شعر و ادبکالمز

نفیس لونؔ ۔۔۔۔۔ شنا ء شاعری کا چمکتا ستارہ

تحریر : محمد شراف الدین فریاد ؔ

شاعرکیا ہوتا ہے۔۔۔۔؟ لفظ ” شاعر ” شعور سے نکلا ہے ۔ جس کے معانی عقلمند ، سمجھنے اور جاننے والے کے ہیں ۔ ردیف اور قافیہ کے وزن کو برقرار رکھتے ہوئے کسی بھی موضوع پر اپنے پیغام اور انداز گفتگو کوحسین روپ دیکر پیش کرنے کو ” شاعری ” کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ ایک خداداد صلاحیت ہوتی ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی ۔ گوکہ شاعری کے بہت سارے اقسام ہوتے ہیں ۔ ان میں” غزل” سب سے منفرد اور خوبصورت ہوتی ہے ۔ اگر غزل کے لفظی معنی کو جانا جائے تو اس کا مطلب "عورت سے باتیں کرنا” ہے۔مگر ادبی حلقے محبوب کی تعریف میں لکھے گئے اشعار کو ” غزل” کا نام دیتے ہیں ۔ غزل کے دواقسام ہوتے ہیں،پہلی قسم میں شعر صرف دو جملوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ پہلے بند کے دونوں جملے ہم قافیہ ہوتے ہیں ،اس کے بعد شروع ہونے والا پہلا جملہ غیر قافیہ جبکہ ہر دوسرا جملہ پہلے بند کے دونوں جملوں کا ہم قافیہ ہوتا ہے ۔ جبکہ دوسری قسم کی ” غزل” چار جملوں پر مشتمل ہوتی ہے، اس کے پہلے بند کے شروع کے دوجملے ہم قافیہ ، تیسرا غیر قافیہ اور چوتھا جملہ پہلے دو جملوں کا ہم قافیہ ہوتا ہے ۔ اس کے بعد شروع ہونے والے چار جملوں کے الفاظ میں پہلے دو جملے تو ہم قافیہ ہوتے ہیں مگر پہلے بند کے دو جملوں کے قافیہ سے مختلف ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد ہر تیسرا جملہ غیر قافیہ ہی ہوتا ہے اور چوتھا جملہ پہلے بند کے دوجملوں اور چوتھے جملے کا ہم قافیہ ہوتا ہے ۔ یہ مشکل ترین غز ل ہوتی ہے جسے ” مسدس حالی” بھی کہا جاتا ہے ۔کوئی بھی شاعر مختلف زبانوں کے جس معاشرے میں بستا ہے اسی معاشرے کی قومی و مادری زبانوں پر شاعری کے مجموعے لکھتا ہے۔ تہذیب ، ثقافت اور زبان کسی بھی قوم کی پہچان ہوتی ہے ۔ جو قومیں اپنی تہذیب ، ثقافت اور زبانوں کو کھو دیتی ہیں یا بھول جاتی ہیں تو ان کی قومی شناخت مٹ جاتی ہے اور ایسی قوموں کا شما ر مردہ قوموں میں ہوتا ہے۔

شاعر خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بستا ہو اسے یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ شاعری کے ذریعے اپنی قومی ، علاقائی یا مادری زبان کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور اسے دفن ہونے سے بچاتا ہے ۔

گلگت بلتستا ن میں بیشتر علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں شنا ء ، بلتی ، کھوار ، بروشسکی ، خلوچا ، وخی ، گوجری وغیرہ شامل ہیں ۔ ان میں شناء زبان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ اس خطے کی اکثریتی اور مادری زبان ہے ۔ ہمارے بزرگ اور سینئر شعراء جن میں فضل الرحمٰن عالمگیرؔ ، خلیفہ ملنگ ، جان علی ، عبدالخالق تاج ، محمد امین ضیاءؔ ، صلاح الدین حسرت ؔ ،اختر حسین راجہ ، فرمان ولی خیالیؔ ،بہرام خان شادؔ ،بابائے چلاسیؔ ، نعمت ولی تبسم ؔ ، جمشید خان دکھیؔ ،غلام عباس نسیم ؔ ، عبدالحفیظ شاکرؔ ، عنایت اللہ شمالیؔ ، محمد نظیم دیاؔ ، بابر خان بابرؔ ، نسیم شیدائی ؔ ، عقیل خان عقیل ؔ وغیرہ شامل ہیں نے اپنے اشعار میں شنا ء زبان کے الفاظ کا خزانہ جمع کرتے ہوئے اس زبان کو متروک ہونے سے بچا لیا ہے ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارے نوجوان شعراء بھی شنا ء زبان کی تحفظ کے لیے محنت کر رہے ہیں ان نوجوان شاعروں میں ایک شاعر ایسا ہے جس نے شناء زبان کو مکمل تحفظ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا ہے ۔ اس عظیم نوجوان شاعر کا نام نفیس احمد لون ؔ ہے ۔ گوکہ موصوف خود بھی شاعر ہے ۔ اُبھرتے ہوئے نوجوان شاعرو ں میں عطا اللہ اثر ؔ ، عزیز الرحمٰن ملنگی ؔ ، ظفر وقار تاج ، غلام نبی ہمراز ؔ ، اقبال حسین اقبال ؔ ، نوید احمد ساون ؔ (مرحوم ) ، اعجاز حسین ،محمد اشرف سحرؔ ، رحمٰن شاہ ساغرؔ ، امتیاز حسین شہکیؔ ،ظہیر شاہ عاجز، ؔ مدثر احمد دیپک ؔ ، طالب حسین طالب ؔ ، سجاد الرحمٰن سجاد ؔ ، اور شاہ زمان شاہؔ وغیرہ ایسے نام ہیں جن کے کلام گانے والا ہر گلوکار ہٹ ہوتا ہے اور اُنہوں نے اپنی بساط کے مطابق شناء زبان کے قدیم الفاظ کو تحفظ دینے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن موصوف کی نظر میں نفیس احمد لونؔ کی کوشش ان تمام شعراء کی کاوشوں سے بھر پور نظر آتی ہے اور الطاف حسین حالی ؔ کی مسدس طرز پر میں لکھی گئی ان کی شاعری ایک ہی موضوع کے گرد گھومتی ہوئی سننے والوں کے لیے بھرپور پیغام اور خوبصورت ” مرکزی خیال ” کا محور بھی ہے ۔ نفیس کا ایک شعر قارئین کی نظر کرتا ہوں ۔

” مُولیئے لنگ بِیلن کُوری جما یا نے کُوری جم”
” اَ جُونی کوئیکر رُو می جما یا نے رُومی جم "

تشریح : اس شعر میں نفیس اپنی مثال ایک ایسے درخت کی قرار دے رہا ہے جس کی جڑیں ہل رہی ہیں اور جڑیں کمزور ہوتی جارہی ہیں ۔ ایسی حالت میں معلوم نہیں کہ وہ خود کو سنبھل پائے گا یا گر جائے گا اور یہ درخت بھی ایک ایسی زمین پر لگایا گیا ہے جس کی مٹی سے و بالکل ناآشنا ہے اس کی مثال ایک اجنبی کی طر ح ہے اور معلوم نہیں کہ اس زمین کی مٹی ان کے کمزور جڑوں کو طاقت بخشے گی یا نہیں۔ اور وہ اس اجنبی زمین کی مٹی پر رہ پائیں گے یا نہیں۔

قارئین کرام ! نفیس احمد لونؔ صاحب کا یہ کلام معرو ف گلوکار صابر شُٹکو نے گایا ہے ۔ کلام اور اس کے الفاظ جس قدر وزنی ہیں ان کی افادیت کو دیکھتے ہوئے صابر شُٹکونے بھی اپنی آواز کا جادو جگا کر گلوکاری کا حق بھی ادا کردیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ کلام گلگت بلتستان کے ہر اس فرد کے زبان عام میں ہے جو شنا ء ادب سے دلی لگاؤ رکھتے ہیں ۔ گزشتہ اگست کو گلگت کے ایک مقامی ہوٹل میں پاکیزہ آرٹس اینڈ کلچرل کونسل کے زیر اہتمام جشن آزادی پاکستان کے حوالے سے ایک میوزیکل پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا جب صابر شُٹکو نے نفیس صاحب کا یہ کلام گایا تو آپ یقین کرلیں کہ پوری محفل کا سماں ہی بدل گیا اور ہزاروں کی تعداد میں شائقین جھوم اُٹھے ۔ قبل ازیں موصوف نے اسٹیج میں آکر نفیس صاحب کے بارے میں یہی الفاظ کہے تھے کہ” نفیس احمد لونؔ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اُبھرتے ہوئے نوجوان صحافی بھی ہیں صحافت میں آپ میرے شاگردضرور ہیں لیکن اس قدر وزنی شاعری اور شناء زبان کے گمشدہ الفاظ کے انتخاب نے مجھے یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ شاعری میں ہم ان کو استاد مانتے ہیں "۔

اپنی زبان کی اس قدر حفاظت کرنے اور شاعری کے ذریعے امن و اُخوت سمیت خوبصورت ماحول کے قیام کا پیغام دینے والے یہی شعراء پوری قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔ حکومت کو قوم کے ایسے عظیم ہیروں کی حوصلہ افزائی کے لیے عملی اقدامات اُٹھانا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ نفیس صاحب کی خداداد صلاحیت میں مذید طاقت بخشے۔ آمین

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button