کالمز

کیا سیاست محض بے بنیادالزام تراشی کانام ہے ؟

مئی 2014ء کو سب ڈویژن مستوج کے سات پولنگ اسٹشنوں میں ضمنی انتخابات ہوئے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سید سردارحسین نے آل پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار حاجی غلام محمد کو تقریبا دو سو ووٹوں سے شکست دے کر صوبائی اسمبلی کی نشست اپنے نام کر لی ۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد غالبا دسمبر 2014ء کو بونی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کا ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا جس میں سابق ایم پی اے حاجی غلام محمد نے نہ باضابطہ طورپر جے یو آئی ف میں شمولیت اختیار کر لی ۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں حاجی غلام محمد نے ایم پی اے لوئر چترال جناب سلیم خان صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان پر مالی بے ضابطگیوں اور بڑے پیمانے پر کرپشن کے الزامات عائد کئے ۔ اور یہ بھی اعلان کیا کہ وہ بہت جلد عوام کے سامنے سلیم خان کی کرپشن کی داستانین بمع ثبوت پیش کریں گے ۔کہ کس طرح موصوف نے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے مال بنوائے ۔ اس کے بعد سلیم خان نے جوابی حملہ کرکے حاجی غلام محمد کو کرپشن کا بابا قرار دے کر ان کے خلاف ہرجانہ دائر کرنے کا بھی اعلان کیا۔ یوں بیانات اور جوابی بیانات کا یہ سلسلہ میڈیا کی سطح پر کئی دنوں اور ہفتوں تک جاری رہا جس کے اثرات عموما سوشل میڈیا پر بھی نظر آتے رہے ۔اب جبکہ حاجی غلام محمد صاحب نے پشاور میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ملاقات کرکے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے ۔ اس موقع پرسلیم خان اور سردارحسین بھی موجود تھیں۔ اس حوالے سے خاکسار نے گزشتہ دنوں نئے جیالے (غلام محمد)سے ان کی جانب سے سلیم خان پر لگائے گئے کرپشن کے بے انتہا الزامات اور ان کی جانب سے جوابی الزامات کی حقیقت دریافت کی تو حاجی صاحب کا جواب تھا کہ ہم دونوں کے ایک دوسرے پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات محض سیاسی بیانات تھے ۔ جو اس وقت ،موقع اور محل کی مناسبت سے بالکل درست تھیں۔ اب ہم دونوں ایک ہی جماعت کا حصہ ہے لہذا ہمارے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں۔

یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دونوں صاحبان کے پاس ایکدوسرے کے کرپشن کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی ثبوت نہیں تھا تو پھر محض اپنی سیاست کے لئے اس قسم کے بے ہودہ اور گھٹیا الزامات کی کیا ضرورت تھی ؟ کیا مخالفین پر کیچڑ اچھالے بنا سیاست نہیں ہوسکتی ۔سیاست تو مفادات کا کھیل ہی ہے لیکن ہمارے ہاں سیاست چند مفاد پرست ٹولے کی معاشی سرگرمیوں کا ذریعہ بن گئی ہے ۔سیاست جو کبھی نظریات کے گرد گھومتی تھی اب بے ہودہ الزام تراشیوں کا شکار ہو کر بدبو دار ہوچکی ہے ۔

سن 2013ء کے عام انتخابات کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار صوبائی اسمبلی سید سردار حسین اپنی پوری کمپین میں عوام کو یہ بتاتے رہے کہ اگر عوام کو دنیاوی ترقی کی ضرورت ہے تو انہیں (سردارحسین کو) ووٹ دیا جائے اگر اُخروی نجات چاہئے تو علمائے کرام کو ووٹ دے دیں ، حاجی غلام محمد کو ووٹ دینے سے آپ کی دنیا بھی تباہ ہوجائے گی اور آخرت بھی برباد ۔بونی مستوج روڈ، بونی بذوند روڈ سمیت متعدد منصوبوں پر بڑے پیمانے میں ہونے والے گھپلوں کا الزام حاجی غلام محمد اور ان کے قریبی رفقاء پر ڈالتے رہے ۔ لیکن آج وہی سردارحسین حاجی غلام محمد کو پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بلکہ ذرائع یہ دعوی کررہے ہیں کہ شاہ صاحب خود قومی اسمبلی اور حاجی غلام محمد کو پی پی پی کی ٹکٹ سے صوبائی اسمبلی کے لئے میدان میں اتار نے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔ سن 2018ء کے الیکشن میں پانچ برس قبل ایکدوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے والے ایک ہی صف میں کھڑے سادہ لوح عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کریں گے ۔

ہمارے موقع پرست سیاسی مافیاز شاید یہ بھول گئے ہیں کہ اب 2002ء یا 2008ء کا زمانہ نہیں جبکہ آپ عوام کو جھانسہ دے کر اقتدار پرپہنچ رہے تھے ۔ عوام کو بھی چاہئے کہ وہ ان سارے آزمائے ہوئے شعبدہ بازوں کو ردی کی ٹھوکری میں پھینک کر ان کی اصلیت ان کو بتا دیں ۔ کیونکہ قوم کی پسماندگی ، غربت وافلاس اور نئی نسل کی بے روزگاری میں انہی شعبدہ بازوں کا کلیدی کردار ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button