کالمز

چیف سیکریٹری کا دورہ غذر ……..چند گزارشات

تحریر ؛ کریم رانجھا ؔ

گزشتہ دنوں چیف سیکریٹری ڈاکٹر کاظم نیاز نے ضلع غذر کا دورہ کیا لیکن اشکومن کے نکڑ سے واپس چلے گئے،برگل کے مقام پر ایفاد کی جانب سے جاری واٹر چینل پراجیکٹ کا معائنہ کیا لیکن عوام اشکومن صرف راہ تکتے رہ گئے۔جس راستے سے چیف سیکریٹری صاحب گزر کے برگل تک آگئے اس کا حشر اپنی آنکھوں سے دیکھا توہوگا ہی لیکن چند قدم آگے اشکومن تحصیل کے مرکزی گاؤں چٹورکھنڈ تشریف لاتے ،عوام سے پوچھتے ، درجنوں ایسے مسائل تھے جن سے عوام اشکومن عشروں سے نبرد آزما ہیں ۔گاہکوچ اشکومن روڈ تقریباََ بیس سال قبل تعمیر ہوئی ان بیس سالوں میں ایک بار بھی مرمت کی زحمت گوارا نہیں کی گئی،ذرائع کے مطابق گزشتہ سال مرمت کے لئے دو کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن محکمہ تعمیرات کے ذمہ داران نے ایک کروڑ تیس لاکھ روپے کی لاگت سے گرنجر کے سامنے ایک کلومیٹر ’’ایکسپریس وے‘‘ تعمیر کرڈالا اور وزیراعلٰی کے ہاتھوں افتتاح کرواکے ’’سرخرو‘‘ بھی ہوئے اور بقیہ تیس لاکھ روپے کی رقم سے فمانی تک بعض مقامات پر ’’ٹاکیا ں ‘‘ لگا کر روڈ کی مرمت کا فریضہ بھی پورا کردیا،آج گاہکوچ تا چٹورکھنڈ روڈ میں’’ میٹل‘‘ خوردبین کے ذریعے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا،رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کردی ہے ،آدھا گھنٹوں میں طے ہونے والا فاصلہ دو گھنٹوں کی ازیت ناک سفر میں تبدیل ہوچکا ہے۔

چالیس ہزار کے لگ بھگ آبادی کے لئے چٹورکھنڈ میں قائم انٹر کالج اپنی حالت پہ ماتم کناں ہے،دس سال قبل اس عمارت کی تعمیر شروع ہوئی لیکن آج تک نامکمل ہے،دو سو طلبہ وطالبات اور سٹاف کے لئے صرف ایک واش روم ہے۔یہ شاید گلگت بلتستان کا واحد سرکاری کالج ہے جہاں داخلہ فیس چار ہزار روپے اور ماہانہ فیس دو ہزار روپے مقرر ہیں ۔سرکار کی جانب سے صرف ایک پرنسپل کا تقرر کیا گیا ہے جبکہ بقیہ سٹاف کی تنخواہ کے لئے طلبہ سے بھاری فیسیں وصول کی جارہی ہیں۔اسی طرح گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چٹورکھنڈ کی بچیاں دو الگ الگ سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں ۔پرائمری سیکشن کی عمارت 2010میں سیلاب کی نذر ہوگئی دوبارہ تعمیر کی نوبت نہ آسکی سو پرائمری سیکشن کی بچیاں بوائز سکول میں ’’پناہ گزیں ‘‘ ہے ۔ہائی سکول کی عمارت یہاں سے دس منٹ کی مسافت پر ہے ،پیریڈ کا آدھا وقت اساتذہ کے آنے جانے میں صرف ہوتا ہے ۔ہائی سکول (گرلز) کی عمارت ناقص طرز تعمیر کا عملی شاہکار ہے،بارشوں میں کلاس رومز تالاب بن جاتے ہیں امتحانی ہال کی چھت کسی بھی وقت ڈھے سکتی ہے ۔ہال کی ناقص حالت کو دیکھتے ہوئے سابق ڈپٹی کمشنر غذر سبطین احمد نے استعمال پر پابندی لگادی تھی ، لیکن اس کی مرمت یا دوبارہ تعمیر کے بارے میں آج تک کسی ذمہ دار کو خیال تک نہ آیا۔

اب ذرا محکمہ صحت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔اشکومن کا واحد دس بیڈ ہسپتال کہنے کو تو دس بستروں پر مشتمل ہے لیکن عرصہ ہوا ’’ مریضاں اندرونی‘‘ کا شعبہ ہی ختم کردیا گیا ہے۔تحصیل اشکومن کی پوری آبادی کا انحصار اسی ہسپتال پر ہے لیکن آج تک لیڈی میڈیکل آفیسر کی شکل وصورت سے بھی عوام نابلد ہیں(یہ الگ بات ہے کہ ایل ایم او کی تنخواہ یہاں سے وصول ہوتی ہے)۔چٹورکھنڈ میں انگریزوں کے دور سے ہسپتال کا نظام چلتا رہا ہے اور ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق 1935میں ایک پوسٹمارٹم بھی کیا گیا ہے ،ہمیں محکمہ صحت کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ آج بھی پوسٹمارٹم کی روایت جاری ہے لیکن دیگر کوئی سہولت دستیاب نہیں ۔گزشتہ ڈی ایچ او کے دور تک یہاں کے میڈیکل آفیسر کے پاس ڈی ڈی او کے اختیارات ہوتے تھے اب موجودہ ڈی ایچ او نے وہ اختیارات بھی اپنے پاس رکھے ہیں کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔گئے وقتوں میں یہاں مریض باقاعدہ بھرتی کئے جاتے تھے اور ان کے کھانے پینے کا بھی اہتمام ہوتا تھا جس سے غریب عوام کو گھر کی دہلیز پر صحت کی سہولیات میسر ہوتے تھے اب صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی مریض کا بخار ذرا تیز ہوجائے تو سینگل یا گلگت ریفر کیا جاتا ہے۔اے کلاس ڈسپنسری ایمت جہاں ایک ایم او بلکہ ایل ایم اوہونا چاہئے وہ ایک ڈسپنسر کے رحم وکرم پر ہے ،اشکومن پراپر ڈسپنسری کا بھی یہی حال ہے۔محکمہ صحت کی ترقی کا یہ عالم ہے کہ پکورہ میں قائم ایف اے پی کو بھی بند کردیا گیا ہے،پکورہ اور بلہنز کے علاوہ اشکومن کے بالائی علاقوں میں وخی پٹی بدصوات،بورتھ،مترم دان دوسرے جانب پراپر اشکومن کے گاؤں فیض آباد ،مومن آباد ،تھپشکن،غٹولتی سمیت درجنوں دیہات میں زچہ بچہ کے لئے کوئی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں۔

چٹورکھنڈ کے عوام کو صاف پانی کی فراہمی کے نام پر اب تک حکومتی خزانے کو کروڑوں کا چونا لگایا گیا ہے ۔کچھ عرصہ قبل نالہ ہیول سے صاف پانی کی فراہمی کے لئے ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت کامنصوبہ بنا،اس پراجیکٹ کے لئے سات کلومیٹر طویل چھ انچ قطرکی پائپ لائن بچھانی تھی،ٹینڈر ہوا،بااثر ٹھیکیدار نے تین چوتھائی کام مکمل کرنے سے قبل ہی بیشتر رقم نکلوالی، اس منصوبے کے لئے لائے جانے والے بیشتر پائپ زیر زمین دفن ہوگئے اور کچھ چٹورکھنڈ ریسٹ ہاؤس میں بیکار پڑے سڑ رہے ہیں ،ٹھیکیدار رقم لے کر چلتا بنا ،یوں محکمہ تعمیرات کی غلط منصوبہ بندی اورملی بھگت کے نتیجے میں کروڑوں کا پراجیکٹ اپنی موت آپ مرگیا،آج عوام چٹورکھنڈ سرکاری نل میں چوہوں کی باقیات ملے پانی پینے پر مجبور ہیں۔

ان کے علاوہ چنددیگرسرکاری ادارے اشکومن کی حد تک سرکاری خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں جن میں سر فہرست انیمل ہسبنڈری (وٹر نری)کا محکمہ ہے جس کی ذمہ داری علاقے میں مویشیوں میں پھیلنے والی بیماریوں کا روک تھام ہے،رواں سال ایمت اوراشکومن کے نالہ جات میں منہ کھر کی بیماری سے درجنوں قیمتی خوش گاؤ(یاک) سمیت سینکڑوں چھوٹے بڑے مویشی ہلاک ہوگئے لیکن مجال ہے جو اس محکمے کے کسی اہلکار کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو،پہلے زراعت نام کا محکمہ بھی ہوتا تھا مگر اب منظر سے غائب ہے ،محکمہ جنگلات …جیسے برسوں پہلے تھا… اب بھی ہے لیکن کارکردگی کچھ نہیں۔سیاحت کے محکمے سے بیشتر لوگ ناواقف ہیں ۔صوبائی حکومت سیاحت کے فروغ کے لئے اقدامات کا ڈھنڈورا تو خوب پیٹتی ہے لیکن ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مجاور (ایمت) میں قائم جی بی سکاؤٹس کی چوکی سے آگے غیر ملکی تو چھوڑئے ،بارڈر ایریا کا بہانہ بناکراپنے پاکستانی سیاحوں کو بھی جانے نہیں دیا جارہاحالانکہ بارڈر اس چوکی سے 65کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے،بلاشبہ اس کی سرحدیں بذریعہ افغانستان وتاجکستان روس کے ساتھ بھی ملتی ہیں ، اگر سیکیورٹی کا اتنا بڑا ایشو ہے تو جی بی سکاؤٹس کے چند جوانوں کو خانہ پری کے لئے ایمت میں بٹھانے کی بجائے سوختر آباد میں آرمی کی پکی چو کی قائم کی جائے جہاں پولیس کا سیزنل چوکی قائم ہے ۔

چیف سیکریٹری صاحب ؛آپ سے اشکومن کے عوام کی چند امیدیں تھیں ،آپ نکڑ سے واپس چلے گئے ۔۔۔

؂ انہی راستوں پہ چل کے گر آسکو تو آؤ…
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button