سیاستکالمز

سانحہِ کارساز

تحریر: طالب حسین استوری

پاکستان پیپلزپارٹی کی جمہوری اور سیاسی تاریخ دکھوں،المیوں،صعوبتوں،ظلم و ستم، ڈنڈوں،کوڑوں،قید و بند حتی کہ خون آشامیوں سے بھری پڑی ہے۔لیکن ان تمام تلخ و دشوار ترین حالات کے باوجود پیپلز پارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ملک و قوم اور جمہوریت کی بقا،سلامتی و استحکام کی خاطر جو عظیم اور لازوال قربانیاں پیپلز پارٹی نے دی ہیں دنیا کی تاریخ میں اسکی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔

18 اکتوبر بھی پیپلز پارٹی اور مملکت خداداد کی تاریخ کا ایک ایسا ہی دن ہے کہ جب دخترِ مشرق شہیدِ جمہوریت پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید آمرِ وقت پرویز مشرف کے دور میں جمہوریت کے قریبْ المرگ بدن میں جان ڈالنے کی خاطر وطن واپس تشریف لائیں. حالانکہ اس وقت پرویز مشرف کی ناکام ترین خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی عروج پر تھی اور ملک غیروں کی جنگ کا میدان بنا ہوا تھا۔ہزاروں پاکستانی دہشتگردی کا شکار ہو کر شہید ہوچکے تھے۔ملک میں چار سو ناامیدی اور مایوسی کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی جان کو بھی واضح خطرات لاحق تھے۔مگر ان سب عوامل،خطرات اور واضح دھمکیوں کے باوجود مادرِ وطن کی مٹی کی محبت میں جب آپ کراچی پہنچیں تو ملک کے چَپے چَپے سے آئے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے تاریخی استقبال کیا۔آمریت کا تخت لرزنے لگا،جمہوریت کی شمع روشن ہونے لگی،پاکستان سے نا امیدی اور مایوسی کے اندھیرے چَھٹنے لگے اور امید کی کرن پیدا ہونے لگی۔اسی دوران ملک دشمنوں کی جانب سے بزدلانہ وار کئے گئے۔نہتے عوام کو خاک و خون میں نہلایا گیا۔سینکڑوں کارکنوں نے جامِ شہادت نوش کیا اور سینکڑوں کارکن زخمی ہوگئے اور درجنوں زندگی بھر کیلیے معذور ہوگئے۔عمومی طور پر جب کہیں کوئی دہشتگردی ہوتی ہے تو لوگ جان بچانے کی خاطر بھاگ جاتے ہیں لیکن سلام ہو وطن عزیز کے ان عظیم سپوتوں اور جانثاران پر جنہوں نے بکھری لاشوں اور بہتے ہوئے خون کے باوجود اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنی عظیم قائد اور چاروں صوبوں کی زنجیر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حفاظت کی خاطر انکے گرد انسانی حصار قائم کر لیا۔
بقول شاعر
خونِ دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب..
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے..

حالانکہ سانحہ کارساز دنیا کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی جماعت یا ریلی پر ہونے والا سب سے بڑا دہشتگردی کا واقعہ تھا۔لیکن مجال تھی کہ کوئی راہِ فرار اختیار کرتا۔کیونکہ وہاں موجود افراد کو ایمان کی حد تک یقین تھا کہ وہ ایک طالع آزما کے خلاف ملک و قوم کی بقا کی خاطر اور جمہوریت کے استحکام و تسلسل کے مشن پر نکلے ہیں۔اور وہ کارکن اس عظیم سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے جس کی تاریخ قربانیوں اور جہدِ مسلسل سے بھری پڑی ہے اور جس نے قدم قدم پر آمریت کی آندھیوں کے سامنے شہادتوں کے چراغ روشن کئے ہیں۔جنہوں نے کوڑے کھائے جیلیں کاٹیں جن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔انکا تعلق اس جماعت سے ہے جس کی بنیاد سچائی،نیک نیتی،خلوص اور حبْ الوطنی کے جذبے سے رکھی گئی ہے۔انکا تعلق اس جماعت سے ہے جو وفاقِ پاکستان کی علامت ہے جس نے چاروں صوبوں کو ایک لڑی میں پْرویا ہوا ہے۔وہ اس عظیم قائد کے پیروکار ہیں جس نے دنیائے اسلام اور مادرِ وطن کی سر بلندی کی خاطر عالمی طاقتوں کو للکارا جس نے پاکستان کو ناقابلِ شکست دفاعی طاقت سے نوازا جس نے چند طاقتوں کی عالمی بالادستی کے خلاف تیسری دنیا کو متحد کیا۔جس نے اتحادِ امتِ مسلمہ کے خواب کو عملی تعبیر بخشا۔جس نے عالمی طاقتوں کے آلہِ کار ضیاء4 الحق کے خلاف کلمہ حق بلند کیا انکی حکومت برطرف کی گئی۔حتی کہ اسے دس سال کا معاہدہ کر کے جان بچا کر ملک سے جانے کی پیشکش کی گئی مگر اس مردِ آہن،قائدِ عوام نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور کہا کہ میں اسی مٹی کی پیدائش ہوں اور اسی مٹی میں دفن ہونا پسند کروں گا۔ایسے لازوال جذبے سے سرشار لوگوں نے کارساز کی دہشتگردی کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔کیونکہ مقاصد عظیم ہوں تو پائے استقلال میں ذرہ برابر بھی لغزش نہیں آتی۔ایسے لوگوں کو قتل کیا جاسکتا ہے مگر ارادوں اور جذبوں کو شکست نہیں دی جاسکتی۔
کسی شاعر نے کیا خوب منظر کشی کی ہے۔
چْھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو..
بدن کی کی موت سے کردار مر نہیں سکتا..

پاکستان کی سیاسی اور جمہوری تاریخ پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین اور ہزاروں کارکنوں کے لہو کی سرخی سے درخشاں ہے۔اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آج اگر ملک میں جمہوریت کا سفر جاری و ساری ہے تو وہ پاکستان پیپلز کے مرہونِ منت ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button