کالمز

مقدمہ گلگت بلتستان کا حل کیا ھے؟

تحریر- اشفاق احمد ایڈوکیٹ

تاریخی پس منظر

گلگت بلتستان کی قدیم تاریخ پر دستیاب کتب کے مطالعہ سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ھے کہ 1842سے قبل گلگت بلتستان میں بھی قدیم دور کے یونانی شہری ریاستوں ایتھنز اور سپارٹا کی طرح چھوٹی ،چھوٹی آزاد خودمختار ریاستیں قائم تھیں،جنھوں نے صدیوں تک ہمسایہ طاقتور ملکوں کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات قائم رکھے۔

جرمنی کے ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا انسٹیٹوٹ میں شعبہ ثقافتی اور سماجی بشریات کے سربراہ کارل جیٹمار اپنی کتاب "بلور اینڈ دردستان” کے صفحہ نمبر 5 میں لکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی قدیم ریاست بلور (Bolor) دو حصوں پر مشتمل تھی ، مشرقی آدھا حصہ گریٹ بلور جبکہ مغربی آدھا حصہ Little Bolor کہلاتا تھا، گریٹ بلور آٹھویں صدی میں چین کے شاہی دربار میں اپنے سفارت کاروں کو بھیج دیا کرتے تھے۔ ریاست بلور کو بیرونی ممالک کی جارحیت کا خطرہ موجود رہتا تھا، صفحہ نمبر 18میں وہ لکھتے ہیں کہ ترکی کے مبلغین بلور بادشاہی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور انہوں نے بدھ مذہب قبول کیا، 6th or 7th century ADکے دوران پہاڑی چٹانوں پر گلگت بلتستان کے بدھ حکمرانوں کے نام کندہ کئے گئے ہیں، ضلع غذر تحصیل پونیال موضع ہاتون گورنمنٹ سکول کے قریب ایک پہاڑی چٹان پر ایک قدیم نام درج ہے جس کے بارے میں کارل جٹمر اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 19میں لکھتے ہیں کہ The second Patoladeva appears in an inscription discovered near the modern village Hatun not far from the outlet of the ishkoman River into the Gilgit Rive.

, Here we learn his Indian title.. Parambhattaraka Maharajadhiraja Paramesvara.

چھٹی صدی عیسوی اور ساتویں صدی عیسوی میں ریاست بلور کے حکمران گریٹ بلور کے دارالخلافہ سکردو میں رہائش پذیر تھے۔

جبکہ تبت والے Little Bolor Stateکو Bru-za کے نام سے جانتے تھے، جس سے ریاست بروشال کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔جس کے متعلق زکر تبت کی قدیم کتابوں میں کیا گیا ہے بروشال کو بروشسکی زبان بولنے والے لوگوں کا وطن قرار دیا گیا ہے۔

According to Hoffman this country is already mentioned in the 7th century when the king Man slon man brstan married a princess of Bru-za.

ساتویں صدی عیسوی سے نویں صدی عیسوی کے درمیان گلگت ویلی بروشال کے لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔

مارکو پولو بلور ریاست کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ جنگلی ملحدوں کا ملک ہے جو جانوروں کا کھال پہنتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے قدیم ریاستوں میں بلورستان Balurastan قابل زکر ہے کیونکہ ایک ہزار سال تک بلور ریاست کا نام تاریخ میں موجود رہا ہے۔

بقول احسان محمود خان Medieval Era یعنی 5th to 15th centuryمیں اس خطے میں خودمختار ریاستیں موجود تھے, وہ اپنے ڈاکٹریٹ ڈگری کے مقالے بعنوان

The role of Geography In Human Security ,

A case study of Gilgit Baltistan کے صفحہ نمبر 83

میں لکھتے ہیں کہ ساتویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی عیسوی کے درمیان گلگت بلتستان کے اس خطے میں

سترہ خودمختار ریاستیں موجود تھے جن میں ریاست گلگت، ہنزہ نگر پونیال،یاسین ،اشکومن ، کوہ غذر،چلاس ،داریل تانگیر ،استور،سکردو،گھرمنگ،ٹولٹی، Tolti,شگر،روندو،keris,اور خپلو شامل تھیں ، جن پر ساتویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی تک مختلف مقامی حکمرانوں نے حکومت کی، لیکن وقتاً فوقتاً اس خطے کو بیرونی جارحیت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

گلگت کی جدید تاریخ کے بارے میں اکثر مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کے لئے 1840 کے بعد لاہور کی سکھ Dynesty نے بقایدہ فوج کشی شروع کیا.

جموں وکشمیر کی ریاست کو مہا راجا گلاب سنگھ نے معاہدہ امرتسر 1846 کے تحت تاج برطانیہ سے پچھتر لاکھ نانک شاھی میں خریدا.

مثال کے طور پر اس معاہدے کے ارٹیکل 3 میں یہ لکھا گیا ہے

Article III. In consideration of the transfer made to him and his heirs by the provisions of the fore¬ going Articles, Maharajah Golab Sing will pay to the British Government the sum of seventy-five lakhs of Rupees (Nanukshah^e), fifty lakhs to be paid on ratification of this Treaty, and twenty-five lakhs on or before the first October of the current year, a.d. 1846.

لیکن اس معاہدے کے آرٹیکل 10کے تحت مہاراجہ گلاب سنگھ نے تاج برطانیہ کی بالادستی کو بھی تسلیم کیا اور برٹش حکومت کو سالانہ بقایدیگی سے خراج دینے کا پابند ھوا ،جبکہ معاہدے کے آرٹیکل 9کے تحت بیرونی جارحیت کی صورت میں اپنی ریاست کی سرحدوں کے تحفظ کیلئے تاج برطانیہ سے مدد کا وعدہ بھی لیا۔

سکھوں نے اسی دوران گلگت بلتستان کے مقامی حکمرانوں کے اندورنی جھگڑوں اور دشمنیوں کا بھرپور فایدہ اٹھایا ۔ بقول احسان محمود خان

راجا سکردو احمد شاہ کے بیٹے محمد شاہ نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کیا اور شری نگر کے ڈوگرہ حکمرانوں سے اپنے باپ کے خلاف مدد طلب کی اور گلگت پر حملہ کرنے کی دعوت دی، ڈوگرہ نے دعوت قبول کرلی اور ڈوگرہ فوج کی کمان کرتے ہوئے وزیر زورآور سنگھ نے حملہ کیا اور سکردو پر قبضہ کرلیا اور راجہ سکردو احمد شاہ کی جگہ محمد شاہ کو سکردو کا راجا بنا کر تخت پر بیٹھا دیا اور احمد شاہ ڈوگروں کی قید میں 1845میں مرگئے۔

جبکہ گلگت اور اس کے مضافات کا معاملہ کچھ اس طرح ہے۔

سال1842کی بات ہے جب گلگت پر نگر کے حکمران سکندر شاہ کی حکومت تھی اسی دوران یاسین کے حکمران گوہرِ امان نے گلگت پر حملہ کیا اور گلگت کے حکمران سکندر شاہ کو قتل کیا.

سکندر شاہ کے بھائی کریم خان نے لاہور دربار میں پناہ لیا اور سکھوں سے مدد طلب کی۔ لاہور دربار نے گورنر آف کشمیر کو حکم دیا کہ اس کی مدد کرو۔ یاد رہے اسی دوران کشمیر کے گورنر کو لاہور کے دربار سے ہی تعینات کیا جاتا تھا۔ جنہوں نے ایک ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک طاقتور فوج گلگت پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کیا جس کی قیادت کمانڈر نتھو شاہ کر رہا تھا۔ کرنل نتھو شاہ نے ایک طاقتور فوج کے ساتھ گلگت پر حملہ کیا ڈاکٹر امر سنگھ چوہان کے مطابق نتھو شاہ بسین کے مقام پر گوہر امان کی فوج کیساتھ ٹکرایا مگر کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ اسی سال دوسرا ڈوگرہ کمانڈر Marhra Dasگلگت میں داخل ہوا جس نے نتھو شاہ کی جگہ لے لی اور نتھو شاہ کو واپس بھیج دیا۔ لیکن گلگت بلتستان کے سب سے نامور حکمران راجہ گوہر امان نے ماترا داس کی فوج پر شروٹ اور گلا پور کے مقام پر حملہ کر کے بدترین شکست سےدوچار کیا ، ڈاکٹر امر سنگھ کا کہنا ہے کہ جنگ میں شکست کھا کر ڈوگرہ فوج کا کمانڈر ماترا داس سیدھا کشمیر بھاگ نکلا۔

راجہ گوہر امان کے پڑ پوتے ضیا الرحمن ایڈوکیٹ نےاس جنگ کے متعلق زکر ہوتے بتایا کہ ڈوگرہ افواج کو گوہرِ امان کے افواج نے ہرپون داس بسین ینزل گلگت کے قریب بدترین شکست دیا، راجہ گوہر امان اس جنگ کی خود کمان کر رہے تھے، اس معرکے کے بارے میں مقامی کھوار زبان کے گانوں میں ذکر کیا گیا ہے اور روایت کے مطابق اس جنگ میں ایک ہزار ڈوگروں فوجیوں کو ہلاک کیا گیا اور ان کے خون گھوڑوں کے ٹخنوں تک پہنچ گیا۔

لیکن نتھو شاہ نے شکست تسلیم نہیں کیا اور ہار نہ مانی اور دوبارہ گلگت پر حملہ کیا تو راجہ گوہر امان نے جنگ کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دی، نتیجتاً کرنل نتھو شاہ نے کریم خان کو تخت گلگت پر بیٹھا دیا مگر گوہر امان سے لاحق خطرے اور ممکنہ حملے کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے متفقہ طور پر گلگت پر Joint Administration کرنےپر راضی ہوئے۔

کچھ سکھ ٹروپس کو ایک تھانیدار کے ماتحت گلگت میں تعینات کردیا گیا. اس طرح گلگت براہ راست پنجاب کے سکھ امپائر کے زیر اثر آگیا۔

1845میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی اور سکھ امپائر آف پنجاب کے درمیان انیگلو سکھ جنگ ہوئی۔ جنگ میں سکھوں کو شکست ہوئی اور ایسٹ انڈیا کمپنی اور شکست خوردہ سکھ امپائر کے درمیان 9مارچ1846کو معاہدہ لاہور طے پایا۔ جس کے نتیجہ میں سکھ اپنی سلطنت کے ایک وسیع حصے بشمول گلگت محروم ہو گئے۔

معاہدہ لاہور کے ایک ہفتے کے بعد برٹش انڈین حکومت نے گلاب سنگھ آف کشمیر سٹیٹ کے ساتھ 16مارچ 1848کے درمیان معاہدہ امرتسر طے کیا۔ اس معاہدے کی شقوں کے مطابق برٹش انڈیا نے کشمیر کے کچھ حصے جو انہوں نے پنجاب کے سکھ حکمرانوں سے حاصل کئے تھے انہیں کشمیر کے ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ کو پچہتر لاکھ نانک شاہی (سکھ کرنسی ) کے عوض میں فروخت کر دیا۔

تاج برطانیہ کی فروخت کیے گئے علاقوں میں گلگت بلتستان کے کچھ وہ علاقے بھی شامل تھے جنھیں پنجاب کے سکھوں نے 1842کے بعد سے قبضہ کرلیا تھا۔ یہ الگ بات ہے بعد میں پورے گلگت بلتستان کو ڈوگرہ افواج نے تاج برطانیہ کے ساتھ مل کر قبصْہ کیا ریاست ہنزہ نگر کو تاج برطانیہ کے حکم پر بزریعہ جنگ قبصْہ کر کے برٹش ہند کے زیر اثر لایا گیا.

اس پر پنڈت پریم ناتھ نے کہا ویلی اور گلگت کے دو ملین (بیس لاکھ) لوگوں کو بھیڑ بکریاں کی طرح بیجا گیا۔ بعض لکھاریوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جنت کشمیر کو پچہتر لاکھ نانک شاہی میں بیچا گیا۔

اس پر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال جو خود بھی کشمیری النسل تھے انہوں نے کہا۔

دہقان و کشت و جونے و خیابان فروختند
قومےفروختند و چہ ارزاں فروختند۔

اس طرح1846 میں کشمیر اور گلگت ڈوگروں کو فروخت ہونے کے بعد کرنل نتھو شاہ نے گلگت میں تعینات اپنے ایک سو سکھ سپاہیوں کے ساتھ ملکر سکھوں کی سرکار سے اپنی ملازمت تبدیل کروایا اور ڈوگروں کی حکومت میں شامل ہوگئے اور اس طرح گلگت اور استور میں تعینات سکھ فوج کی جگہ ڈوگرہ افواج اور جھنڈے نے لے لیا ۔

راجا گوہر امان نے گلگت بلتستان کی منقسم چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ملا کر ایک بڑی متحدہ ریاست بنانے کی کوشش کی اور بھوپ سنگھ پڑی میں ڈوگرہ فوج کو بھرپور شکشت دے کر گلگت بلتستان سے ڈوگرہ افواج کو نکال باہر کیا مگر بعد میں ڈگرہ فوج نے دوبارہ حملہ کیا لیکن گوہر آمان کی زندگی نے وفا نہیں کی اور بیماری کی وجہ سے گلوپور پونیال کے مقام پر وہ وفات پا گئے، ان کا مقبرہ آج بھی ڈسڑکٹ غذر وادی یاسین ناز بر نالہ کے پاس موجود ہے۔

راجہ گوہر امان کی وفات کی وجہ سے ان کا متحدہ ریاست گلگت بلتستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا، اگرچیہ اس کے سب سے چھوٹے بیٹے غلام محی الدین عرف پہلوان نے گلگت پر دوبارہ قبضہ کیا مگر چترال کے اس وقت کے راجہ نے شندور کے راستے حملے کر کے مستوج یاسین پر قبضہ کرلیا اور اس وجہ سے پہلوان ڈوگرہ اور چترال کے افواج کا ایک ساتھ مقابلے نہیں کرسکا اور پھر گلگت اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔

راجا گوہرامان کی وفات کے بعد گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار مضبوط لیڈرشپ کا خلا پیدا ہوا اور ڈوگروں نے دوبارہ حملے شروع کیے اور مختلف اوقات میں بعض مقامی حکمرانوں نے ایک دوسرے کے خلاف مہا راجا کشمیر کی افواج سے مدد لینے کی روایت قائم کیا اور بدلے میں مہاراجہ کی بالادستی کو تسلیم کیا ۔

اس طرح مہاراجہ رنبیر سنگھ کے دور حکومت میں انگریزوں نے 1877میں ایک معاہدہ کے تحت گلگت ایجنسی کی بنیاد رکھی جوکہ 1888تک قایم رھی اور 1889میں برٹش انڈیا نے گلگت ایجنسی کو دوبارہ قایم کرکے ان علاقوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کا عمل شروع کیا اور بعض مقامی حکمرانوں کی فارن پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کرتے رھے اور بلاآخر1891میں برٹش افواج نے پرنسیلی سٹیٹ آف ھنزہ، و ریاست نگر کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑی اور بہت نقصان اٹھانے کے بعد تاج برطانیہ کے فوجی کمانڈر Arnold Durantنے نلت کے معراکے میں ریاست ہنزہ اور ریاست نگر پر کنٹرول حاصل کیا۔اسطرح 1893میں ریاست ھنزہ اور ریاست نگر مکمل طور پر تاج برطانیہ کی Protectorate بن گئے۔

گلگت بلتستان میں بیرونی جارحیت اور جنگ وجدل نے تین طرح کے حکمران پیدا کئے ۔ برٹش انگریز، مہاراجہ کشمیر ،اور گلگت بلتستان کے مقامی حکمران۔

گلگت بلتستان کی فارن پالیسی کو تاج برطانیہ کنڑول کرتی تھی جبکہ انگریزوں کے نیچے دوسرے درجے پر مہاراجہ کی حکومت قایم تھی جبکہ مقامی حکمران برٹش انڈیا اور مہاراجہ جموں وکشمیر کے ماتحت تھے، یوں مہاراجا کشمیر گلگت بلتستان کے مقامی حکمرانوں کے زریعے عوام پر حکومت کرتے تھے، جو عوام سے مالیہ لیتے تھے جبکہ مقامی حکمرانوں سے مہاراجہ خراج وصول کرتا تھا۔

اتحاد،ثلاثہ کی اس پالیسی کے تحت گلگت بلتستان میں تاج برطانیہ اور مہاراجہ کشمیر نے مقامی حکمرانوں کے ساتھ ملکر آسانی سے حکومت کی،لیکن جب 1917میں زار روس کی شہنشاہیت کا خاتمہ کرکے ولادیمیر لینن نے روس میں دنیا کا سب سے بڑا شوشلسٹ انقلاب برپا کیا تو اس کے اثرات یورپ سے لیکر ھندوستان تک پھیل گئے، جو کہ تاج برطانیہ کی سمندر پار سلطنت برٹش انڈیا کے لیے بھی خطرے کی علامت بن چکی تھی اس لیے برٹش انڈیا نے روسی کمیونسٹوں کی ممکنہ پیش قدمی کو روکنے کیلئے گلگت ایجنسی کو براہ راست اپنی کنٹرول میں رکھنے کی حکمت عملی طے کیا.

چونکہ گلگت ایجنسی کی سرحدیں سنٹرل ایشیا، یعنیUSSRاور چین کے ساتھ ملتی ہیں، چنانچہ روس اور چین سے نمٹنے کیلئے گلگت ایجنسی پر براہ راست حکومت کرنا ضروری تھا اسلیئے برٹش انڈیا نے مہا راجا ھری سنگھ سے 26مارچ 1935کو گلگت ایجنسی 60 سال کے لیے Lease پر لیا،اور اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔

لیس آف گلگت ایگرمنٹ1935 کے آرٹیکل 1 کے تحت گورنر جنرل آ ف انڈیا نے گلگت ایجنسی میں برٹش سول اور ملٹری ایڈمنسٹریشن قایم کرنے کا اختیار حاصل کیا۔لیکن ساتھ میں یہ بھی لکھا گیا کہ یہ علاقے بدستور مہاراجہ کے ریاست جموں وکشمیر کا حصہ رھے گا۔

اور سال بھر مہاراجہ جموں وکشمیر کی ریاست کا جھنڈا بھی لہراتا رہے گا۔

معاہدے کے آرٹیکل 5کے تحت یہ ایگرمنٹ 60سال تک نافذالمل تھا

۔جبکہ آرٹیکل 4 کے تحت منرلز پر مائننگ کے تمام اختیارات مہا راجا کشمیر کو ھی حاصل تھے۔ اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یکم نومبر 1947کی جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل کلگت بلتستان کی چھوٹی چھوٹی پرنسلی ریاستیں مہا راجا آف کشمیر کی ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تھے۔اور اس دلیل کی مزید تصدیق کرتے ہوئے گلگت بلتستان میں آئینی اور انتظامی اصلاحات کے لیے گورنمنٹ آف پاکستان منسٹری آف فارن افیئرز کے زیر نگرانی قایم سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ مورخہ 10مارچ 2017کے پیراگراف نمبر 31کے آخری جملے میں لکھا گیا ھے کہ

Though UNCIP ,vide their Resolutions dated 13th August 1948 and 5th January 1949 ,had included the Northern Areas in the State of (J&,K ) for the purpose of over-all plebiscite .”

تاریخی و قانونی طور پر یہ بات سچ ہے کہ موجودہ گلگت بلتستان جو کہ 28ھزار مربع میل علاقے پر مشتمل ھے،1842سے قبل یہ علاقہ نہ تو کھبی مہاراجہ کشمیر کی ریاست کا حصہ رہا ھے نہ تو کھبی برصضیر کا حصہ رہا ھے۔البتہ 1842 کے بعد اس علاقے پر قبضہ کر کے ریاست جموں و کشمیر کا حصہّ بنایا گیا اور پھر ریاست جموں وکشمیر پر پہلی جنگ کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے گلگت بلتستان کو بھی ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیکر تنازع کشمیر میں شامل کیا ھے۔

اسی لیے یکم نومبر 1947کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کو انگریز میجر الگزینڈر بروان نے بغاوت گلگت کا نام دیا، اور اس کے مرنے کے بعد اس کی کتاب Gilgit Rebellion کو اسکی بیوی نے شائع کروایا اور حکومت پاکستان نے اس کو ستارہ پاکستان سے بھی نوازا۔

اگرچہ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ھے کہ یکم نومبر 1947سے 16نومبر 1947تک گلگت بلتستان میں ایک مکمل آزاد حکومت قائم رھی، اور جنگ آزادی گلگت بلتستان کے بعد ڈوگرہ حکومت کا ھمیشہ کے لیے خاتمہ ھوئی ،،مگر اس علاقے کو مسئلہ کشمیر میں الجھایا گیا اور گلگت بلتستان کی آزادی کو اقوام متحدہ کے کسی بھی ممبر ملک نے آج تک تسلیم نہیں کیاھے۔

سولہ نومبر 1947 کے بعد پاکستان کے صوبہ سرحد کے ایک نایب تحصیلدار محمد عالم خان صاحب نے بحثیت گلگت بلتستان کے نئے لولیٹکل ایجنٹ انتظامی معاملات کنٹرول کیے۔اور اس دور سے لیکر 1974تک گلگت بلتستان کے لوگوں کو بنیادی انسانی جمہوری حقوق سے محروم رکھا گیا اور اس خطے پر ایف سی ار کا کالا قانون لاگو کیا گیا.

1974میں زوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان سے FCR اور راجگی کا خاتمہ کردیا۔اور گلگت بلتستان و آزاد کشمیر کو آئین پاکستان میں اسلیے شامل نہیں کرسکا کیونکہ اس کو بخوبی علم تھا کہ یہ ایک بین الاقوامی تنازعہ ھے۔

پاک چین سرحدی معاہدے 1963 کے وقت ایوب خان کے دور حکومت میں زالفقارعلی بھٹو وزیر خارجہ تھے اور اس سرحدی معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کے علاقے اقصاے چن اور ششگام وادی Trans Karakoram Tract کو چین کے حوالے کیا گیا لیکن اس معاہدے کے آرٹیکل 6 میں لکھا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد گلگت بلتستان میں جو بھی حکومت ھوگی اس کے ساتھ اس معاہدے کو Renegotiate کیا جائے گا۔

اسی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے زالفقارعلی بھٹو اپنے دور حکومت میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے حالات کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے خواہش مند تھے جسے کہ سرتاج عزیز کمیٹی میں لکھا گیا ھے کہ ان علاقوں کے مستقبل کے حوالے 13اکتوبر 1973 میں کابینہ کی ایک سپیشل میٹنگ میں زالفقارعلی بھٹونے کہا کہ The conditions prevailing there should be so favourable that they act as an inducement to the people in Occupied Kashmir to join Pakistan.

لیکن افسوس زالفقارعلی بھٹو کی سوچ کے برعکس ان علاقوں کے حالات بہت بہتر کرنا تو دور کی بات لوگوں کو ان کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق ھی نہیں دیے گئے۔اور FCRجیسے کالے قوانین گلگت بلتستان کے لوگوں پر نافذ کیا گیا۔

بلاآخر 1994میں ایک LFOدیا گیا اور1999میں اس LFOمیں ترمیم کرکے کونسل کے سٹیٹس کو بڑھا کر ناردرن ایریاز لیجسلیٹیو کونسل کا نام دیا گیا۔۔جس سے KANAڈویزن کا ایک بیوروکریٹ کنڑول کرتا تھا۔

1994کے اس LFO میں 2007میں بھی کچھ ترامیم کی گئیں۔اور اس کے بعد 2009اور 2018 میں صدارتی ارڑرز جاری کیے گئے، نتیجتاً آج صورتحال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ انڈیا کے زیر کنٹرول جموں وکشمیر طرز کے حقوق دینے کا مطالبہ کررھے ہیں۔

گلگت بلتستان کے لوگوں کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دایر کیس الجہاد ٹرسٹ بنام فیڈریشن آف پاکستان نامی کیس کا فیصلہ 1999میں ہوا اور سپریم کورٹ نے وفاق پاکستان کو ڈایرکشن دیا کہ وہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کو مہیا کریں اور ایک آزاد عدلیہ کا قیام بھی عمل میں لائے۔

اس کے ساتھ ھی گلگت بلتستان کے لوگوں کے حقوق کے لیے یوروپین پارلیمنٹ نے بھی ایک قرارداد منظور کی تو پھر کہیں جاکر 2009کا آرڈر آیا اور اس کے بعد بدنام زمانہ 2018کا آرڈر دیا گیا۔

گلگت بلتستان کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے پر گزشتہ بیس سالوں سے عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا کہ اسی دوران سابقہ وزیراعظم پاکستان نواز شریف صاحب کی دور حکومت میں CPECمنصوبہ زور وشور سے شروع ہوا اور گلگت بلتستان کی اھمیت قومی اور بین الاقوامی سطح پر اچانک بہت زیادہ بڑھ گئی ۔

چاینہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک ) گلگت بلتستان سے گزر کر بلوچستان کی طرف جاتاہے جہاں گوادر پورٹ ھے ، اور اس پورٹ سے چین اپنے برآمدات کو دنیا بھر کی منڈیوں تک پہنچائے گا گوادر پورٹ سے دنیا بھر کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے چین اپنی اس تجارتی سفر کی شروعات گلگت بلتستان سے کرئے گا۔

چنانچہ اس متنازع علاقے کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے سفارشات تیار کرنے کے لیے سرتاج عزیز کمیٹی مقرر کی تھی جس نے گلگت بلتستان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 258کے تحث ایک تحت صدارتی فرمان کے زریعے عبوری آئینی صوبہ بنانے کی سفارش کی، چونکہ مکمل صوبہ بنانے میں مسئلہ کشمیر رکاوٹ ہے اور گلگت بلتستان بھی مسئلہ کشمیر کا حصہ ھے۔

1947سے قبل گلگت بلتستان پرنسیلی ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تھا لیکن جموں و کشمیر پر پاکستان انڈیا کی پہلی جنگ 22اکتوبر 1947 کے نتیجے میں ریاست جموں و کشمیر تین حصوں یعنی انڈیا کے زیر کنٹرول جموں کشمیر،اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان میں منقسم ھوگیئ۔

22اکتوبر کو جنگ کے شروعات میں جب سرحد کے قبائلی لشکروں نے ریاست جموں وکشمیر پر حملہ کیا تو مہا راجا ھری سنگھ نے انڈیا کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ کچھ شرائطِ کے ساتھ Instrument Of Accessionپر دستخط کر کے الحاق کیا ،اور قبائلی لشکروں کے مقابلے کے لیے جواہر لال نہررو نے اندیا کی افواج جموں و کشمیر میں اتار دی اور موجودہ انڈیا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دونوں حصوں میں جنگ شروع ہوئی۔لیکن ریاست جموں وکشمیر کے تیسرے حصے یعنی گلگت بلتستان میں بلکل امن اور خاموشی تھی اس دور میں گلگت بلتستان میں ایک بھی ھوائی اڈاہ نہیں تھا نہ ھی ریڈیو، اخبار اور ٹی وی کی کوئی بھی سہولت موجود نہیں تھی دشوار گزار پہاڑی علاقہ دنیا سے بلکل کٹا ہوا تھا اس لیے کشمیر میں جاری اس 22اکتوبر 1947کی جنگ کے بارے میں عوام کو پتہ ھی نہیں چلا البتہ گلگت ایجنسی میں گلگت سکوٹس کے انگریز میجر الگزینڈر بروان کو اس جنگ کا پہلے سے ھی علم تھا۔ چونکہ تین جون 1947 کے

منصوبہ تقسیم ھند کے تحت پاکستان،انڈیا کو آزادی دینے سے قبل ھی یکم اگست 1947 کو تاج برطانیہ نے گلگت ایجنسی کی لیس ایگرمنٹ کو ٹرمنینٹ/ ختم کرنے کے بعد گلگت ایجنسی مہا راجا ھری سنگھ کے حوالہ کیا تھا اور مہاراجہ نے اپنے کزن برگیڈیئر گھنسارا سنگھ جو ریاست کشمر کی فوج کا سینئر افسر تھا اسے گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کیا تھا۔جو گلگت میں اپنے عہدے پر براجمان تھے۔ ریاست جموں و کشمیر کے دیگر دو حصوں یعنی آزاد کشمیر اور جموں وکشمیر میں جنگ جاری تھی لیکن گلگت بلتستان میں امن وامان قائم تھا ۔

جنگ کے حالات سے فایدہ اٹھا کر اسی دوران یکم نومبر 1947کو گلگت بلتستان کے گلگت سکوٹس کے مقامی آفیسران و جوانوں نے مقامی باشندوں کے ساتھ ملکر گھنسارا سنگھ کو گلگت میں گرفتار کیا اور آزادی گلگت بلتستان کا اعلان کیا۔

اور 16دںوں تک ایک مکمل آزاد حکومت قائم کی۔

اور اس کے بعد پاکستان کے صوبہ سرحد کے نایب تحصیل دار محمد عالم خان نے یہاں کے ممللات کنٹرول کیا۔ اور تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد حکومت پاکستان نے 28اپریل 1949کو آزاد کشمیر کے سردار محمد ابرہیم خان اور چودھری غلام عباس کے ساتھ معاہدہ کراچی کیا اور اس معاہدے کے تحت گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول حاصل کرلیا۔

۔ اس کے بعد حکومت پاکستان نے اپنے سسٹم کے تحت ان علاقوں کے لیے پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیئے جو گلگت بلتستان پر حکومت کرتے تھے ان علاقوں کے باشندوں کو کوئی بنیادی جمہوری آیئنی حقوق حاصل نہیں تھے نہ ھی گلگت بلتستان میں جمہوریت اور منتخب نمائندوں کا کوئی تصور موجود تھا۔ جبکہ دوسری طرف جموں وکشمیر اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو 1948میں جنگ بندی کے بعد سے تمام اختیارات و حقوق دیے گئے۔

جبکہ گلگت بلتستان میں موجودہ آرڈر 2009اور 2018کے تحت کچھ حقوق دیے گئے۔۔اور کچھ مملات میں قانون سازی کے اختیارات بھی بظاھر دیا گیا لیکن ایک کالونیل ٹایپ کی سیاست کرکے ان اختیارات کو ایک ہاتھ سے دیکر دوسرے ہاتھ سے بزریعہ وزیر اعظم پاکستان اور گلگت بلتستان کونسل کے غیر منتخب چھ پاکستانی ممبران کے زریعے واپس لیے گیے جیسے کہGB order 2018کے آرٹیکل 60کے تحت جی بی کونسل کا چیرمین وزیراعظم پاکستان ھے اور 6ممبران پاکستان کے وزیر ہیں۔اور عوامی نمائندے وزیراعظم پاکستان کے مرضی کے برعکس کوئی بھی قانون سازی نہیں کر سکتے نہ ھی اسں آرڈر میں ترمیم کرسکتے ہیں۔

نہ اس آرڈر کو سپریم اپیلیٹ کورٹ یا چیف کورٹ گلگت بلتستان میں چیلنج کیا جا سکتا ھے۔

گلگت بلتستان میں اس طرح کی صورت حال جاری تھی کہ CPECکا منصوبہ آیا اور ستر سال سے اندھرے میں ڈھوبے ھوے اس علاقے کی اھمیت عالمی سطح پر بہت زیادہ بڑھ گئی۔

دنیا کے مختلف طاقتور ملکوں کے پارلیمان جیسے امریکہ و برطانیہ اور یوروپین پارلیمنٹ میں گلگت بلتستان کا نام لیا جانے لگا اور یہ علاقے عالمی ممالک کی توجہ کا مرکز بن گئے۔

دوسری جانب دستاویز الحاق نامے کو بنیاد بنا کر انڈیا نے گلگت بلتستان میں بنائے جانے والے میگا پراجیکٹس پر عالمی سطح پر اعتراضات کرنا شروع کردیا نتیجتاً بھاشا دیامر ڈیم کے لیے عالمی مالیاتی ادارے بشمول ولڈ بنک نے قرضے دینے سے صاف انکار کردیا۔

بعض ماہرین بین الاقوامی امور کا کہنا ہےکہ گلگت بلتستان کے سٹیٹس کے متعلق ،”سرتاج عزیز کمیٹی” چین اور پاکستان کے سرمایہ دار طبقہ کے کہنے پر بنائی گئی تھی۔تاکہ ان علاقوں میں چین اور پاکستان کے سرمایہ دار طبقہ کے سرمایہ کاری کو محفوظ بنایا جا سکے۔،

گلگت بلتستان کے علاقے کو ایک لمبے عرصے سے بیکار سمجھ کر چھوڑا گیا تھا ایک دم اس کی قیمت بڑھ گئی ۔اور پاکستان کے امیر طبقے کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کا آئینی اور قانونی مسئلہ حل ھو تاکہ وہ اس علاقے کے وسائل سے بھرپور فایدہ اٹھا سکیں۔اسلیے تو گلگت بلتستان آرڈر 2018کے آرٹیکل 2bمیں خصوصی طور پر ترمیم کرکے اپنے لیے شہریت کا دروازہ کھولا گیا ھے۔،،۔

جبکہ گزشتہ ستر سالوں سے گلگت بلتستان کے لوگ پوچھتے ہیں کہ ھمارا سٹیٹس کیا ھے،؟

اس سوال کا بنیادی وجہ یہ ھے کہ گزشتہ ستر سالوں سے گلگت بلتستان آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ھے۔لیکن پاکستان کے وفاق کے زیر اہتظام ھے البتہ پاکستان اس کو اپنا شہ رگ کہتا ہے،،

دوسری طرف انڈیا اسے اپنا اٹوٹ انگ انگ کہتا ھے ۔

تیسری طرف کشمیری گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کا نہیں بلکہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ سمجھتے ہیں۔

یہ آسان سا سوال جو گلگت بلتستان کے 20لاکھ لوگوں کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق سے متعلق ہے اتنا مشکل کیوں ھے؟؟؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان سابقہ پرنسیلی ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ھے۔ لیکن پاکستان کے زیرِ انتظام ھے ۔

گلگت بلتستان کو پاکستان کے آئین میں شامل کرکے صوبہ کیوں نہیں بنایا جاسکتا ہے؟

اس کی ایک وجہ یہ ھے کہ اس علاقے کی حیثیت میں کوئی تبدیلی کرتے ہیں تو اسے مسلہ کشمیر متاثر ھوتا ھے،اور اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق جموں وکشمیر کا مستقبل کا فیصلہ پاکستان اور انڈیا نے نہیں کرنا ھے بلکہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام نے بزریعہ استصواب رائے اس بات کا فیصلہ کرنا ھے کہ انھوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ھے یا انڈیا کے ساتھ الحاق کرنا ھے۔

دوسری بنیادی وجہ اگر پاکستان اپنی مرضی سے یکطرفہ طور پر گلگت بلتستان کو اپنے آئین میں شامل کر کے صوبہ بناتا ھے تو اس ایکٹ سے ریاست جموں وکشمیر پر UNO کی جو ریزولوشنز ہیں ان کی خلاف ورزی ھوگی،، اسی سوچ کی وجہ سے گکت بلتستان کو پاکستان کے 1956,اور 1962کی طرح 1973کے آئین میں بھی شامل نہیں کیا گیا ھے۔

کشمیر کی پہلی جنگ کے دوران جب مہاراجہ کشمیر نے 26اکتوبر 1947میں انڈیا کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ الحاق نامے میں دستخط کیے تو پھر اس مسئلہ کو انڈیا کے اس دور کے وزیراعظم پنڈٹ جواہر لعل نہرو UNOلیکر گئے۔

۔اور NNCIPکے قراردادوں میں ریاست جموں و کشمیر بشمول کلگت بلتستان کو متنازع علاقے قرار دیا گیا ھے اور Plebisciteکے زریعے اس مسلئے کا حل دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کشمیر میں پاکستان انڈیا کے درمیان جنگ بندی کروانے کےبعد اپنے ملیڑری اوبزرور مقرر کئے گئے جو کہ منقسم جموں وکشمیر کے تینوں حصوں میں UNMOGIPکے نام سے دفاتر کھول کر آج تک موجود ہیں۔ اور مختلف وجوہات کی وجہ تاحال رائے شماری نہیں ھو سکی،، البتہ پاکستان انڈیا میں مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں ھونے کے باوجود بھی مسئلہ کشمیر بدستور حل طلب ھے۔

اس لیے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنا دیا گیا تو UNکے ریزولوشن کے ساتھ تصادم میں آجائے گا۔

نواز شریف کی مقرر کی گئی سرتاج عزیز کمیٹی نے اسلیے مکمل صوبہ کے بجائے آئین پاکستان کے آرٹیکل 258کے تحت گلگت بلتستان کو صدر پاکستان کے ایک صدارتی فرمان کے تحت ایک عارضی خصوصی صوبہ بنانے کی شفارش کی تھی۔اور گلگت بلتستان کے تین ڈویژن گلگت، بلتستان اور دیامر کے لیے ایک ایک سیٹ پاکستان کی قومی اسمبلی میں دینے اور ایک ویمن سیٹ مختص کرنے کے ساتھ سینیٹ پاکستان میں بھی کل تین سیٹس دینے کی سفارش کی تھی۔البتہ تمام قومی اداروں بشمول NFCمیں بطور مبصر نمائندگی دینے کی سفارش کی تھی۔

مگر اس کمیٹی کے سفارشات کے برعکس گزشتہ دنوں 1999کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر عملدرآمد کیس کی سماعث کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس صاحب نے اپنے ریمارکس میں یہ بات واضح کیا کہ

"گلگت بلتستان آئینی صوبہ تو دور کی بات عبوری آئینی صوبہ بھی نہیں بن سکتاھے۔ "

پاکستان کی وفاقی حکومت نے بھی کورٹ کو بتایا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنا نا ممکن نہیں ہے اسلیے وہ ارڈد 2018میں کچھ ترامیم کر کے عدالت میں پیش کرینگے۔

گلگت بلتستان کو صوبہ نہ بنانے والے مقتدر سکول آف تھاٹ کا واضح مؤقف یہ ھے۔

گلگت بلتستان” ریاست جموں وکشمیر” کا حصہ تھا،ھے اور رھے گا, جب تک مسئلہ کشمیر استصواب رائے سے حل نہیں ہوتا۔ اگر گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنا دیا گیا تو مسئلہ کشمیر ختم ھو جائے گا اور ہم یہ نہیں چاہتے ہیں.

چونکہ قوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار نمبر 122 کے تحت کشمیر کا حتمی فیصلہ متنازع ریاست جموں اینڈ کشمیر کے عوام نے کرنا ہے.

اس سکول آف تھاٹ کو کشمیری قیادت خصوصاً انڈین زیر کنٹرول جموں و کشمیر کی لیڈر شپ بھی سپورٹ کرتی ھے اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی سختی سے مخالفت کرتی ھے۔

کیونکہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی کوششیں ان کے مقصد اور ستر سالوں کی جدوجھد کو متاثر کرنے کی وجہ بنے گا۔

اور آزاد کشمیر کی لیڈرشپ بھی متفقہ طور پر اس موقوف کی تائید کرتی ھے۔

کشمیر میں گلگت بلتستان کے لوگوں کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کے بارے میں رو طرح کی رائے پائی جاتی ھے۔

ایک مکتبہ فکر کا کہنا ھے کہ گلگت بلتستان میں سٹیٹس کو بدستور برقرار رکھا جائے اور ان کے کچھ جمہوری حقوق ہیں تو ان کو دیں دو۔

بقول بیرسٹر حامد بھاشانی کے یہ درحقیقت ان لوگوں کی رائے ھے جو سیاست کے بارے میں زیادہ Literate نہیں ھیں۔اور آئینی و قانونی مملات سے نابلد ہیں۔

اسلیے عام آدمی کی طرح کہتے ہیں کہ یہ کیا مسئلہ ھے؟ہماری خواھش ھے کہ گلگت بلتستان کو ایسے ھی رکھا جائے۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ کیا چاہتے ہیں۔ بہرحال اکیسویں صدی میں یہ کوئی Intelligent opinion نہیں ھے۔

کچھ لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بناؤ بلکہ آزاد کشمیر طرز پر ایک علیحدہ سیٹ اپ دے دو۔

اس سیٹ اپ کے تحت گلگت بلتستان کے لوگوں کو جو کچھ بھی ان کے جمہوری حقوق ہیں وہ دےدو۔

آزاد کشمیر کی لیڈر شپ کا مطالبہ ھے کہ گلگت بلتستان کو ان سے زیادہ بڑھ کر اچھا سٹیٹس دیا جائے۔ البتہ اس حمایت کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ھے۔

اس کے جواب میں گلگت بلتستان کے لوگ کہتے ھیں کہ We are part of the Kashmir Dispute but we are not Kashmiris

کیونکہ ھمارا کلچر،رسوم رواج اور زبانیں مختلف ھیں۔اگر 1846میں مہاراجہ جموں وکشمیر اور تاج برطانیہ نے گلگت بلتستان پر قبضہ کر لیا تھا تو آسکا ھرگز یہ مطلب نہیں ھے کہ ھماری قومی شناخت بدل جائے ،،۔

تاج برطانیہ نے برصغیر پاک و ہند میں دو سو سال حکومت کی لیکن ان دو سو سالوں میں برصغیر کے باشندوں کی قومیت نہیں بدل گئی نہ ھی وہ انگریز بن گئے تو گلگت بلتستان کے لوگوں کی قومی شناخت کیسے بدل سکتی ھے۔؟؟

گلگت بلتستان کے لوگوں کو اگرچہ مسئلہ کشمیر کا حصہ بنایا گیا ھے لیکن وہ کشمیری نہیں بلکہ ھزاروں سالوں سے ان کی اپنی ایک علیحدہ قومی پچان ھے۔

مسئلہ کشمیر کے بہانے سے گلگت بلتستان کے لوگوں کو زیادہ دیر تک ان کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا ہے۔

اگر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر متاثر ھوتا ھے اور کشمیر پر پاکستانی ریاست کے Long standing narrativeمیں اگر دراڈ پڑتا ہے تو اس صورت گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دینے میں کیا قباحت ھے؟؟

کیونکہ اب گلگت بلتستان کے اندر موجود گزشتہ ستر سالوں کی احساسں محرومی کا خاتمہ اور یہاں کے لوگوں کے بنیادی انسانی جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی طور پر دو ممکنہ آپشن بچتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔”

1. آئین پاکستان کے آرٹیکل 258کے تحت

جی بی آرڈر 2018 میں ترمیم کر کے گلگت بلتستان میں نافذ کیا جائے، جس کے آثار گلگت کے سیاسی فضا میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔بس تقدیر کا لکھا سمجھ کر اس پر چپ چاپ گزرا کرنا ھے یا پھر ایک قوم ایک آواز بن کر پرامن طریقے سے دوسرے اوپشن یعنی

( 2)۔کشمیر طرز کاسیٹ آپ کے قیام کیلئے متفقہ طور پر مطالبہ کیا جائے جو کہ آئین و قانون کے مطابق ممکن ھے۔

اور مطالبہ کیا جائے کہ وہ تمام حقوق گلگت بلتستان کے لوگوں کو دیا جاۓ جو کسی بھی جمہوری ملکوں کے لوگوں کو دیئے گئے ہیں۔اور یہاں کے مقامی لوگوں کو ان کی زمینوں کی اونرشپ کا حق دیا جائے۔

مقامی عوام کے منتخب نمائندوں کو اپنے معملات کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے۔

دفاع،کرنسی ،کمیونیکیشن اور فارن پالیسی کے علاؤہ دیگر تمام مملات پر قانون سازی کرنے کے مکمل اختیارات گلگت بلتستان کے منتخب نمایندوں کو دیئے جائیں۔

اگر اس کے بعد بھی گلگت بلتستان پر پاکستان، انڈیا اور کشمیر یوں کا دعویٰ چلتا ہے تو چلتا رھے۔ جسے دنیا کے کئی علاقوں پر تنازعے ہیں اور مختلف ممالک کے درمیان دعویٰ چلتے رہتے ہیں۔ اس طرح کی ایک بہترین مثال China v.s Tiwan کی ھے۔

چونکہ تنازع کشمیر کے نام پر ھمیشہ کے لئے لوگوں کو ان کے بنیادی انسانی و جمہوری حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا ھے ، اور یہ کہنا کہ مسلہ کشمیر کے حل تک آپ کو کچھ نہیں مل سکتا سوائے آرڈرز کے اس طرح کی سوچ اور پالیسی سے منفی اور خطرناک نتائج نکلنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔

اسلیے گلگت بلتستان کے لوگوں کو مکمل بنیادی انسانی جمہوری حقوق دینے کا یہ واحد حل ھے ، کہ گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے۔

اس سے کسی کو کوئی اعتراض اور تکلیف نہیں ھوگی ۔گلگت بلتستان میں موجود بے چینی اور سماجی اجنبیت کا بروقت خاتمے ھونے کے ساتھ ان کی شناخت کا مسلہ بھی حل ھو گا۔

کشمیر کے لوگ بھی اس پر اعتراض نہیں کرسکتے چونکہ وہ خود اس طرح کے نظام سے بھرپور فایدہ اٹھا رھے ھیں۔

ریاست پاکستان کا بھی کوئی نقصان نہیں ھوگا چونکہ کشمیر طرز کا سیٹ اپ دینے کے باوجود بھی گلگت بلتستان بدستور ان کے پاس ھی رھے گا، خصوصاً گلگت بلتستان کی دفاع ،کرنسی ،کمیونیکیشن اور فارن افیئرز پاکستان کے پاس ھی رھنگے البتہ لوکل اتھارٹی کے تحت گلگت بلتستان کو داخلی خود مختاری ملے گی جو کہ آقوام متحدہ کی کشمیر پر پاس کی گئی قراردادوں کے عین مطابق ہے جن کے تحت حکومت پاکستان مسلہ کشمیر کا حل چاہتی ہے.

چونکہ گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے حل سے پہلے اپنے ساتھ آئینی اور مکمل طور پر ملانا ناممکن ھے۔ مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست پاکستان کا یہ اصولی موقف ھے جس کا واضح ذکر آئین پاکستان میں کیا گیا ہے.

آرٹیکل 257 آئین پاکستان. ریاست جموں و کشمیر سے متعلق حکم. جب ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مذکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق معتین ہوں گے.

اس لیے گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر طرز کا سٹ اپ دینے سے مسئلہ کشمیر کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوگا نہ ھی متنازعہ ریاست جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ھوگی۔ کیونکہ ان قراردادوں میں بھی لوکل اتھارٹی کی سفارش کی گئی ھے۔

اور اسطرح کی لوکل اتھارٹی کی حکومت جموں وکشمیر و آزاد کشمیر کو 1948 میں ہی دیا گیا ھے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ایک قابل قبول قانونی حل ہے جس سے اقوام محدہ کی قراردادوں کے مطابق نہ تو پاکستان کا مسلہ کشمیر پر اصولی موقف کمزور پڑتا ہے نہ ہی کشمیر کاز کو کوئی نقصان ہوتا ہے بلکہ گلگت بلتستان کو داخلی خودمختاری دینے سے کشمیر کاز پر ریاست پاکستان کا اصولی موقف مصْبوط ہوتا ہے اور جب تک مسلہ کشمیر حل نہیں ہوتا تب تک کے لیے یہ ایک بہترین حل ہے.

چونکہ گلگت بلتستان کو کشمیر طرز کے سٹ اپ دینے سے تنازعہ کشمیر کے ایک فریق انڈیا کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ اسے اعتراض صرف گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے سے ھے۔

گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر جیسا نظام دینے سے آر پار کے کشمیریوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ وہ خود اس طرح کے نظام سے اپنے اپنے حقوق لیکر مزے سے خود اپنے معاملات چلا رھے ھیں اس طرح داخلی خود مختاری دینے گلگت بلتستان کے عوام کی ستر سالہ محرومیوں کا بھی ازالہ ہوگا.

اس لیے یہ کہنا کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا ھے گلگت بلتستان کو آرڈرز ھی ملتے رہیں گے یہ بات بالکل بچکانہ ھے۔

اور آخر میں تنازعہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر گلگت بلتستان کو ریاست پاکستان کے اصولی موقف سے ھٹ کر پھر بھی اگر کوئی دوست صوبہ بنا سکتا ھے تو اس اچھے کام میں اتنا تاخیر بھلا کیوں؟؟

البتہ کوئی بھائی اگر آرڈر پر آرڈر کی حمایت کرتاھے تو مت بھولنا کہ آرڈر اور ڈنڈے کا چولی دامن کا ساتھ ھے.

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button