ماحولکالمز

گلگت بلتستان میں جنگلات کی اہمیت اور بے دریغ کٹائی

 تحریر: مفتی ثناء اللہ انقلابی, نمبردار میدان چکر کوٹ سئی بالا

خلاق عالم نے امر کن سے کائنات کو وجود بخشا یوں کائنات کا ذرہ ذرہ نیست سے ہست کا خوبصورت لباس زیب تن کرتا ہوا صفحہ ہستی پر منصہ شہود میں ظہور پذیر ہو کر دست قدرت کی صَنّاعی کا ثبوت فراہم کرتا ہے ۔ کائنات کی رنگا رنگی، بو قلمونی، گلوں کی خوشبو، چمنستان دھر میں ہر سو پھیلا سبزہ گل بوٹے اور درخت ، زمین کا خوبصورت زیور نسل آدم ؑ کو دعوت نظارہ دیتے نظر آتے ہیں۔یوں کائنات کا خوبصورت منظر انسانی زندگی کی بہتر نشوونما کے لئے حیات انسانی کا جزو لا ینفک بن جاتا ہے ۔ چنانچہ جسم انسانی کے اندر زندگی کی روانی کا عظیم تعلق آکسیجن کی شکل میں دنیا بھر میں پھیلے جنگلات کے درختان فراہم کرتے ہیں ۔ انسان کے سانس کی ڈوری اس وقت کٹ جاتی ہے جب آکسیجن نا پید ہوتا ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ زندہ رہنے کے لئے آکسیجن کا مخصوص مقدار میں کرہ ارض پر ہونا ضروری ٹھہرا اسلئے تو اجرام فلکیہ کے ماہرین نے نے نظام شمسی پر برسہا برس گہرائی کے ساتھ تحقیق کر کے بتایا کہ ہماری زمین سے کروڑوں درجہ حجم رکھنے کے باوجود زمین کے علاوہ کوئی سیارہ ایسا نہیں جس میں زندگی کی نشوونما کا امکان ہو کیونکہ وہاں سب کچھ ہونے کے باوجود صرف ایک چیز کا فقدان ہے اور وہ ہے آکسیجن کیونکہ آکسیجن ہمیں جنگلات سر سبز و شاداب درختان فراہم کرتے ہیں لہٰذا ضروری ٹھہرا کہ زمین کے ہر خطے میں 30فیصد جنگلات موجود ہوں۔

چونکہ حیات انسانی ہر لمحہ زیور زمین جنگلات کے درختان کے محتاج جو ٹھہرے ۔راقم الحروف ترقی پذیر ممالک میں نسل آدم پر حکمرانی کرنیوالے انسانوں کے جم غفیر پر نظر دوڑاتا ہے تو حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ اربوں ملین ڈالر انسانی زندگی کی نشوونما اور بقا کے لئے لٹا رہے ہیں ، ہسپتالوں میں جان بلب مریضوں کو جدید مشینوں کے ذریعے آکسیجن فراہم کر رہے ہیں ، موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے ریسرچ کر کے عالمی سطح پر گرمی کی شدت کو ریکارڈ کر کے مستقبل کے خطرات کی پیش گوئی کی جاتی ہے اور پیش بندی کی تجاویز پر ضحیم کتابیں دائرہ تحریر میں لائی گئیں ہیں مگر جنگلات کا حجم روزبروزگھٹتا جا رہا ہے۔ جدید برقی آلات کے ذریعے جنگلات کی تباہی کے سامان مارکیٹوں میں بیچا اور خریدا جا رہا ہے ۔ بے زبان جنگلات کے درختان تحفظ جنگلات کی کمیٹیوں اور محکمہ فارسٹ کی موجودگی میں کاٹے جا رہے ہیں مگر تعجب ہے ہمیں آکسیجن فراہم کرنے والے جنگلات کی بے دریغ کٹائی پر کوئی توانا آواز بلند ہوتی دکھائی نہیں دیتی، پرنٹ میڈیااور الیکٹرونک میڈیا پر سیاسی شعبدہ بازیگروں کی گھنٹوں پر مبنی ٹاک شوزجاری رہتے ہیں ، مذہبی ادارے بات بات پر فتوؤں کی بھرمار کرتے نظر آتے ہیں مگر صد افسوس کوئی بھی اینکر پرسن اور کوئی بھی میڈیا ادارہ ان بے زبان درختوں کے قتل عام پر بولتا اور لکھتا ہوا نظر نہیں آتا۔ آخر کیوں ہم نے یہ چپ سادھ رکھی ہے انسانی زندگی کو تباہ کرنے والے ان ٹمبر مافیاز کے خلاف کوئی ادارہ حرکت میں کیوں نہیں آتا ہم ماحول کی آلودگی کا رونا روتے ہیں سیلاب زدگان کی مدد کیلئے بیرون ممالک سے امداد بٹورتے ہیں مگر سیلاب آنے کا سب سے بڑا سبب تو جنگلات کا کٹاؤ ہے زمین کا حسن ماند پڑتا ہے جب زمین کا یہ خوبصورت زیور چند ٹکوں کی خاطر کاٹ کر منڈیوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔

سینۂ اقتدار پر براجمان وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان، چیف کورٹ کے جج صاحبان، چیف سیکریٹری گلگت بلتستان، ایف سی این اے فورس کے کمانڈر صاحبان خدا را ہمارے اس خطے کے محدود جنگلات کی حفاظت کیلئے ذمہ داران کی گوشمالی کریں گاؤں سطح پر درختوں کی کٹائی کے نقصانات سے عوام کو شعور دینے کیلئے نمبرداران ایسوسی ایشن جی بی کی مدد سے فوری طور پر تحصیلداروں کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ شعوری تحریک کی قیادت سنبھالیں۔ایک ایسی ٹیم تشکیل دی جائے جو جنگلات کے اطراف میں موجود عوام کو آگاہ کریں کہ یہ جنگلات انسانی زندگی کیلئے کتنے اہم ہیں اور کٹائی کیلئے کیا اثرات اور نقصانات ہیں۔نمبرداران ایسوسی ایشن گلگت بلتستان حکومت وقت کو اس اہم قومی اثاثے کو محفوظ کرنے کیلئے چند تجاویز دیتی ہے اگر مناسب سمجھیں تو قوم کی آواز سمجھ کر ان تجاویز کو انسانی زندگی کے بقا کیلئے بطور تعویز قدردانی کے ساتھ غور فرمائیں

۔۱۔ گلگت بلتستان میں اکثر ایسے علاقے ہیں جہاں چٹیل میدان ہیں وہاں زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں جائیں۔درختوں کی بڑھوتری جن پہاڑوں پر ممکن ہے وہاں نئے سرے سے چیڑ اور دیار کے درختوں کو اگایا جائے۔۲

۔ 2جن جنگلات میں ٹمبر مافیاز بے دریغ کٹائی میں مصروف ہیں وہاں کے نوجوانوں کو فوری طور پر سی پیک میں مستقل ملازمتیں دیکر ترجیحی بنیادوں پر ان علاقوں کے 80فیصد جوانوں کو فوری طور پر روزگار فراہم کیا جائے تاکہ جنگل کی کٹائی کا راستہ بند ہوسکے خصوصی طور پر سئی بالا چکر کوٹ نلتر، کارگاہ حراموش دیامر اور استور کے باقی ماندہ جنگلات کا تحفظ کرنے کیلئے نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے

۔3۔ برقی مشینوں پر پابندی عائد کی جائے

۔4۔ نیب کے ذریعے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے

۔5۔ ان علاقوں میں بہترین تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے

۔6۔ ہر یونین کونسل میں نمبرداروں کے ذریعے ایسے پروگرامز ترتیب دئے جائیں جن میں خواص کی بجائے عوام الناس کی شرکت یقینی بنا کر جنگلات اور ماحولیات کے حوالے سے لوگوں کو باقاعدہ دو سال تک مسلسل شعور دیا جائے

۔7۔ قانون پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے عمائدین علاقہ سے ملکر نمبرداران کی سربراہی میں تحفظ جنگلات کمیٹیوں کو اختیار دے کر مضبوط بنایا جائے

۔8۔ اداروں کے اندر سفارش اور رشوت کلچر کو یکسر ختم کیا جائے

۔9۔ بیروزگار نوجوانوں کے ہاتھوں سے آرے اور کلہاڑے اور الیکٹرانک مشین چھین کر کتاب تھمادی جائے تاکہ فطرت کے قریب ترین پرورش پانے والے یہ ذہین ترین لوگ پڑھ لکھ کر ملک و قوم کی بہتر خدمت کرسکیں۔

ایک حقیقت ہے جو آشکارہ ہوا چاہتی ہے۔میرا مقصد کسی کی آبرو ریزی نہیں ہے۔
اپنے ہی ہاتھوں سے پیڑ جلا کے تمام عجیب لوگ ہیں سائے کی تلاش میں رہتے ہیں

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button