط لاؤنج میں بیٹھے جہاز پر سوار ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ہماری وجہ سے مسافر اور جہاز کا عملہ پریشان ہوئے۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ جہاز میں سوار کیسے ہوا جاتا ہے۔ یورپ تو کیا ہم نے پاکستان میں کبھی ہوائی سفر نہیں کیا تھا۔ خیر جو بے عزتی ہونی تھی ہو گئی۔

بارسلونا ائر پورٹ سے باہر نکل کر پاشا کو فون کیا۔ وہ تھوڑی دیر میں دو ایک دوستوں کے ساتھ ٹیکسی لیکر پہنچ گیا۔ میں اورانور ان کی معیت میں پاشا کی جائے رہائش پہنچے۔ بندرگاہ کی حدود میں تنگ سی گلی کی ایک بوسیدہ عمارت میں پاشا اور بہت سے دوسرے لوگ رہائش پذیر تھے۔ گنجائش کے لحاظ سے رہائشی زیادہ تھے۔ یہاں پاشا کے کچھ دوسرے دوستوں سے بھی تعارف ہوا۔ یہ سب یہیں اس کے دوست بنے تھے۔ان میں ایک نیلی آ نکھوں والے گورے سے بٹ صاحب بھی تھے۔ بٹ صاحب کی حیثیت ایک لیڈر کی سی لگی۔ انہوں نے حکم دیا کہ کھانے کا بندو بست کیا جائے۔ بتایا گیا کہ وہیں کچن ہے جس میں مل جل کر کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ کچھ دیر میں کھانا آگیا۔ خرگوش کے گوشت کا سالن اور روٹیاں۔ میں نے خرگوش کا گوشت کبھی کھایا نہیں تھا اس لیے پس و پیش کیا۔ اصرار پر کھا لیا اور لذیز لگا۔سپین میں خرگوش کے گوشت کا شمار خصوصی ڈش میں ہوتا تھا۔کھانے کے بعد چائے پیش کی گئی۔ پاشا نے کہا اب آرام کرلو صبح کام پر جانا ہے۔ علی الصبح اٹھا دیا گیا۔انور نے جانے سے انکار کر دیا کیونکہ اسے پیسوں کی ضرورت نہیں تھی۔ میں پاشا اور چند دوسرے دوستوں کے ساتھ ہو لیا۔ زمین دوز ٹرین میٹرو میں بیٹھ گئے ۔ تراگونا Tarragona))کے سٹاپ پر ااتر کر کافی پی اور سٹیشن سے باہر نکل کر بس پر سوار ہو گئے۔ یہ بس چڑہائی پر بل کھاتی ہوئی ایک سڑک پر دوڑنے لگی۔تقریباً آدھ گھنٹے بعدہم ایک جگہ اترگئے۔ یہاں سے اوپر جاتی ہوئی ایک کچی پکی سڑک پر پیدل چل پڑے۔ چڑھائی پر چلنے سے دم پھولنے لگا۔آخر کار ایک جگہ پہنچ کر رک گئے۔ اس جگہ کا نام (Tibidabo) تھا۔ یہاں ا یک تعمیراتی کمپنی (Construcione Vilegas) کے سپروائزر خوزے پائنادو نوارو (Jose Paenado Novarro) عرف پے پے (Pepe)نامی موٹے سے ہسپانوی نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ پے پے قرطبہ کا رہنے والا تھا۔ یہ تعمیراتی کمپنی اس حسین وادی میں کئی کئی کنال اراضی پر ہسپانوی طرز کے عالیشان اور خوبصورت بنگلے تعمیر کر رہی تھی۔مجھے یہاں ایک مزدور کی حیثیت سے بھرتی کر لیا گیا ۔شام کو میری ملاقات کمپنی کے مالک لوئس(Luis)سے بھی کروائی گئی۔لوئس ہسپانوی زبان میں کچھ کہتا رہا اور میں سر ہلاہلا کر سی سینیور، سی سینیور یعنی جی جناب ، جی جناب اس طرح کہتا رہا جیسے اس کی تمام گفتگو میری سمجھ میں آ رہی ہے۔اور میں اسے پلے سے باندھ رہا ہوں۔

سب سے پہلا کام جو مجھے دیا گیا وہ تھا ٹریکٹر ٹرالی پر چٹانوں جیسے بڑے بڑے پتھروں کو لوڈ کرنا۔مجھے تو پتھروں کی جسامت دیکھ کر ہی پسینے آ گئے۔مرتا کیا نہ کرتا ۔ پیٹ بھرنے کیلئے کچھ تو کرنا تھا چنانچہ دو تین ساتھیوں کے ساتھ مل کر یہ عظیم الجثہ پتھر ٹرالی پر چڑھا دئے۔ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے۔ پاکستان میں تو ایسا بھاری کام کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہاں تو میز کرسی پر ٹھاٹھ سے بیٹھ کر کام کرتا تھا۔پہلی بار بے طرح اپنے وطن کی یاد آئی اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔گھر اور گھر والے بھی بہت یاد آئے۔پتھروں سے فارغ ہوئے تو مکسر (سیمنٹ، ریت، بجری ملانے والی مشین) میں بیلچہ سے ریت بھرنے کا کام سونپ دیا گیا۔

شام کو تھک ہار کر واپس پہنچے تو بستر پر لیٹتے ہی دنیا و ما فیہا کی خبر نہیں رہی۔پاشا نے اٹھا کر کھانا کھلایا اور میں پھر سو گیا۔خیر تبی دابو جانے کا سلسلہ چلتا رہا۔مزدوری کا عادی سا ہو گیا۔کچھ دنوں بعد میں، پاشا اور انور نے مل کر ایک کمرہ لے لیا اور پرانی رہائش کو خیر باد کہ دیا۔ یورپ میں دو چیزوں کی مشکل ہے۔ ایک زبان ، دوسرے کھانا پینا۔ وہاں ہر کسی کو انگریزی زبان نہیں آتی۔ دوسرے حلال کھانا بہت مشکل سے ملتا ہے۔ بارسلونا میں قیام کے دوران ہسپانوی زبان سیکھنے کی کوشش کی کیونکہ اس کے بغیر گزارہ نہیں تھا۔ کولنز نامی برطانوی اشاعتی ادارے نے اس سلسلہ میں ڈکشنریاں چھاپ رکھی ہیں جو ٹورسٹوں کے بہت کام آتی ہیں۔ کچھ مدد اس ڈکشنری سے لیکراور وہاں رہنے سے لوگوں کی بول چال سن کر روزمرہ کاکام بخوبی چلنے لگا۔ لوگوں کی سمجھنے لگے اور اپنی سمجھانے لگے۔یہی صورت حال دوسرے ممالک میں بھی رہی۔ کھانے پینے کے معاملے میں زیادہ تربریڈ، دودھ ، مکھن ، پنیر وغیرہ سے پیٹ بھرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ بارسلونا میں شام کو جب محنت مزدوری کے بعد اپنے کمرے کولوٹٹتے تھے تو ایک اوپن مارکیٹ راستے میں پڑتی تھی۔ تمام سودا وہیں سے مل جاتا تھا۔کبھی کبھار جب عیاشی کا موڈ ہوتا، ایک یہودی مرغی فروش کے ہاں سے کلیجی پوٹے لے آتے اور پکا کر مزے لے لے کر کھا تے۔

بارسلونا بہت خوبصورت شہر ہے۔یہاں سیاحوں کی دلچسپی کا بہت سامان ہے۔قدیم اور جدید عمارتوں کا شہر بارسلونا اپنے اندر بہت کشش لیے ہوئے ہے۔ یہ سپین کے صوبہ کیٹالونیا (Catalonia)کا صدر مقام ہے۔ اگر آپ تاریخ سے واقف ہیں تو جانتے ہونگے کے کیٹالونیا کے فرمانروا فرڈ یننڈ اور قریبی ریاست کی ملکہ ازابیلا نے شادی کرکے سپین کے مسلمان حکمرانوں کے خلاف ، جو آٹھ سو سال سے اندلس کو فتح کرکے اس پر حکومت کر رہے تھے، اتحا د قائم کرلیا تھا۔بعد میں دیگر عیسائی ریاستیں بھی اس اتحاد میں شامل ہو گئیں۔ادھر محلاتی سازشوں میں گھرے اندلس کے مسلمان حکمران عیاشیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ 1482 عیسوی میں مسلمانوں کے خلاف جو جنگ چھیڑی گئی وہ بالآخر1492 عیسوی میں اختتام پذیر ہوئی اور سپین میں مسلمانوں کا قلع قمع کرنے کا آغاز کر دیا گیا۔

قدیم و جدید تہذیب کا سنگھم بارسلونا دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کا مرکز ہے۔ آج بارسلونا اپنے فٹ بال کلب (FCB)کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ ایف سی بی کا شمار دنیا کی بہترین اور کامیاب فٹ بال ٹیموں میں ہوتا ہے۔لاس ریمبلاز Las Rambalas))بارسلونا کی وہ مرکزی تفریح گاہ ہے جہاں زندگی کی رنگینیاں جا بجا بکھری نظر آتی ہیں۔ لاس ریمبلاز کی تشریح الفاظ میں کرنا ذرا مشکل ہے۔ یوں سمجھ لیجیئے جیسے لاہور کا پرانا مال روڈجو ٹھنڈی سڑک بھی کہلاتی تھی۔ لاس ریمبلازکے دونوں طرف سایہ دار درخت ایستادہ تھے۔ پیدل چلنے والوں کیلئے خوبصورت ٹائلوں سے مزین تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر طویل گزرگاہ بنی ہوئی تھی جس کی دونوں جانب ٹریفک ہر د م روا ں دواں رہتی ۔لاس ریمبلاز کولمبس کے یادگاری مجسمہ سے شروع ہوکر پلازہ کیٹالونیا پر ختم ہوتی ہے۔ ہم بھی کبھی کبھار چھٹی کے دن کسی ریستوران کی میز پر بیٹھ کر سرویسا(بیئر) پیتے اور آنے جانے والوں کا نظارہ کرتے ۔ میں نے ایک دفعہ سنیما میں ایک فلم بھی دیکھی جو ہسپانوی زبان میں ڈب ہوئی تھی۔ ڈسٹن ہافمین اس فلم کا ہیرو تھا۔ فلم کا نام یاد نہیں۔

شام کے وقت یہاں لوگوں کا ایسا اژدہام ہوتا ہے کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ لوگ کناروں پربچھی میز کرسیوں پر بیٹھ کر مشروبات و ماکولات سے لطف اندوز ہوتے اور آنے جانے والوں کا نظارہ کرتے ہیں۔ جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے ہیں بھانت بھانت کے فنکار لوگوں کو تفریح فراہم کرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی جوکر بناہوا ہے تو کوئی بازیگر۔ کوئی قسمت کا حال بتا رہا ہے تو کوئی جادو کے کرتب دکھا رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے سٹالز پر دنیا بھر کے اخبار، رسالے، کتابیں، نقشے، بارسلونا اور سپین سے متعلق معلوماتی لٹریچر، سووینیرز ، پھول اور گلدستے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔

ایک اتوار کوطارق، پاشا کالاہور سے واقف دوست ، ا سے ملنے آیا اور بتایا کے بارسلونا سے تقریباً ساٹھ کلو میٹر دور ویلنشیا Valencia))جانے والی سڑک کے بیچوں بیچ پل کی طرح کا ایک ریستوران ہے جہاں وہ کام کرتا ہے اور اسے اپنے ساتھ کام کرنے کیلئے ایک آدمی کی ضرورت ہے۔اس نے پاشا کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا لیکن پاشا راضی نہ ہوا۔اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ذاکر کو لے جاؤ ۔ اسے مزدوری کرنا مشکل ہو رہی ہے۔میں راضی ہو گیا۔ اگلے روز ٹرین میں بیٹھ کر میں طارق کے ساتھ چلا گیا۔بارسلونا سے بمشکل ایک گھنٹہ کا سفر تھا۔ طارق بہت خوش مزاج ہنس مکھ انسان تھا۔لاہور میں رکشہ چلاتا تھا اور کسی وجہ سے بھاگ کر سپین آگیا تھا۔وہ ہمارے ایک مشترکہ دوست ، فلمی صحافی ذوالفقار رضوی کا بھی دوست تھا۔ آج کل امریکا میں ہے کہیں۔

صاحب، تحریر ہوٹل کی وردی پہنے اپنے دوستوں کے ہمراہ

کام وہی تھا کچن میں برتن دھونے اور صفائی کرنے کا۔ہمیں ایک سفید ایپرن، گلے میں باندھنے کی لئے سرخ سکارف اور ٹوپی دے دی گئی۔ یہ ہماری کام کی وردی تھی۔ کچن میں پہنچ کر کام سے لگ گئے۔ برتن دھونے کا کام میں بیلجیم میں بھی کر چکا تھا۔فرق یہ تھا وہاں صرف پلیٹیں دھونی پڑی تھیں اور یہاں بڑے بڑے جہازی سائز کے دیگچے بھی تھے دھونے کیلئے۔ بعض دیگچے تو اتنے بڑے تھے کہ انہیں ان کے اندر گھس کر دھونا پڑتا تھا۔ رہائش کیلئے ایک کمرے کا بھی انتظام تھا۔

ریستوران چونکہ شاہراہ پر واقع تھا اس لئے ہر وقت بھرا رہتا تھا۔صبح سویرے سے رات گئے تک کام کرنا ہوتا تھا۔کام کرنے میں تھکان یا بوریت نہیں ہوتی تھی۔ ساتھ کام کرنے والے بیرے خانساماں بہت خیال رکھتے تھے۔ ہنستے ہنساتے وقت گزر جاتا تھا۔ کام اتنا تھا کہ کھانا پینا سب کام کرتے ہوئے ہوتا تھا۔ماحول اچھا تھا اسلئے یہاں جب تک کام کیا مزہ آیا۔

زندگی کے دن ایسے ہی گذرتے رہے۔ بیوی بچوں کی یاد بھی ستاتی رہتی تھی۔کبھی کبھی بہت پچھتاوا ہوتا۔ سوچتا اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ آرام سے رہ رہے تھے۔عزت والا کام تھا ۔ جو ملتا تھا اس میں اچھی بھلی گذر بسر ہو ر ہی تھی۔ یہاں اپنے گھر، اپنے وطن سے اتنی دور آ کر دھکے کھانے سے کیا ملا۔ اتنا ہی ملتا تھا جس سے اپنے اخراجات مشکل سے پورے ہوتے تھے۔ بیوی بچوں کو کچھ بھیجنے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا تھا۔خیال تھا درختوں پر نوٹ لگے ہوں گے۔ جھولیاں بھر کے توڑ لائیں گے۔سارے سہانے خواب ڈراؤنی حقیقت میں بدل گئے۔ بزرگوں کی ایک نہ سنی ، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یورپ آگئے اور اب نتیجہ بھگت رہے تھے۔

ٌٌٌ ًًًًًٌٌٌٌیورپ میں سب سے بڑا مسئلہ زبان کا ہے۔ سپین میں ہسپانوی، بیلجیم میں فرانسیسی اور فلیمش، جرمنی اور آسٹریا میں جرمن زبانیں بولی جاتی ہیں۔ انگریزی کو یہاں کوئی زیادہ گھاس نہیں ڈالتا۔ جب انہیں یہ معلوم ہوتا کہ انگریزی ہمیں سکول ،کالج میں پڑھائی جاتی ہے تو وہ بہت حیران ہوتے۔پوچھتے کیا تمہاری اپنی کوئی زبان نہیں ہے جو غیر ملکی زبان پڑھتے ہو۔ادھر اپنے ملک میں ہم تھوڑی بہت انگریزی بول کر لوگوں کو مرعوب کر لیتے ہیں اور اتراتے پھرتے ہیں۔جبکہ دنیا کے اکژ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ٹھیک ہے انگریزی رابطے کی زبان ہے اور سیاحوں کو سہولت ہوتی ہے اس زبان کے جاننے سے لیکن کسی بھی ملک جاکر اگر آپ اعلٰی تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو پہلے وہاں کی زبان سیکھنی پڑتی ہے۔ہمیں بھی اپنے ملک میں اپنی قومی زبان اردو کی ترویج کا کام سنجیدگی سے کرنا چاہیئے۔اردو کو ذریعہ تعلیم بنانا چاہیئے۔تاکہ انگریزی سیکھنے میں ضائع کیا جانے والا وقت دوسرے ضروری مضامین کی پڑھائی میں صرف کیا جا سکے۔

سپین اس زمانہ میں کوئی ایسا خوشحال ملک نہیں تھا۔ اب تو یورپی یونین کا رکن ہے اور ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے۔بارسلونا میں گذرا ہوا وقت اچھا تھا۔ ہسپانوی ملنسار تھے۔ یہاں اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ میں اور پاشا نے گھوم پھر کر شہر بھی دیکھا اور بارسلونا سے باہر بھی گئے۔ بحیرہ اوقیانوس کے کنارے آباد بارسلونا کا ساحل میلوں لمبا ہے۔ موسم گرما میں دنیا بھر سے سیاح یہاں کے ساحلوں پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ بارسلونا سے ٹرین پر سوار ہو کر کر ہم ساحل سمندر کا نظارہ بھی کرنے گئے۔ تا حد نگاہ سیاح ہی سیاح نظر آتے تھے جو بیچ (Beach) پراپنی جلد براؤن کر نے کے لئے اوندھے سیدھے لیٹے ہوئے تھے۔ ہسپانوی بہت میٹھی زبان ہے۔ مجھے تو بہت اچھی لگی۔ایک بات جو میرے جی کو بہت لگی وہ تھی ان لوگوں کا سلام میں پہل کرنا۔ جب کسی دکان میں د اخل ہوتے تو دیوسdios)) کہتے ہوئے داخل ہوتے اور باہر نکلتے ہوئے کہتے آدیوس (Adios)۔ ہم مسلمان ہو کر جھجکتے ہیں کسی کو سلام کرنے میں حالانکہ ہمارا مذہب ہمیںیہی سب کچھ سکھاتا ہے۔

جیسا شروع میں ذکر کر چکا ہوں یورپ کے سفر کیلئے ہم چار دوست تیار ہوئے تھے لیکن اکٹھے سفر کا آغاز نہ کرسکے۔پاشا سپین پہنچ گیا اور اس سے رابطہ بھی ہو گیا لیکن سعید اور مفتی کی کوئی خبر نہیں تھی ۔ پاکستان میں ایک دوست سے ہمارا رابطہ تھا جسے ہم چاروں فون کرکے اپنی خیریت بتاتے اور دوسروں کی معلوم کر لیتے ۔ایک دن اس دوست کو فون کیا تو معلوم ہوا سعید اور مفتی ویانا پہنچ گئے ہیں۔پاکستان والے دوست کو کہ دیا کہ سعید یا مفتی کا فون آئے تو بتا دینامیں اور پاشا بارسلونا میں ہیں۔ وہ جی پی او کی معرفت خط لکھ کر ہم سے رابطہ کر لیں۔

بارسلونا سے دانا پانی اٹھ چکا تھا۔ میں نے زیورخ جانے کی ٹھان لی۔ سوئٹزرلینڈ جانے کے لئے ویزہ درکار تھا۔میں نے کام پر جانا چھوڑ دیا تھا۔ پاشا نے ایک دن میرے لئے چھٹی کی اور ہم سوس (Swiss)قو نصلیٹ جا کر ویزہ لے آئے جو آسانی سے مقررہ فیس ادا کرکے مل گیا۔جینیوا تک کا ٹرین ٹکٹ خرید لیا۔ بارسلونا سے روانہ ہو کر گاڑی ہسپانوی .فرانسیسی بارڈر پورٹ باؤ (Port Bou)سے فرانس میں داخل ہو گئی۔ ساری رات کے سفر کے بعد صبح فرانس کے سرحدی قصبہ بیلے گاردے(Bellegarde) پہنچا۔سامنے جینیوا کا کورنا ون (Cornavin) سٹیشن نظر آ رہا تھا۔ چند قدم چل کر سرحد کوپار کیا۔امیگریشن کسٹم وغیرہ سے فارغ ہو کروہاں پہنچ گیا۔زیورخ کے لئے ٹکٹ خریدا۔گاڑی چلنے میں ابھی ایک دو گھنٹے باقی تھے۔ سٹیشن کے قرب و جوار کا چکر لگایا اور پلیٹ فارم پر واپس آگیا۔

بارسلونا (سپین) میں صاحب مضمون، اپنے دوستوں، پاشا اور انور، کے ہمراہ۔ دائیں میں آخر میں کھڑے دوست کا نام ذاکر ہنزائی صاحب کو اب یاد نہیں رہا ہے

سٹیشن کے آس پاس کا علاقہ بہت خوبصورت اور صاف ستھرا تھا۔جینیوا کو جھیلوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ میری جیب میں وافر پیسے ہوتے تو ایک آدھ دن شہر کی سیر کیلئے ضرور رک جاتا ۔ٹرین اپنے وقت پر روانہ ہو گئی۔پورے یورپ میں ٹرینوں کی آمد اور روانگی کے اوقات کی پابندی قابل رشک ہے۔ٹرین بھی کیا ٹرین تھی۔ خوبصورت کھلے ڈھلے کیبن ۔موسم کے مطابق ٹمپریچر۔بہترین پوشش والی آرامدہ نشستیں۔ہمارے ہاں تو پھٹوں پر بیٹھ کر سفر کرنا پڑتا ہے۔گاڑی چلی تو کھڑکی سے باہر کا نظارہ مسحورکن تھا۔پھولوں سے لدے پودے، جھیلیں اور تا حد نگاہ پھیلی ہوئی ہریالی آنکھوں کو خیرہ کئے دیتی تھیں۔ریل کا ایسا خوشگوار سفر میں نے کبھی نہیں کیا۔ٹرین اپنی پوری رفتار سے رواں دواں تھی لیکن نہ تو پٹڑیوں کی کھٹ پٹ سنائی دے رہی تھی اور نہ ہی جھٹکے محسوس ہورہے تھے۔پھر گاڑی پہاڑی علاقوں میں داخل ہو گئی۔کئی سرنگوں سے گزری۔ برف پوش پہاڑوں کی حسین وادیوں کو پار کیا اور شام کے وقت زیورخ پہنچ گئی۔

سعید اور مفتی مجھے یوتھ ہوسٹل زیورخ میں ملنے والے تھے۔میں وہاں آسانی سے پہنچ گیا۔ملاقات ہوئی۔شام میں ٹرام پر تھوڑا سا شہر گھومے۔ فلم The Exorcist دیکھی۔ فلم کی زبان انگریزی تھی جبکہ Sub-titles جرمن زبان میں تھے۔ بیلجیم کی طرح سوئٹزر لینڈ میں بھی دو زبانیں بولی جاتی ہیں۔ فرانسیسی اور جرمن۔ یہاں بھی پورے ملک میں سائن بورڈ دونوں زبانوں میں لکھے جاتے ہیں۔سائن بورڈ سے یاد آیا کہ جب اسٹیشن پر اترا تو ٹائلٹ گیا۔وہاں پیشاب کرنے کی جگہوں پر سامنے بلیک بورڈ اور چاک رکھے ہوئے تھے۔ اور لوگوں نے فارغ ہوتے ہوئے اسے استعمال بھی کیا ہوا تھا۔ اس پر لکھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہوئی تھی۔یورپ کا دستور بھی عجیب ہے۔

رات یوتھ ہوسٹل میں بسر کی۔صبح اٹھ کر حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کیلئے غسل خانوں کی طرف نکلا تو عجب نظارہ تھا۔لوگ باگ قدرتی لباس میں کاندھے پر صرف تولیہ ڈالے بڑے آرام سے ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ زندگی میں ایسا منظر میں نے کاہے کو دیکھا تھا۔بوکھلاکر الٹے پاؤں اپنے کمرے میں لوٹ آیا ۔ سعید اور مفتی کو بتایا تو وہ اس بو کھلاہٹ پر میرا مذاق اڑانے لگے۔

سعید نے بتایا کہ ویانا میں مقیم پاکستانی آجکل کاروں کا کاروبار کر رہے ہیں ۔یہاں سے استعمال شدہ گاڑیاں اونے پونے خریدکر لے جاتے ہیں اور ترکی، شام جیسے ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کو اچھے خاصے منافع پر فروخت کر دیتے ہیں اور وہ بھی اسی سلسلے میں زیورخ آیا ہے۔ مفتی کو وہ ویسے ہی ساتھ لے آیا تھا۔ اسکے ساتھ ساجھے داری نہ تھی۔سعید نے سرخ رنگ کی ایک پرانی اوپل خریدی اور ہم تینوں اسی پر عازم ویانا ہوگئے۔

ہم دوپہر کے بعد روانہ ہوئے۔ شہر سے نکل کر موٹروے A1 پر چڑھ گئے۔زیورخ سے ویانا 748 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔یورپ میں گاڑی سیدھے ہاتھ چلائی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں الٹے ہاتھ۔ ہمارے ہاں گاڑی کا ڈرائیور دائیں جانب بیٹھتا ہے جبکہ یورپ میں بائیں جانب۔موٹر وے نہایت کشادہ تھی ۔دونوں جانب تین سے چار کاریں با آسانی سفر کر سکتی تھیں۔سڑک پر انتہائی بائیں تیز رفتار، درمیان میں اس سے کم رفتار اور انتہائی دائیں سب سے کم رفتار والی گاڑیاں تھیں۔ہماری گاڑی چونکہ پرانی تھی اس لیے ہم نے سب سے کم رفتار والی لین کا انتخاب کیا۔ سعید نے بتایا کہ ویانا پہنچنے میں نو سے دس گھنٹے لگ جائیں گے۔

راستے میں جا بجا پٹرول پمپ تھے جن کے ساتھ ریسٹوران اور بیت الخلا ء بھی موجود تھے۔ریسٹورانوں میں کھا نے پینے کی تمام اشیاء دستیاب تھیں۔ ہم بھی راستے میں دو ایک جگہ چائے پانی یا رفع حاجت کے لئے رکے۔ ایک جگہ مفتی سردی کی وجہ سے گاڑی میں بیٹھا رہا۔ سعید اور میں نے سوچا کہ مفتی کے ساتھ کچھ مذاق کیا جائے۔ ریستوران سے نکلے تو ڈگمگاتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھے۔ مفتی نے ہمیں دیکھ لیا اور جیسے ہی گاڑی میں بیٹھے مفتی نے گالیاں بکنی شروع کردیں۔ تم دونوں پی کر آئے ہو۔ اب سعید نشے میں گاڑی چلائے گا اور ہمیں کسی حادثے کا شکار کر کے رہے گا۔ پتہ نہیں زندہ ویانا پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں۔ ہم دونوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا اور اسے بتا دیا کہ ہم توایکٹنگ کر رہے تھے۔ تب جاکر اس کی جان میں جان آئی۔ انسان موت سے کتنا ڈرتا ہے۔

صاف ستھری کھلی ڈھلی سڑکوں پر سفر کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ درمیان میں کچھ علاقہ پہاڑی بھی تھا جہاں برف گر رہی تھی۔ٹریفک آہستہ چل رہی تھی کیونکہ سڑکوں پر سے برف ہٹائی جا رہی تھی۔ایسے موسم میں گاڑی چلا نے کے لئے مہارت کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ پھسل کر نیچے کھائی میں گر جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ہم میں سے صرف سعید ہی گاڑی چلانی جانتا تھا اور اس کی مہارت میں ہمیں کوئی شک و شبہ نہ تھا۔ایک موڑ پر اگر اس کی مہارت کام نہ آتی تو ہم کیا شاید ہماری لاشیں بھی واپس پاکستان نہ آتیں۔

سوئٹزرلینڈ کی حدود ختم ہوتے ہی ہم جرمنی میں داخل ہوئے۔ چھوٹی سی سرحدی چوکی تھی ۔گارڈز نے بغیر روکے نکل جانے کا اشارہ دیا۔میونخ یہاں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ یہاں ہمارا نصف سفر پورا ہوا۔ہمیں آسٹریا جانا تھا اسلئے موٹر وے پر ہی رہے۔یہ علاقہ بھی پہاڑی تھا مگر یہاں برف نہیں پڑ رہی تھی۔تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت طے کر کے ہم آسٹریا میں داخل ہو گئے۔ یہاں بھی ہم نے بلا روک ٹوک سرحدپار کر لی اورInnsbruck پہنچے جہاں سے ویانا کا باقی سفر دو تین گھنٹے کا رہ گیا تھا۔ویانا پہنچتے پہنچتے صبح ہو گئی۔

ویانا میں Renweg نامی شاہراہ پر سعید اپنے دوست جلیل ، جس کا ذکر شروع میں کر چکا ہوں،کے ساتھ ایک کمرے کے مکان میں ٹھہرا ہوا تھا۔جلیل بھی بھا کہلاتا تھا اور سعید کے بچپن کا دوست تھا۔ بہت مرنجاں مرنج ہستی تھی۔ مفتی کے علاوہ شاہد نامی ایک اور دوست بھی انکے ساتھ رہتا تھا۔میں پانچواں تھا۔ چھوٹا سا کمرہ تھا۔ ایک کونے میں کھانے پکانے کا سامان بھی موجود تھا۔پردیس میں جیسے ہوتا ہے مل جل کر وقت گزار رہے تھے۔سعید نے کہا ایک آدھ دن آرام کرلوپھر تمھارے کام کا انتظام کرتے ہیں۔

آسٹریا یورپ کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی قائم ہو گیا تھا ۔ ایک زمانے میں ہنگری اور آسٹریا ایک ہی مملکت میں شامل تھے۔دونوں کا فرمانروا ایک ہی ہوا کرتا تھا۔1938 میں یہ دو الگ الگ ملک بن گئے ۔جنگ عظیم دوم میں ہٹلر نے آسٹریا پر حملہ کرکے اسے تباہ و برباد کر دیا تھا حالانکہ وہ خود آسٹرین تھا۔1945 کے بعد اس ملک، خاص طور پر ویانا شہرکو دوبارہ آباد کیا گیا۔ویانا کا شمار یورپ کے قدیم ترین اور خوبصورت شہروں میں ہوتا ہے۔اس کا اپنا الگ انگ رنگ ہے۔ یہاں کے باسی آپیراکے دیوانے ہیں۔ویانا کے آپیرا ہاؤس دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ اندرون شہر ہمارے لاہور کی طرح تنگ گلیوں اور بازاروں پر مبنی ہے ۔ یہاں کی گلیاں اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔ جدید تعمیرات بھی ہیں لیکن شہر کا قدیمی حسن برقرار رکھا گیا ہے۔ مشہور موسیقار موزارٹ اسی شہر میں اپنی مسحور کن موسیقی بکھیرتا رہااور حاسدوں کی رقابت اور جلن کا شکار ہو کر جوانی میں ہی راہی ملک عدم ہوگیا۔آسٹریا کے لوگ ً جھکو مگر ٹوٹو نہیںً کے مقولے پر یقین رکھتے ہیں۔

آسٹریا کی زبان جرمن ہے۔ویانا کو انتظامی طور پر 23حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔دریائے ڈینیوب، جس کی تعریف میں یورپی شاعروں نے زمین و آسمان کے قلابے ملا رکھے ہیں، شہر کے شمالی مضافات کو چھوتا ہوا گزرتا ہے۔ویانا میں آمدورفت کی سہولتوں میں الیکٹرک بسیں، ٹرامیں (Strassenbahn) ، زیرزمین میٹرو(U-Bahn) اور Gurtel)) فصیل شہرپر چلنے والی ٹرین (Stadtbahn) شامل ہیں۔ان کے علاوہ ٹیکسی کاریں بھی دستیاب ہیں۔ یہاں لوگ چھٹی کے روز اپنی ذاتی گاڑیوں کو ٹیکسی میں تبدیل کر لیتے ہیں جس کی کھلی اجازت ہے۔ یہاں کی تمام ٹرانسپورٹ وقت کی پا بند ہے۔ بس اور ٹرام کے سٹاپس پر چارٹ لگے ہوئے ہیں جن پر بس اور ٹرام کی آمد اور روانگی کا وقت درج ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ بس یا ٹرام نے کتنے بجے اس سٹاپ پر رکنا ہے چنانچہ آپ وقت پر بس یا ٹرام پکڑ کراپنی منزل مقصود پر وقت پر پہنچ سکتے ہیں۔یہی حال دوسری گاڑیوں کا ہے۔

ویانا میں گھومنے والی ریستوارن کی چھت پر نکالی گئی تصویر میں صاحبِ مضمون اپنے دوستوں کے ہمراہ

ویانا میں میرا قیام یورپ میں سب سے زیادہ عرصہ یعنی چار ماہ رہا۔گذر اوقات کے لئے اخبار کا ہاکر بننا پڑا۔ جرمن زبا ن میں یہاں کے دو مشہور اخبار Kronen Zeitung اورKourier شام کو شائع ہوتے ہیں۔ یہی اخبار دوبارہ صبح کو بھی فروخت ہوتے ہیں۔ دونوں اخبار Tabloid سائز میں نکلتے ہیں اور دونوں میں سخت مقابلہ ہے۔دونوں اخبارات بک سٹالز کے علاوہ شہر کے مختلف سپاٹس پر تعینات ہاکرز کے ذریعہ بھی فروخت ہوتے ہیں۔ ہر ہاکر کو پہننے کیلئے ایک اپر دیا جاتا ہے جس کے دونوں طرف اخبار کا نام چھپا ہوتا ہے۔ میںKronen Zeitung کاہاکر تھا۔ Zeitung جرمن زبان میں اخبار کو کہتے ہیں۔یہ اخبار ویانا میں مقیم ہم جیسے بغیر اجازت نامے کے کام کرنے والے غیر ملکی، جن میں پاکستانی، ہندوستانی اور مصری نمایاں تھے، فروخت کرتے تھے۔طریقہ کار یہ تھا کہ سہ پہر کو پریس پہنچ کر اخبار اٹھانا ہوتا تھا۔تعداد کا تعین دفتر والے سپاٹ کے حساب سے کرتے تھے۔ مطلوبہ تعداد کی ادائیگی کے بعد اخبار آپ کو مل جاتے تھے۔اگلے روز غیر فروخت شدہ کاپیاں واپس کر دی جاتی تھیں اور ان کی قیمت نئے دن کی سپلائی کی قیمت سے منہا کر دی جاتی تھی۔اگر واپسی زیادہ ہوتی تو باتیں بھی سننی پڑتی تھیں۔ جلدی اخبار حاصل کرکے اپنی جگہ پر پہلے پہنچ جانے والے زیادہ سیل کر لیتے اور مجھ جیسے دیر سے پہنچنے والوں کی کاپیاں بچ رہتیں۔ میں بس اتنا کما لیتا تھا کہ دو وقت کی روٹی پوری ہو جاتی تھی۔ لیکن کئی لوگ ہزاروں کما رہے تھے۔جن کے پاس اپنی گاڑی تھی وہ اخبار کے چھپتے ہی اپنی کاپیاں لیکر نکل جاتے اور گھنٹوں میں بیچ باٹ کر گھروں کو لوٹ جاتے۔ اس کے علاوہ کچھ ہاٹ سپاٹ تھے جہاں اخبار ہاٹ کیک کی طرح بکتا تھا اور خوب بکتا تھا۔اخبار کے وہ کارکن جو سپاٹ الاٹ کرتے تھے انھیں پر مہربان ہوتے جو ،ان پر مہربانی کرتا۔ یعنی کچھ دو اور کچھ لو۔ مصریوں نے اس معاملہ میں سب کو پیچھے چھوڑ رکھا تھا۔ ان اخبار فروشوں میں ایک ہندوستانی نوجوان بھی تھا جو آسٹریا کے ایک بین الاقوامی شہرت کے حامل کالج سے ہوٹل منیجمنٹ میں ڈگری حاصل کرنے آیا تھا۔ اخبار بیچ کر فیسوں کیلئے پیسے جمع کر رہا تھا۔جرمن زبان اس روانی سے بولتا تھا کہ آسٹرین بھی حیران رہ جاتے ۔وہ صبح شام اخبار فروخت کرتا تھا۔صبح میں کوئی سپاٹ تھا جبکہ شام کو اسے چل پھر کر اخباربیچنے کی اجازت تھی۔ ویانا کا ایک ریستوران تھا Wiennerwald جس کا بروسٹ بہت لذیز اور خستہ تھا۔ صرف اس ریستوران میں اس کے دو ڈھائی سو اخبار نکل جاتے تھے۔اس نے ایک دن بتایا کہ فیسوں کیلئے رقم جمع ہونے میں بس تھوڑی سی کسر رہ گئی ہے۔

مجھے جو پہلا سپاٹ ملا وہ شہر کے مغرب میں واقع ریلوے سٹیشنwestbahnhoff کے قریب ایک بتی والے چوک کا Linzer Strasse والا سگنل تھا۔جب بتی سرخ ہوتی اور ٹریفک رک جاتی تو میںzeitung bitte ، zeitung bitte kronenکی صدا لگاتا ، اخبار لہراتا شروع سے آخری کار تک چکر لگاتااور پھر واپس اپنی جگہ پر لوٹ آتا۔ ایک چکر میں کبھی دو کبھی تین اخبار بک جاتے تھے اور کبھی ایک بھی نہیں۔ قیمت ڈھائی شلنگ تھی لیکن لوگ تین شلنگ دے جاتے۔کچھ لوگ ترس کھا کر پانچ بھی دے دیتے۔ان دنوں آسٹریا کا سکہ رائج الوقت شلنگ تھا۔ اب تو تمام یورپ میں یورو چلتا ہے۔میں نے دیگر سپاٹس پر بھی اخبار فروخت کئے۔ دریائے ڈینیوب سے نکالی گئی ایک نہر کے کنارے اخبار بیچا کر تا تھا۔ ایک بوڑھی خاتون اپنی بائیسکل پر وہاں سے گزرا کرتی تھیں اور ہاتھ ہلا کر مجھے وش کیاکرتی تھیں۔سردی بہت ہوتی تھی اسلئے میں اخبار زمین پر رکھ کر، بغلوں میں ہاتھ دئے سکڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔عجیب بے چارگی ہوتی تھی میرے چہرے پر اور میں تصویر یاس بنا ہوتا تھا۔ایک روز وہ نیک خاتون میرے پاس آ گئیں اور مجھے میرے سپاٹ سے متصل ریسٹوران میں لے گئیں۔ جہاں انہوں نے برانڈی ملی کافی کا آرڈر دیا۔ سخت سردی کے عالم میں یہ کافی کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔کافی ختم ہوئی تو مہربان بوڑھی خاتون نے ترس کھا کر مجھے سو شلنگ کا نوٹ دیا۔یقین جانئے میں نے اتنی سبکی محسوس کی کہ میرا دل مسوس کر رہ گیا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔خاتون نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر دلاسا دیا اور چلی گئیں۔ میں ریستوران سے باہر نکل کر اپنے سپاٹ پر کھڑا ہو گیا۔میرا دل بری طرح رو رہا تھااور میرے ذہن میں زبردست کشمکش چل رہی تھی۔اسی دن میں نے وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا۔

(جاری ہے)

 

محمد ذاکر خان ہنزائی کی یورپ بیتی – پہلی قسط

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button