کالمز

گلگت بلتستان کے سیاسی اندھے

ڈاکٹر اعزاز احسن

سیاسی حسد کا شاید کوئی علاج ممکن نہیں ،گلگت بلتستان میں سیاسی حسد اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ کوئی یہ کہے کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان کا نام حفیظ الرحمان ہے تو مخالفین یہ ماننے کو بھی تیار نہیں اسے کہتے ہیں سیاسی حسد ۔بغض حفیظ اور حسد حفیظ میں سیاسی مخالفین کی شاید سیاسی بینائی بھی سلب ہو چکی ہے کہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ گلگت بلتستان میں امن حکومت کی سنجیدہ کوششوں سے قائم ہوا ہے ،

سوشل میڈیا میں شتونگڑے کہتے ہیں کہ امن اقتصادی راہداری منصوبے کی وجہ سے آیا ہے میں نے سوشل میڈیا میں ان شتونگڑوں سے پوچھا کہ مان لیا کہ گلگت بلتستان میں امن اقتصادی راہداری سے قائم ہوا ہے تو میرا سوال ہے کہ اقتصادی راہداری کس کا منصوبہ ہے تو ایک شتونگڑے نے لکھا کہ یہ تو پیپلز پارٹی کا منصوبہ ہے ،میں نے جواب میں ن اپنی لاعلمی پر معذرت کی کیونکہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ 1857کی جنگ آزادی بھی پیپلز پارٹی نے شروع کی تھی ،پانی پت کے میدان میں بہادری کے جوہر بھی پیپلز پارٹی نے دکھائے تھے،تحریک آزادی پاکستان کی جنگ بھی پیپلز پارٹی نے شروع کی تھی تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری بھی پیپلز پارٹی نے شروع کی ہو۔

سیاسی اندھے پن کا یہ عالم ہے کہ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما میرے ساتھ ٹی وی ٹاک شو میں شریک تھے اینکر نے سوال کیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے آپ کا کیا موقف ہے تو اس رہنما کا جواب تھا کہ شاہراہ قراقرم ہو یا سی پیک کا منصوبہ ہو یہ پیپلز پارٹی کا کارنامہ ہے پیپلز پارٹی کے اس رہنما کے جواب میں اینکر تو سر پکڑ کر ان کی طرف تکتے رہ گئے میں نے درمیان میں کہا کہ یہ صاحب درست کہتے ہیں شاہراہ ریشم قدیم ترین شاہراہ چین کے بادشاہ ہوشان نے نہیں بلکہ پیپلز پارٹی نے تعمیر کی تھی۔

اس واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی اندھوں کے اندھے پن کا قارئین کو اندازہ ہو ،خواجہ آصف نے شاید ایسے لوگوں کے لئے ہی کہا تھا کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ۔اس حد تک سیاسی مخالفت جائے تو اسے سیاست نہیں اندھا پن اور حسد کہا جاتا ہے ۔ان لوگوں کی شاید یاداشت کمزور ہے یا جان کر عوام کو گمراھ کر رہے ہیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ،ہمیں یاد ہے زرا زرا ،،،

گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کے دور میں ریڑھیوں میں جہاں نوکریوں کی فروخت کے سٹال لگے تھے وہاں نفرتوں کا یہ عالم تھا کہ گلگت شہر میں نو گو ایریاز بن چکے تھے دن کے اجالے میں بھی مخالف فریق کا ان علاقوں میں جانا ممکن نہیں تھا ،آئے روز مسلک کے نام پر قتل غارت گری کے واقعات رونما ہو رہے تھے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو نوکریوں کی فروخت سے فرصت نہیں تھی ،کرپشن کے تمام حربے اور گر آزامائے جا رہے تھے ،اس سب کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت کی آنکھوں میں پٹی بندھی ہوئی تھی اور آخری وقت تک اسے یہ یقین تھا کہ پیپلز پارٹی ہی گلگت بلتستان کی بڑی جماعت ہے پھر عوام کی عدالت کا فیصلہ سنایا گیا توہوش ٹھکانے آگیا کہ نوکریوں کی فروخت کو گڈ گورنیس کہنے والی پیپلز پارٹی دوربین میں بھی نظر نہیں آرہی تھی لیکن کہتے ہیں کہ سیاسی حسد کا مرض لاعلاج ہوتا ہے۔

ایک عرصے تک مردہ پیپلز پارٹی کو سیاسی ہسپتال سے نکال کر مصنوعی سیاسی آکسیجن فراہم کی گئی تو پھر سے وہی ماحول پیدا ہونے لگا۔جب دیکھا کہ مسلم لیگ کی حکومت نے تو امن بھی قائم کیا ،میرٹ بھی بحال کیا ،ترقیاتی منصوبوں کا جال بھی بچھایا ،عوام کا اعتماد بھی بحال کیا ،نو گو ایریاز کا خاتمہ ہو گیا،گلگت بلتستان کے عوام مسلکی تعصبات سے نکل کر شیر و شکر ہو گئے تو پیپلز پارٹی کو فکر لاحق ہو گئی کہ اب ہمارا سیاسی مستقبل کیا ہوگا ایسے میں پیپلز پارٹی نے سیاسی دوکان میں جھانک کر دیکھا تو دوکان تو خالی تھی کوئی سیاسی سودا بچا نہ تھا جسے بازار سیاست میں لا کر عوام کی توجہ حاصل کی جائے۔

ایسے میں کسی سیاسی ناکام گرو نے مشورہ دیا کہ ایک سودا ہے جسے پزیرائی ملے گی وہ حق حاکمیت ،،،،،اس نعرے کی حقیقت بھی ،روٹی کپڑا اور مکان سے زیادہ کچھ نہیں ،روٹی کپڑا مکان کی جگہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ،گولی ،کفن قبرستان نے لے لی تھی ،پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے زعما کو شاید کوئی غلظ فہمی ہوئی ہے کہ وہ 1972 کے عشرے کی سیاست کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ 2017ہے میڈیا کا دور ہے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی ،کوئی سیاسی چالاکی عوام کی پہنچ سے رک نہیں سکتی ،گلگت بلتستان کے عوام بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ حافظ حفیظ الرحمن کے گھرانے نے گلگت بلتستان کے امن کے لئے کیا کیا قربانیاں دی ہیں اور آج انہی قربانیوں کا ثمر ہے کہ نفرتوں کے ماحول کو محبتوں کا چمن بنا دیا گیا ،حکومت کی ہی کوششوں سے گلگت بلتستان میں تاریخ میں پہلی مرتبہ محرم الحرام کے عشرے میں مثالی بین المسالک ہم آہنگی کا مظاہرہ ہوا۔

حکومت نے بہترین پالیسی سے عوام کو یہ باور کرایا کہ ،یہ وطن تمہارا ہے ،،،تم ہو پاسباں اس کے ،علما ء کرام سمیت تمام طبقات نے مثالی امن اور بین المسالک ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا تو اس کا کریڈٹ گھر کے سربراہ کو ہی جاتا ہے گھر کا سربراہ نہ چاہے تو گھر میں امن ممکن نہیں ،گھر کے سربراہ نے تو گلگت بلتستان کے امن کے لئے اپنے بڑے بھائی سیف الرحمن شہید کی قربانی دی ہے انہی قربانیوں کا ثمر ہے کہ گلگت بلتستان پر امن خطہ بن کر عالمی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

سیاسی اندھوں سے میرا سوال ہے کہ اگر آپ اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ سی پیک کی وجہ سے امن قائم ہوا ہے تو زرا یہ بھی بتائیں کہ سی پیک بھی تو مسلم لیگ ن کا ہی منصوبہ ہے نا اور اسی مسلم لیگ ن کے رہنما حافظ حفیظ الرحمن گلگت بلتستان کے وزیر اعلی ہیں تو آپ خود ہی اعتراف کر رہے ہیں کہ سی پیک کہ وجہ سے امن قائم ہوا ہے تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ سیاسی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقت بیان کریں کہ گلگت بلتستان میں امن مسلم لیگ ن کی حکومت کا کارنامہ ہے لیکن مجھے ادراک ہے ایسا نہیں کہیں گے کیونکہ انہیں یہ خوش فہمی ہے کہ 1857کی جنگ آزادی بھی پیپلز پارٹی نے لڑی ہے ،،،خدا را اپنے سیاسی اندھے پن کا علاج کراؤ نہیں تو یہ مرض لاعلاج ہو جائے گا۔c

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button