کالمز

چترال پولیس سے گذارش ہے

محمد جاوید حیات

دنیا کی واحد حقیقت اور طاقت قانون ہے جس کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے ۔۔اگر اس کی پاسداری ہو تو وہ قوم وہ گروپ وہ ملک ناقابل شکست ناقابل تسخیر اور قابل رشک بن جاتا ہے ۔۔قرآن عظیم الشان میں اللہ کے دیئے ہوئے قوانین جن کا اطلاق پہلے فخر موجوداتﷺ اور پھر آپﷺ کے خلافاؓ کے ہاتھوں اوج کمال تک پہنچے ۔۔دنیا کی تاریخ اس بات پہ گواہ ہے کہ عظیم قوموں کی پہچان قانون کی پاسداری میں ہے۔

ہمارے ملک خداداد میں بجا طور پر قوانین ہیں مگر ان کی پاسداری میں کوتاہی ہونے کی وجہ سے آئے روز مسائل زیادہ ہوتے جاتے ہیں ۔۔ہمارے ہاں قوانین نافذکرنے والے ادارے ہیں انتظامیہ عدلیہ ہے ۔۔ان کے پاس عملداری پاس داری ہے مگر افسوس عوام کی جم غفیر ان ثمرات سے محروم رہتی ہے ۔۔اس لئے دھائیاں ہیں ۔۔فریادیں ہیں۔

۔چترال پولیس اپنی مثالی شرافت اور اپنی فرض شناسی میں بے مثال ہے مگر بعض مجبور ہو کر انہی کو پکارا جاتا ہے کیونکہ قانون کے محافظ وہ ہیں ۔۔جان و مال کے محافظ وہ ہیں ۔۔برائیوں کو بیخ وبن سے اُکھاڑنے کا کام ان کو سپرد ہوا ہے ۔۔معاشرہ ایک بے ہنگم شور کا نام ہے ۔۔ایک بے ربط اجتماع ہے ۔اس کو ربط اور ترتیب میں ڈالنے کے لئے قانون ہوتا ہے قانون میں ایک طاقت ہے مگر اندازہ لگا یا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی اس طاقت کو پولیس کی شرافت کھا رہی ہے ۔۔قانون کی وہ روایتی طاقت کمزور ہوتی ہے ۔۔قانون وہ طاقت ہے جو جلوت وخلوت میں ایک جیسی طاقت رکھتی ہے ۔۔جو جہان ہے۔ قانون وہاں ہے ۔۔اور قانون کا احترام اس پہ لازم ہے ۔۔مگر ایسا نہیں ہوتا ۔۔انتظامیہ ٹریفک کے لئے کرایہ وضع کرتا ہے ۔۔ مگر کرایہ ڈرائیور کی مر ضی سے ادا کرنا ہوتاہے ۔۔مسافر اگر اس سے لڑ بھڑ جائے تو تھانہ جانا پڑے گا کیونکہ پولیس کہتی ہے کہ اگر ڈرائیور زیادہ کرایہ لے تو رپورٹ کریں ۔۔اب ایک بندہ اپنی مجبوری میں کہیں جا رہا ہے وہ اپنا کام چھوڑ کر ایک ڈرائیور سے کس طرح کیس لڑے ۔۔سوال ہے کہ یہ ڈرائیور قانون سے ڈرتا کیوں نہیں ہے ۔۔ہر ڈرائیور کے ساتھ ایک پولیس کا سپاہی ڈیوٹی تو نہیں کر سکتا ۔۔ٹریفک قانون میں بچوں کے لئے ڈرایونگ بند ہے ۔۔اٹھارہ سال سے کم عمر بچہ گاڑی بائیک لے کے روڈ پہ نہیں آسکتا ۔۔لیکن سوال ہے کہ اس قانون میں طاقت کیوں نہیں ہے کیا ہر بچے کے ساتھ پولیس کا ایک سپاہی ڈیوٹی کرئے گا ۔۔آئے روز حادثات ہوتی ہیں لیکن سڑکوں پہ اسی طرح رش ہے ۔۔ایک شہر ناپرسان ہے ۔۔ہم ایک والد کے ایک استاد کے ایک بڑے ہونے کی حیثیت سے اپنا کونسا کردار ادا کرتے ہیں ۔۔پولیس کے پاس ایک ڈنڈا ہوتا تھا ۔۔ایک خلوص ہوتا تھا اس کو ’’پولیس گردی ‘‘ کا نام دیا گیا ۔اور پولیس کو اس قانوں کی گرفت میں دینے کی کوشش کی گئی جس میں روح تک نہیں اور مجرم اسی قانون کا سہارا لے کر دندناتا پھرتا ہے ۔ایک بچہ جو بائیک لے کے روڈ پہ آتا ہے ۔۔پولیس اس کی سرزنش کر تی ہے ۔۔اس کا باپ اسی سرزنش کو پولیس گردی کہتا ہے۔۔یہی بچہ اگر اکسیڈنٹ ہو کے مر جائے تو وہی باپ پھر پولیس کو الزام لگاتا ہے ۔۔کہ قانون نہیں ہے ۔۔اس وجہ سے شکوہ کرنا پڑتا ہے کہ قانون کی پاسداری میں رو رعایت تصور سے بالا ہے ۔۔

قرآن کی رو سے گذری ہوئی قومیں اشراف اور غربا میں فرق کرتے تھے یہی فرق ان کو لے ڈوبا ۔۔۔فخر موجوداتﷺ نے فرمایا ۔۔اگر میری بیٹی [اتفاق سے اس عورت کا نام بھی فاطمہ تھا ]چوری کرتی تو محمدﷺ اس کا ہاتھ کاٹ دیتے ۔۔بس پولیس کا ایک حکم ہو کہ آج کے بعد کوئی بچہ بائیک نہیں چلائے گا ۔۔خواہ وہ امیر کا بیٹا ہو ،غریب کا ہو ۔۔آفیسر کا ہو ماتخت کا ہو ۔۔اسی قانون کو اپنا محافظ سمجھ کر والدین بھی اس پہ عمل کریں اور دوسرے سب افراد ۔۔اس وجہ سے چترال پولیس سے گذارش ہے کہ قانون کا ہاتھ مضبوط ہوں اور کسی کی جرات نہ ہو کہ وہ قانون شکنی کرے ۔۔پرُامن اور مہذب شہریوں کا یہ خواب ہے کہ قانون کی حکمرانی ہو ۔۔۔ چترال امن کا تاج محل ہے اس لئے یہاں پہ قانون کا احترام بھی مثالی ہونا چاہئے ۔۔ہمیں چترال پولیس پہ فخر ہے ۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button