کالمز

کر بلا اور اصلاح معاشرہ

سکینہ بتول شگری

کربلا کے سانحہ کے دو صفحے ہیں ایک صفحہ نورانی اور ایک صفحہ تاریک،نہ کربلا کے نورانی صفحہ کی کہیں مثال ملتی ہے اور نہ تاریک صفحہ کی ۔کربلا کے تاریک صفحہ پر جب نگاہ ڈالتے ہیں تو کہیں بے گناہوں،جوانوں اور دودھ پیتے بچوں کا قتل نظر آتا ہے،کہیں گھوڑوں کی ٹاپوں میں لاشوں کی پامالی ،ایک پیاسے انسان پر پانی کا قد غن اور کوڑے کھاتی عورتیں اور تازیانوں کی ازیت کی تاب نہ لا کر تڑپتے بچے نظر آتے ہیں کہیں وہ بے کجا اونٹوں پر سوار قیدی تو کہیں جلتے خیمے اور مظلوموں کے سجے ہوے بازاروں میں نمایش کسی بھی غیرت مند دل کو مغترب کر دیتی ہے ۔اس تاریک صفحہ کے ہیرو یزید بن معاویہ،عبیداﷲبن زیاد ،عمر بن سعد ،شمر زی الجوشن ،خولی اور ایسے ہی صفات کے حامل کچھ اور لوگ ہیں یہ صفحہ انسانی جرم کا آئنہ دار ہے۔

کربلا کے نورانی صفحہ پر جب نگاہ ڈالتے ہیں تو و حال حقیقت اور انسانیت کا جلوہ اور حق پرستی کی چمک دمک دیکھنے کو ملتی ہیں۔یہ صفحہ بزرگی،بلندی اور عظمت کی آماجگاہ ، اور انسانیت کی سر بلندی اور فیاضی کی نمائش گاہ ہے۔یہ صفحہ حریت،آذادی،استقلال اور بذرگی کی ترجمانی کرتا ہے۔کربلا کے نورانی صفحہ جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کس طرح جانی دشمن اور اس کے لشکر کے حیوانوں کو بھی پانی پلایا جاتا ہے ۔یہ صفحہ ایمان ،یقین کا حامل ،معرفت،اسلامی اخلاق کی اہمیت کا پتہ دیتی ہے۔یہ صفحہ برستے تیروں میں نماز قاأ کرنے اور نوک نیزہ پر تلاوت قرآن کرینے والوں کی نقاب کشائ کرتا ہے۔

اس صفحہ پر حکم امامؑ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے جانبازوں کی داستانیں بہت ہیں۔بقول شہید مطہری ؒ جب ہم کربلا کے نورانی صفحے کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بشریت کو اپنے آپ پر ناز کرنے کا حق ہے۔لیکن جب ہم سیاہ صفحہ پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ انسانیت کا سر جھکا ہوا ہے۔

ہمیں ماننا چاہیے کہ ہم کربلاکے تاریک صفحہ کا ذیادہ اور نورانی صفحہ کا مطالعہ کم کرتے ہیں جبکہ کربلا کا نورانی صفحہ قابل غور و فکر ہے۔شہید مطہریؒ کے بقول اس داستان کا انقلابی اور حماسی پہلو اس جرائم کے پہلو سے سو گنّا بھاری ہے اور اس کی چمک دھمک اس کی تاریکی سے کہیں ذیادہ ہے اگر ہماری قوم کربلا کے تاریک مہلو کے ساتھ ساتھ نورانی پہلو کو بھی مطالعہ کریگی اور دونوں پہلو ہمارے سامنے رہیں گے تو کربلا کے ذریعہ آج بھی جملہ مشکلات کا حل ڈھونڈسکتے ہیں۔

مادیت میں غرق انسانیت آج کربلا کے نورانی پہلو کی جانب متوجہ ہو چکی ہے۔آج کا انسان زندگی سے تنگ آ چکا ہے وہ نا امیدوں کے سبب خودکشی کر رہے ہیں۔عصر حاضر کا جوان سرگرداں ہے۔اس کے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود امن نہیں ،چین نہیں ،اور ذہنی سکون نہیں ہے۔

آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم دنیا کے سامنے کربلا کو پیش کریں ،کربلا کا ایمان، کربلا کا عرفان،کربلا کے ان جوانوں کو پیش کریں جو ہر مادی آرامو آسائش کع کھونے کے بعد بھی اطمینان و سکون کے بلند مرتبہ پہ فائز تھے۔وہ جوان جن کو دشمن کی مادی نعمتوں اور اس کے عیش ع اارام کی تمام سہولتوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی حق پرستی پر نظر سانی کرنے کا بہانہ فراہم نہیں کیا آج کا جوان علی اکبرؑ ،حضرت ابو الفضلؑ ،حضرت قاسمؑ ،کو ڈھونڈ رہا ہے۔وہ زبان حال سے پکار رہا ہے کہاں ہیں وہ جو مجھے تاریکی سے نکالیں؟

کہاں ہیں وہ جو میرے لئے مشکل راہ ہیں؟

جوانوں کی اصلاح، انسانیت کی بقاء،معاشرے کی اصلاح کیلیے کربلا کی نورانی صفحہ کا مطالعہ ضروری ہے۔امام حسینؑ کی تحریک کسی عظیم فوجی کامیابی کے حصول کیلیے نہ تھی بلکہ آپ مسلمانوں کے اذہان کو فتح چاہتے تھے اور انہیں آذادی اور عدالت کیلیے جد و جہد اور صحیح اسلامی طرز عمل اپنانے پر آمادہ کرنا چاہتے تھے ۔لہٰذ�آپ نے مسلمانوں کو باور کرایا کہ وہ حضرت محمدﷺ کی امت ہیں اسلامی معاشرہ بگاڑ اور انحراف کا شکار ہو چکا ہے۔آپؑ اس صورتحال کی اصلاح کیلئے نکلے ہیں اور مسلمانوں پر بھی لازم ہے کہ وہ آپؑ کی پیروی کریں ۔لہٰذا آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مسٗلے کو اٹھایا ۔کیونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر عمومی اور اجتماعی نگرانی کا ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر مسلمان اسلام کے اندر پاسدار کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور ہر مسلمان شہری اپنے معاشرے میں اسلامی اقدار اور دینی طرز عمل کی نگہبانی کا ذمہ دار قرار پاتا ہے۔بس ہر مسلمان امت اسلامیہ کے دشمنوں کی طرف سے پیدا کردہ مسائل کے حل کا ذمہ دار ہے۔ اس ذمہ داری کو امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کا نام دیا گیا ہے جس کی خدا وند عالم نے لوگوں کو دعوت دی ہے کہ لوگ ایک ایسا مضبوط گروہ تیار کریں جو امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔

ولتکن منکمامتّہ یدعون الی الغیرو یامرون بالمعروف و یلحفون عن المنکرو اولٰئک ھم المغلعون (سورہ آل عمران ۴۰۱)

تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے بھلائی کا حکم دیاور برائی سے روکے کیونکہ معاشرے کی سلامتی معروف کی طرف دعوت اور منکر کے سد باب میں مغمر ہے اور منکرات کا رواج معاشرے کو فکری ،سیاسی،معاشرتی،اور اوتصادی لحاض سے ذوال کا شکار بنا دیتا ہے۔جس وقت امام حسینؑ نے اس مسئلے کو اٹھا یا تو یہ اس لئے تھا کہ آپؑ لوگوں کے اذہان کو اس جانب متوجہ کریں اور ان کی روحوں کو اسے محسوس کرنے کی طرف مائل کریں۔

آپ ؑ نے اپنے طریقہ کار میں سختی اور تند روی کا طرز عمل اختیار نہیں کیا بلکہ لوگوں کو اس طرح مخاطب کیا

ضمن قلبنی بقول الحق فا لﷲاولی بالحق

اگر کوئی میردعوت کو حق سمجھ کر قبول کرے اﷲہمیشہ سے حق کا مددگار ہے۔

گویا آپؑ لوگوں سے یہ کہنا چاہتے تھے کہ تم میری باتوں ،میرے منصوبوں ،اور میرے موقف کے بارے میں غور و فکر کرو۔خود میری ذات میں نہ ڈوبو بلکہ جس راہ عمل کا میں نے تمھارے لئے تعین کیا ہے اور وہ معروفی حالات جن کی خرابیوں کو میں نے تمھارے سامنے بیان کیا ہے ان کے بارے میں سوچ و بچار کرو اور جس کسی نے میری بات کو قبول نہ کیا گیا تو اس راستے پر قدم رکھا ہے جسے ایک دن تمام لوگ بغیر پسپائی اختیار کئے اور بغیر کسی مشکل کے اختیار کریں گے البتہ میں ہر حال میں مسلسل کلمہ حق کی پیروی کرونگا۔

اسطرح امام حسینؑ نے معاشرے کی اصلاح کے شعور کو جگایا اور واضع کیا کہ معاشرے میں امر با لمعروف و نہی عن المنکر ضروری ہے

وہ کونسا وقت تھااجب امام ؑ نے جنگ کا فیصلہ کیا؟

امامؑ نے اس وقت جنگ کا فیصلہ کیا جب آپؑ سے مطالبہ کیا گیا کہ آپؑ اسکی اور یزید کی حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں۔یہ وہ مقام تھا جہاں امام نے محسوس کیا کہ معاملہ ایک حساس اور خطرناک موڑ پر جا پہنچا ہے ۔یہاں ایک ایسے شخص کی حکومت کو شرعی تسلیم کرنے کا مطالبہ ہے جس کی حکومت کے لئے نہ صرف کسی بھی قسم کا شرعی جعاز موجود نہیں بلکہ اسے تسلیم کرنا خلاف شرعی ہے لہٰذا آپؑ نے اپنا مشہور قول زبان پر لائے اور فرمایا :سنیں خدا کی قسم!میں اپنا ہاتھ ذلیل و خوار انسان کی طرح تمھارے ہاتھوں میں نہیں دونگا اور غلاموں کی طرح ذلت و خواری تسلیم نہیں کرونگا۔(ارشاد ۵۳۲)

سرداد نہ داد در دست در دست یزید حقا کہ بنالاالہ است حسینؑ

نیز فرمایا :آگاہ رہو کہ کمین ابن کمین نے مجھے دو راستوں کے درمیان لا کر کھڑا کیا ہے یا تو تلوار اٹھا لوں یا ذلت قبول کر لوں اور بعید ہے کہ میں ذلت قبول کر لوں کیونکہ خدا اور اس کا رسول ﷺ اور مومنین ہمیں ذلت قبول کرنے نہیں دیتے اور پاک آغوشوں اور غیرتمند ناکوں اور اپنے اجداد کے محترم نفوس کو روا نہیں کہ ہم لئیم اور پست افراد کی اطاعت کو شریف اور نیک افراد کی قتل گاہ پر مقدم رکھیں۔(بحار الانوار ۳۸/۵۴)

یہ وہ مقام ہے جہاں امام حسینؑ نے جنگ کا فیصلہ لیا اور اسکی تیاری شروع کر دی

ہم بھی کربلا کے راستے میں امام حسینؑ کی شخصیت اور آپ ؑ کے شعار کا مطالعہ کریں ان کا جائزہ لیں۔ان پر غور و فکر کریں ۔ہمیں اپنے معاشرون میں ایسے ظالم حکمرانوں کا سامنا ہے جن کی خصوصیات امام حسینؑ نے ہمارے لئے بیان کر دی تھی ہمیں چاہیے کہ امت اسلامیہ کے طور پر عاشورا کو ایک عملی روشن اور نتیجہ خیز منصوبے کے طور پر رو بہ عمل لائیں کیونکہ ظالم حکمران اور بادشاہ اسلامی معاشرے کو تباہ و برباد کر رہے ہیں یہ چیز ہمیں اسلامی معاشروں پر مسلط اکثر حکمرانوں میں نظر آرہی ہے۔یہ لوگ طاقت کے مراکز پر باقی رہنے کے لئے عالمی کفر و استکبار کی اطاعت کرتے ہیں۔

یہ لوگ ایسے قید خانے کے نگران بن بیٹھے ہیں جس میں انہوں نے اپنے عوام کو محبوس کر دیا ہے اس چیز کو ہم بہت سے حکمرانوں اور سیاستدانوں میں دیکھ سکتے ہیں جنہیں روپیہ پیسے،طاقت و قدرت نے گمراہ کر دیا ہے۔اسی وجہ سے یہ لوگ عدل و انصاف کے قیام کی بات کرنے والوں کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔کیسے لبنان اور فلسطین کے مسلمان مزاحمتی قوتوں کے خلاف کام کرتے ہیں کیسے اسرائیل کے ساتھ مل کر سازشیں تیار کرتے ہیں تاکہ صہیونی افواج بچوں،عورتوں ،بوڑھوں غیر فوجی حضرات کے خلاف جرائم اور مظالم کی مرتکب ہوں۔بس ہم رسول اکرم ﷺ کے اس فرمان کو بنیاد بنا کر عمل کریں جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی ایسے ظالم بادشاہ کو دیکھے جس نے حرام خدا کو حلال کیا ہوں جو خدا سے کئے ہوے وعدے کو توڑ رہا ہو۔سنّت رسول ﷺ کے بر خلاف عمل کرتا ہو لوگوں کے ساتھ گناہ اور دشمنی کا طرز عمل اختیار کیے ہوے ہو۔اور اس کے باوجود (وہ شخص)اپنے گفتار و کردار کے زریعے اس حکمران کی مخالفت نہ کرے تو خداوند متعال اسے اسی ٹھکانے میں جگہ دے گا جس ٹھکانے میں وہ ظالم حکمران ڈالا جائے گا۔(تاریخ طبری ۶۰۳/ ۳)

دوستو ! کربلا ایک عظیم سرمایہ ہے ۔کربلا ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جسے ہم دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں تاکہ قاتلان حسین ؑ کی وحشت و بربریت کے مقابل سرخ رو اور کامیاب ہونے والی انسانی معنوی شجاعت کو ثابت کر سکیں ۔اسی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ ہمیں قلبی جزبات اور احساسات اور پیغام کو ساتھ ساتھ رکھنا چاہیے۔اگر پیغام جزبات و احساسات کے ہمراہ نہ ہوں تو دوسرے اور بہت سے تاریخی حوادس کی طرح تاریخ کے اندھیرون میں اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔

لیکن ہمیں چاہیے کہ قلبی جزبات و احساسات کو بھی عاقلانہ بنائیں ان کی نشو و نما کریں اور ان کی اصلاح کریں،تاکہ ان کے قدم بہ قدم پیغام آگے بڑہے اور وہ پیغام کے خدمد گزار بنیں۔

انسان کی عقلدانی اور جزبات اقدار اس وقت قدر و قیمت کی مالک ہیں جب وہ اس بات کا سبب بنیں کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں المیے اور سانحے وقوع پزیر ہوں وہ ان کے ساتھ ہمدردی اور ان کی ہم نوائی کا ثبوت دے کیونکہ خود ہمارے زمانے میں بہت سے لوگ کربلا جیسے مصائب اور المیوں کا شکار ہیں جیسے ہم غزہ میں دیکھ رہے ہیں کہ وہاں کی عوام امریکہ،یورپی یونین اور بعض عرب ممالک کی پشت پناہی کے ذریعے صہیو نیوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مضالم اور المیوں سے دوچار ہیں۔

ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے اقوام متحدہ کو لکھے گئے مکتوب میں کہا گیا ہے کہ برما میں دہشتگردوں نے ۵ روز میں ۰۰۱ کلو میٹر پر مشتمل مسلم آبادی صفحہ ہستی سے مٹا دی اور ۵ روز میں ۰۰۱۲ دیہات مسلمانوں سمیت جلا دئے گئے۔۰۱ ہزار افراد بھاگتے ہوے مارے گئے،۰۰۵۱ سے زائد خواتین عصمت دری کے بعد فوج میں تقسیم کر دی گئی۔زندہ انسانوں کے اعضا کاٹ کر چیل کوے چھوڑے جا رہے ہیں۔ایک لاکھ تیس ہزار افراد شدید زخمی ،ایک لاکھ جنگلوں میں محصور ہیں۔بنگلہ دیشی حکومت کی سنگدلی کے باعث کشتیوں میں سوار ۰۲ ہزار افراد سمندر میں بھٹکنے پر مجبور ہیں۔لگتا ہے دنیا میں انسانیت نام کی چیز نہیں۔اگر ہم کربلا میں وقوع پزیر ہونے والے سانحے کی مذمت کرتے ہیں۔تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی دنیا میں اس قسم کے سانحے وجود میں لانے والے تمام مسلم یا غیر مسلم کی خدمت کی کیونکہ سانحے کا تعلق انسان سے ہوتا ہے اور انسان اس کے مقابل لاتعلق نہیں رہ سکتا۔اگر ہم عزادارے میں در آنے والے اس قسم کے رسم و رواج پر تنقید کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں کہ ہم قلبی جزبات و احساسات کے منکر ہیں ۔بلکہ مناسب بات یہ ہے کہ ہمارے جزبات و احساسات جزبانہ انداز میں گریے کی صورت میں ظاہر ہوں۔نہ کہ ایسی بے ہنگم اور نمائشی سینہ زنی کی صورت میں ،جو حزن و اندوہ کی علامت بنیں۔

ہم قلبی جزبات و احساسات کو عقلدانی Rationalizeکرنے اور ان کی نشو نما کے حق میں ہیں۔ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ عاشورا کے مسئلے کو زندہ کریں ۔جاہل و ناداں افراد کو منبر سے دور رکھیں کیونکہ ایسے افراد لوگوں کو رلانے کی خاطر بے بنیاد باتیں بیان کرتے ہیں۔

دوستو!

اسلام نے جس عاشورا اور عزا کی تاکید کی ہے وہ نظرئے اور پیغام کا حامل عاشورا اور عزا ہے۔عاشورائے محبا ہے۔وہ عاشورا ہے جو کلمہ حق کی سربلندی اور کلمہ شیطان کی سر نگونی کے لئے وضع کیا گیا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button