ڈاکٹر عزیز علی نجم صاحب قراقرم یونیورسٹی کے سابق وی سی ہیں۔صاحب علم و دانش ہیں۔آج کے آئی یو میں ان کی ایک نئی کتاب کی تقریب رونمائی تھی۔یہ کتاب مولانا جلال الدین رومی کی آفاقی شاعری اور جلال و کمال سے بھری شخصیت کے مختلف پہلووں کی عکاسی کرتی ہے۔یہاں میرا مقصود اس تقریب کی تفصیل نہیں ،بلکہ ایک نکتے کی نشاندہی ہے ۔
اس تقریب میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب "بشنو”پہ طویل گفتگو کی۔اس دوران بڑے ہی اثر انگیز انداز مین فکر رومی کی تفہیم کرائی ساتھ ہی بڑے دکھ اور مایوسی سے نوجوان نسل کی علم و ادب سے بے نیازی اور عدم دلچسپی کا ذکر بھی کیا۔
یہ حقیقت ہے سکول سے لے کر یونیورسٹی تک ،علم و ادب کا ،کتاب سے شوق کا ماحول نہیں رہا ہے۔ایک افراتفری مچی ہے۔ہر کوئی نمبروں اور گریڈز کے سہارے دوسرے سے آگے بڑھنے کی ٹینشن میں ہے۔ایسے میں استاد بھی،طالب علم بھی ،خداوندان مکتب بھی کولہو کے بیل کی طرح نصابی کتب کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں۔اس سے باہر اگر کچھ ہے تو ہاتھ میں موبائل ہے۔میڈیا کا جادو ہے جو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ایسے میں ڈاکٹر صاحب کو اس نوجوان نسل سے توقع بھلا کیوں کر ہو سکتی ہے؟
اسی وقت میرا ہمزاد بسمل فکری ساتھ والی کرسی پہ آکر بیٹھ گیا۔ہمیشہ خلوت میں آتا تھا۔آج بھری محفل میں انٹری دی تھی۔
اس نے سرگوشی کی۔”گرو !یہ علم و دانش کی محفل ہے۔مولانا رومی اور اقبال کے ،فلسفہ عشق کی اس میں خوشبو رچی ہے۔اس لیے پورے ایمان سے دل کی صفائی کر کے آیا ہوں ۔”
میں نے کہا ۔”یہ ڈاکٹر نجم صاحب نوجوان نسل سے بڑے نالاں ہیں۔کیونکہ یہ پیر رومی اور مرید ہندی کی فکر اور عظمت سے ناآشنا ہیں۔”
اس نے چبھتے لہجے میں سرگوشی کی۔”ایسا تو ہونا ہی تھا۔یونیورسٹیوں میں مارکیٹ ویلیو کو سامنے رکھ کر اگر ڈگریاں بانٹی جائیں،علم و دانش اور سماجی علوم پہ نہایت کم ،معاشی ،فنی اور سائنسی علوم پہ ساری توجہ دی جائے تو نتیجہ یہی نکلنا تھا۔یہ ڈاکٹر صاحب اس کے آئی یو سمیت بڑے بڑے تعلیمی اداروں کے سربراہ رہے ہیں۔طلبا سے ان کی شکایت بجا،مگر قصور وار یہ بھی ہیں۔ عربی ،فارسی اور اردو ہماری تہذیبی،ثقافتی اور مذہبی رویوں کی امین زبانیں ہیں۔یہ ہمارے علم و دانش اور عظمت رفتہ کی آئینہ دار ہیں۔اس بیش بہا اثاثے کی قدر مگر کس نیکی ہے ؟اس کے آئی یو میں کیا یہ زبانیں زندہ ہیں؟محض لائبریری میں کتابوں کی قید میں رہنے سے فکر رومی اور اقبال سے آگہی ہو سکتی ہے؟
جب تک شعوری جذبے اور کوشش سے یہ مضامین باقاعدہ پڑھائیں نہ جائیں ،یہ طلبا اسی طرح فکری افلاس میں مبتلا ہی رہیں گے۔”
بسمل فکری نے یہ کہا اور اٹھ کے بے آواز قدموں سے چلتا باہر چلا گیا۔
جی میں آیا اٹھ کے ڈاکٹر نجم صاحب سے بسمل فکری کی یہ بات شیئر کروں ۔پھر سوچا کوئی بے وقوف سمجھ کر باہر نہ نکال دے۔اس لیے چپ کے بیٹھا رہا۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button