کالمز

کیا ہم واقعی تبدیلی کے خواہاں ہیں؟

قدسیہ کلثوم

کریکلم(Curriculum)کسی بھی تعلیمی نظام میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ عام طور پر کریکلم کا لفظ سہواََ نصاب (Syllabus)یا درسی کتب کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ سلیبس عنوانات کی فہرست ہوتا ہے جبکہ کریکلم میں معلومات(Knowledge)مہارتوں(Skills)اور رویوں یا اقدار(Attitude & Values)او رمضمون کو پڑھانے کا مخصوص انداز(Pedagogy)دیا ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر آپ کا تعلیمی مقصد یہ ہے کہ بچے پودوں کی افزائش کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیں۔ اس سلسلے میں آپ بچوں کو انسانی زندگی میں پودوں کی اہمیت کے بارے میں معلومات دیں گے۔ معلومات دینے کے بعد آپ ان کو سیکھنے سے متعلقہ ہنر مثلاً مشاہدہ کرنے (Observation)، کسی بھی عمل کو درجہ بدرجہ سمجھنے (Assimilation)، مفروضہ قائم کرنے (Hypothesising)، پیش گوئی کرنے(Predict) اورپھر تجربہ گاہ میں تجربہ کرنا(Experimentation) سکھائیں گے۔ پودوں کی نشوونما کی نگرانی کے لئے یہ تمام ہنر یا مہارتیں بہت ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ ہاتھ سے کام کرنے کی مہارتیں، مثلاً زمین کھودنے قلم بنانے، پیوند کرنے او رپانی دینا وغیرہ سکھائیں گے۔

آپ نے معلومات دے دیں، سائنسی عمل کے لئے ضروری مہارتیں اور ہاتھ سے کام کرنے کے ہنر سکھادیے۔ کیا آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اب پودے خوب پھولیں پھلیں گے؟ ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ آپ بچوں میں پودوں سے پیار اور ان کی حفاظت سے متعلق رویے پیدا نہیں کرتے۔ زندگی کا کوئی کام معلومات یعنی علم (Knowledge)، مہارتوں(Skills)، اور رویوں/اقدار(Attitudes / Values)کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ایک اور مثال لیں۔ بچے پالنے کے لئے علم چاہئے، مہارتیں بھی چاہئیں، اگر یہ دونوں ہوں تو کیا بچے پل جائیں گے۔ ہرگز نہیں، رویوں میں اگر ممتا نہیں ہوگی تو بچے کسی طور نہیں پلیں گے۔

ہمارے ہاں خاص طور پر گورنمنٹ کے سکولوں میں سیکھنے سکھانے کا معاملہ صرف معلومات دینے، ان کورٹ لینے اور امتحان میں انہیں اگلوانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ مہارتوں اور رویوں پر کسی طور توجہ نہیں دی جاتی۔ پرائیویٹ سکولوں میں سے کچھ ایک میں علم کے ساتھ ساتھ مہارتیں بھی کسی حد تک سکھائی جاتی ہیں مگر رویوں کی مثبت بالیدگی کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

حقیقی آموزش(learning)اقدار کے بغیر ممکن نہیں۔ اقدار کی وساطت سے کوئی بھی فرد اپنی ذات کی حدود سے نکل کر اپنے آپ کو دیگر انسانوں کے ساتھ وابستہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرسکتا ہے۔ ایسا کرنا اس لئے لازم ہے کیونکہ کسی بھی فرد کی تعمیر ذات(Individuation) دیگر انسانوں کے بغیر ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر صرف اظہار ذات کا معاملہ ہی لے لیں۔ اس کے لئے زبان ضروری ہے۔ زبان بنیادی طور اجتماعی معاشرتی ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے بلکہ اجتماعی شعور کی دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔ زبان کی وساطت سے کوئی بھی فرد اپنے اردگرد بسے اجتماعی شعور کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ دراصل اپنے آپ کو اجتماعی شعور کے دریا کا حصہ بنالیتا ہے۔

اقدار اپنی ساخت کے اعتبار سے ترغیب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ ترغیب مخصوص مقاصد کی طرف اشارہ کرتی ہے جن کو حاصل کرنا اس قدر کے تحت لازم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خود مختار رہتے ہوئے آزادانہ اپنی زندگی کے بارے میں فیصلے کرنا(Self-Direction)ایک قدر ہے۔ اگر ایسی قدر کو ماننے والے فرد کو اپنے فیصلے کرنے کی آزادی سے محروم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو وہ بے قراری اور حبس محسوس کرے گا۔ وہ اس رکاوٹ کو توڑنے کی کوشش کرے گا کیونکہ اس قدر کی غایت یہ ہے کہ فرد خود مختار ہو۔ اس کے برعکس اگر کسی فرد کو روایت پرستی(Tradition)سے لگاؤ ہے تو اس کے لئے خود مختاری کی دستیابی بے معنی ہوگی بلکہ وہ ایسی صورت میں گھبرا جائے گا اور توقع کرے گا کہ روایت سے اس کو رہنمائی مل جائے۔ روایت پسند بنے بنائے حل اور ترکیب (Preseription) کی دستیابی پر خوش رہتا ہے۔ اس میں خود سے مسائل کو حل کرنے اور زندگی میں نت نئی راہوں پر چلنے کی سکت نہیں ہوتی۔ نئی صورتحال میں وہ گھبرا جاتا ہے۔

اس کے برعکس خود مختار فرد نئی صورتحال میں پریشان نہیں ہوتا۔ اس کی تربیت میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ وہ نئی صورتحال میں ایک نیاولولہ محسوس کرے۔ نئی پیچیدگی او رمشکل دراصل اس کی ذہنی صلاحیتوں کو مہمیز دینے کاکام کرتی ہے۔ وہ ضروری نہیں کہ ہر مسئلے کا درست حل ہی تلاش کرے۔ وہ غلط فیصلے بھی کرسکتا ہے مگر اس کے لئے اہم بات یہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی سے متعلق فیصلہ خود کیا۔ ایسے فرد کے لئے کوئی شاندار کارنامہ، انجام دینا اہمیت نہیں رکھتا، اس کے لئے اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ زندگی کے عمل میں خود مختار رہے۔ دوسری جانب روایت پسند کی تربیت میں اپنی ذات پر انحصار اور فیصلوں کی آزادی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ کوئی اس کو اپنی سرپرستی میں لے لے۔ خود مختار فرد کے لئے ذاتی طور پر خوش رہنا(Hedonism)بہت ضروری ہے۔ وہ کوئی کام محض اس لئے کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا کہ لوگ اس سے خوش ہوں گے۔ خود مختاری کی قدر کا تعلق خوش رہنے کی قدر سے بن سکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ دونوں اقدار تبدیلی کی خواہاں ہوں گی۔ اس کے برعکس روایت پسندی کی قدر اس بات کی خواہاں ہوگی کہ لوگوں اور معاشرے میں استحکام رہے۔ اداروں کے درمیان استحکام اور توازن رہے۔ اداروں اور انسانوں کے درمیان مستحکم رشتے برقرار رہیں اور خودانسانوں کے درمیان بھی روایت کا پیدا کردہ رشتہ برقرار رہے۔

اقدار، مخصوص صورتحال میں مخصوص سرگرمی کا نام نہیں۔ یہ وسیع ترمعنوں میں مجرد اہداف (Abstract Goals) ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اقدار، کسی بھی روایت یا ریت، رواج سے مختلف ہوتی ہیں۔ واضح رہے کہ کوئی بھی روایت یا رواج کسی مخصوص صورتحال میں مخصوص کام یا سرگرمی کاتقاضا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر خود مختاری کی قدر کو ہی لیں۔ یہ کسی قوم یا فرد کا نظرےۂ حیات ہوسکتی ہے۔ اس کے تحت کئی روایات جنم لے سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک سکول میں خودمختاری کی قدر کو سب کے لئے یکساں طو رپر قابل احترام مان لیا جائے تو وہاں فیصلہ سازی کے لئے مکالمے کی روایت کو فروغ دینا پڑے گا۔ یہی نہیں مکالمے کے لئے لازمی وصف دوسروں کا احترام اور برداشت کو بھی عمومی طریقے کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔

اس کے برعکس روایت پسندی کی قدر میں خود مختارانہ فیصلوں کی اجازت نہیں، اس لئے وہاں روایت میں مسلمہ اسالیب اور اصول طے کرنے والی ہستیوں کو احترام دیا جائے گا۔ ان ہستیوں کے طے کردہ اصولوں پر سوال اٹھانا، مکالمہ کرنا یا تنقید بدتمیزی سمجھی جائے گی۔ چونکہ ایسے معاشروں میں زندگی کے اسلوب مکالمے، برداشت او رباہمی احترام کے عمل سے طے نہیں ہوتے، اس لئے ایسے معاشرے کے لوگوں میں برداشت کی تربیت ممکن نہیں ہوپاتی۔ لوگ اصولوں کی تشریح وتفسیر میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔۔۔ وہ خود نئے اصول تلاش کرنے کی تربیت سے عاری ہوتے ہیں۔

اقدار کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ انہیں بنیادی پیمانہ مانتے ہوئے لوگوں کے کردار، ان کے رویوں، زندگی کے واقعات، حکمت عملیوں اور ترجیحات پر محاکمہ دیا جاتا ہے۔ ان کے اچھے یا بُرا ہونے کی مہرلگائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جن معاشروں میں خود مختاری کو بنیادی سماجی قدر کا درجہ حاصل ہے، وہاں اگر کوئی لڑکی ماں باپ کی مرضی کے تابع بندوبستی شادی کرتی ہے تو سب لوگ اسے اچنبے سے دیکھیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اسے اس لڑکی کا خود مختارانہ فیصلہ سمجھ کر نظر انداز بھی کردیں مگر یہ بات طے ہے کہ ایسے معاشروں میں پسند کی شادی کو ترجیح دی جائے گی۔ دوسری جانب روایت پسند معاشروں میں پسند کی شادی کرنے والوں کو ممکن ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ہی کردیا جائے۔ خوفناک بات یہ کہ اس قتل کو دبے دبے انداز میں پذیرائی بھی دے دی جائے گی۔ خود مختاری کے خواہاں معاشروں میں سوال کرنے کو اصلِ آدمیت گُن سمجھا جائے گا جبکہ روایت پسند معاشروں میں سوال کرنے کو بدتمیزی قرار دیتے ہوئے اسے سزا کا مستوجب سمجھا جائے گا۔

ہر فرد اقدار کے ایک مجموعہ کو اپنی زندگی کا ہدف مانتا ہے۔ اس مجموعۂ اقدار میں کئی ایک اقدار اپنی ترجیح کے اعتبار سے ایک زنجیر کی صورت موجود ہوتی ہیں۔ ان اقدار کے درمیان اطلاقی تال میل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص اپنی صلاحیتوں کے بل پر ذاتی کامیابیاں حاصل کرنے کی قدر کا پیروکار ہے تو لامحالہ وہ سماجی حیثیت او رلوگوں پر اپنی ساکھ بٹھانے کا بھی شوقین ہوگا۔ ایسا شخص ذاتی طور پر خوش رہنے کو بھی اپنے لئے ایک اہم قدر کے طور پر مانتا ہوگا۔ یہ تینوں اقدار ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں بلکہ ایک دوسرے کو تقویت بھی دیتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ تینوں اقدار اس فرد کی شخصیت کے نمایاں ستونوں کی بھی نشاندہی کررہی ہیں۔

ایسا فرد اپنی ذات سے بالا تر ہوکر(Self- Transcendence) اپنے اردگرد بسے لوگوں کی بہبود اور ان کے تحفظ کے لئے سماجی انصاف اور مساوات جیسے امور یا ایسی سرگرمیوں کو بڑھاوادینے والی اقدار میں کم دلچسپی لے گا۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کا مقصد کسی کی مدد کرنا یا سماجی انصاف کی کوشش نہیں بلکہ صرف اپنی ذات کو بڑھاوا دینا ہوگا۔ جیسا کہ منافع خور تاجر او ربدعنوان حکمران مکمل طور پر اپنی ذات کے خبط میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ لوگوں کی بہبود اور آفاقی مساوات کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ لنگر دیتے ہیں، قوالی اور نعتوں کی محفلیں جما کر انسانوں سے پیار کا پرچار کرتے ہیں۔ چونکہ ان سرگرمیوں کا حقیقی طور پر ان سے وابستہ اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس لئے یہ محض رسمیت سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ سب لوگ اسے رسم سے زیادہ کچھ نہیں مانتے کیونکہ ایسا کرنا تاجروں اور سیاستدانوں کی حقیقی اقدار سے میل نہیں کھاتا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button