صحتکالمز

گلگت بلتستان میں غذأیت کے رجحانات اور اثرات (قسط1 )

ڈاکٹر نادر شاہ، پروگرام کنسلٹنٹ پلاننگ ا ینڈ ڈولپمنٹ (SUN Unit)

زمانہ ماضی قریب میں گلگت بلتستان کے مخصوص علاقے اپنی غذائی عادات اور طرززندگی کی وجہ سے دنیا بھر میں اپنی صحت اور طویل العمری کیلئے مشہور تھے۔

اسی وجہ سے جرمنی کے مرد آہن ایڈولف ہٹلر اور اسکے نازی کمانڈر ہینرچ ہملر نے 1930ء میں GB کے مخصوص علاقوں میں ماہرین غذائیت کو بھیج کر ان غذاؤں کو اپنانے اور ترغیب دینے کی حکمت عملی ترتیب دی تھی اور باور کیا گیا ہے کہ ان لوگوں کے خوراک کا زیادہ تر تناسب خوبانی سے بنے ہوئے اجزا پر مشتمل تھیں۔ ماہرین غذائیت اس پر متفق ہیں کہ خوبانی میں موجود وٹامن B17 ہی کے اثرات میں انسانی صحت اور طویل العمری کا راز کارفرماہے۔

GB کسی زمانے میں دنیا کا ایک الگ تھلگ علاقہ سمجھا جاتا تھا۔لیکن اب زمانے کے بدلتے ہوئے معاشی تبدیلی اور مارکیٹ پر انواع قسم کے غذائی اشیا کی یلغار کی وجہ سے علاقے کے لوگوں کے صحت اور طویل العمری کے راز قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ ابھی ان بدلتے ہو ئے غذائی عادات کی وجہ سے ان علاقوں کے باسیوں میں غذا سے متعلق تمام بیماریوں میں معدانیات کی کمی، موٹاپا اور مجموئی غذائی کمی کے اثرات بڑی تیزی سے وقوع پزیر ہورہے ہیں۔ اور یہی وہ وقت ہے جب لوگوں میں بہتر غذائی شعور پیدا کرکے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
غذائیت کے اعتبار سے انسانی تہذیب کے مختلف ادوار کے مطالعے سے ہمیں نمایاں طور پرچار ا دور نظر ٓاتے ہیں۔ جن میں ابتدائی انسان کے بحثیت ایک وحثی شکاری کا دور، دوم بحیست گلہ بان، سوم بحثت کاشتکار اور موجودہ بحثیت صنعتکار نمایا ں ہے۔انسان کے ان چار ادوار کے مطالےئے سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں انسان کی خوراک ہمیشہ غیرمتوازن رہا ہے جسکی وجہ سے انسانی صحت متاثر ہونے سے وہ کبھی بھی پنی طبعی عمرنہ پا سکا ۔

ابتدائی دور میں بحثیت ایک وحشی شکاری، انسان کا گزربسر جنگلی جانوروں، پرندوں اور مچھلی کے شکار پر ہوتا تھا جوکہ زیادہ تر گوشت اور چربی پر مثتمل ہونے کی بنا بلکل ایک غیر متوازن غذا کہلاتی تھی۔ دوسرے تہذیبی دور میں بحثیت گلہ بان بنی نوح انسان جانوروں کو سدھانے کے قابل ہوا اور وافر مقدار میں گوشت اور دودھ میسر آنے لگا لیکن پھربھی اسکا خوراک زیادہ تر لمحیات پر مثتمل ہونے کی وجہ سے غیر متوازن رہا۔
جب انسان نے بتدریج کاشتکاری کا ہنر سیھک لی اور ضروری اجناس اُگانے لگا تو اس نے نشاستہ اور تھوڈا بہت روغنیات کو اپنا مرغوب غذا بنایا اور پھر بھی اس میں بنیادی ضروری خوراک کو متوازن بنانے کا شعور اُس میں پیدا نہی ہوا اور اس ضروری غذا کی کمی کے باعث مختلف بیماریوں سے دوچا ر رہا ۔ موجودہ انسان معاشی ترقی کے آخری یعنی صنعتی دور میں داخل ہوچکا ہے۔ جسے انواع قسم کے خوراک میسر ہیں۔لیکن غذائیت کے ضروری اجزاء سے نابلد ہونے کی بنا اور اپنی علاقائی ترجیحات کی وجہ سے ایک متوازن غذاکو اپنا معمول بنانے میں صرحیے طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ایک طرف ترقی یافتہ ممالک میں غذائی اجناس کے انبار لگے ہوئے ہیں لیکن غیر متوازن غذا کے استعمال سے ان میں شوگر کے بیماریاں، بلڈپریشر، گھٹیا، دل کی بیماریا ں عام ہیں اور دوسری طرف غیر ترقیا فتہ ممالک میں ضروری غذائی عناصر کی کم رسائی، بنیادی غذائی معلومات سے لاعلمی اور حکومتی سطح پر غذائیت سے متحلق ترجہات سے اجتناب کی وجہ سے سے یہ ممالک شدید متاثر ہیں۔

گلگت بلتستان جیسے پس ماندہ علاقے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جسکی وجہ سے ہمارے علاقوں کے بہت حساس طبقے خاص طور پر بچے اور خواتین میں وٹامنز اور معدا نیات کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی، ہڈیوں کی کمزوری ، آیوڈین کی کمی نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں۔

گلگت بلتسان میں پانچ سال سے کم عمر کے 46.2% (MICS-2016)بچے پست قد کے ہیں جوکہ پورے ملک میں سب سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک نہایت پریشاں کن امر ہے۔

ایک متوازن غذا ء میں انسانی خوراک کے لئے کم از کم چھ گروپس کا ااستعمال ناگزیر سمجھا جاتاہے۔ تاکہ ان گروپس سے انسانی نشونما کے لئے وافر مقدار میں نشاستہ، لمحیات ، روغنیات، معدا نیات، وٹامنز، پانی اور ریشہ دار اجزااپنی غذا میں تناسب رکھیں۔ متوازن غذا سے اس وقت مکمل افادیت حاصل ہوسکتی ہے جب عمر، جنس، جسمانی مشقت اور زہنی تقاضوں کے مطابق اپنی غذا متوازن رکھیں۔ متناسب غذا کے متعلق سائنسی اور آفاقی علم میں واضع طور پر تسشہر کی گئی ہے تاکہ انسان کس طرح صحت مند رہتے ہوئے اپنی طبعی طویل العمری کو پہنچ سکتا ہے۔ ائیے سب سے پہلے اسکاجائزہ کریں کہ ہماری آفاقی کتاب میں مناسب غذا کے بارے میں کن احکامات کا درس ہے جن پر عمل کرنے سے ہم لمبی عمر پاسکتے ہیں۔

بحیثیت مسلمان ہم اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شکرادا کرنے کے لیے قرآن مجید کی ان آٹھ سورتوں کا ذکر کرتے ہیں تاکہ بنی نوع انسان کے لیے پیدا کی گئی مکمل غذاؤں کے بارے میں ادراک ہوسکے۔

قران کی ایات نمبر168اور سورہ نمبر2 میں اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کے بارے میں انسانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے حلال اور حرام کے بارے میں اشارہ فرماتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ہمیں وہ خوراک کھانی چاہیے جو پاک ہو۔ دوسرے حصے میں یہ آیات مقدسہ بنی نوع انسان کو اس رزق یعنی خوراک کے بارے میں ہمیں ہدایت فرماتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے صاف اورر شفاف حالت میں پیدا کی ہیں جیسے گندم ، دالیں،۔۔ چھلکے والے پھل۔
ا یک اور آیت میں اللہ تعالیٰ بنی نوح انسان کو حرام حلال کھانے اور پینے کے بارے میں منع فرماتے ہیں۔ ۔۔۔۔(Sura Baqra 60)

یہاں خالق انسانوں کو ناقص ، ملاوٹ والا خوراک ،غیر معیاری اور حرام اشیاء کے بارے میں تنبیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہیں۔ مختلف احادیث میں حیوانی خوراک کی اہمیت کے بارے میں اشارہ فرماتے ہیں جو انسانوں کے لیئے صحت مند ، پاکیزہ اور غذایت سے بھر پور ہیں جیسے ۔۔۔ انسانوں کے لیے مویشی پیدا کیے جو آپ کو گرم رکھتے ہیں، اور خوراک کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔(Quraan 16:5) اور مختلف جگہوں پر قران مجید میں یہ ذکر ہے کہ ۔۔۔ یہ وہی ہے جس نے سمندروں میں تمہارے لیے خوراک پیدا کیا جیسے کھانے کے لیے تازہ مچھلی پیدا کی۔(Quraan 16:14)۔۔کوئی بھی خوراک تب تک مکمل غذا یعنی Balanced Diet نہیں کہلاتی جب تک اس میں اناج، جانوروں کا گوشت اور مناسب مقدار میں پھل شامل نہ ہوں۔ لہذا یہٰاں ایک اور آیت ان پھلوں اور اناج کی اہمیت کے بارے میں تصدیق کرتی ہے کہ ۔۔۔ اور یہ وہی ہے جس نے آسمانوں سے پانی برسایا جس کی وجہ سے اناج ، زیتون ، کھجور اور انگور اور دوسرے بہت سارے پھل پیدا کیے۔ (Quran 16:11)اللہ تعالیٰ کی قدرت ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ جس نے جنس و انس کے لیے خوراک کے وسیع ذخائر پیدا کیے ۔۔۔ اور یہ وہی ہے جس نے باغات پیدا کیے جس میں کھجور کے درخت، فصلیں اور مختلف شکلوں اور مزے کے پھل اور بیج پیدا کیے (جو شکل میں مختلف اور مزے میں الگ ہیں) اور زیتون ، اور انار اور مختلف اقسام کے کھانے اور پینے کی اشیاء پیدا کیں۔ (Quran 6:141)

قران پاک میں مختلف قسم کے پھلوں، سبریوں ، گوشت اور پینے کی اشیاء کا ذکر کثیر ہے جس کی روزمرہ کے کھانوں میں ان کی شمولیت سے انسان صحت مند اور توانا رہنے کے لیے لازمی ہے۔ایک دوسری آیت مقدسہ میں خالص دودھ کی غذایت کے بارے میں ذکر ہے۔ (Quran 16:66) سائنس کی تازہ تحقیق نے بھی غذایت سے بھرپور خوراک کے بارے میں تصدیق کی ہے۔ جس میں غیر معیاری خوراک کی نفی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ایک صحتمند زندگی کے لیے غذایت سے بھرپور خوراک لازمی قرار دی گئی ہے۔

قرانی تعلیمات اور سائنسی تجربات ہمیں درس دیتی ہیں کی ایک صحت مند جسم اور روح کے لیے غذایت سے بھر پور خوراک بہت ہی لازمی ہے ۔ انسانوں کی ترقی اور معاشی ترقی کی ترجیحات میں صحت ، اور آبادی ، معاشی ترقی اور غربت کی تحفیف کے بارے میں صحتمندانہ پالیسیاں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ خوراک کی وافر مقدار اور پیداور غذا اور غذایت کی اہم کنجی ہے۔حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے۔ جہاں ناقص غذایت کا استعمال عام ہے۔

گلگت بلتستان میں 2011 کے تناظر میں غذائی ماہرین کے مطابق وہ بچے جن کو بھرپور غذائیت والی خوراک نہیں ملتی ان کی ذہنی بالیدگی اور سیکھنے کے عمل میں کمی واقع ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے پر برے اثرات پڑتے ہیں۔

غذائیت اور اس سے متعلق موثر حکمت عملی وضع نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان بالعموم اور گلگت بلتستان بالخصوص کو غذایت کے بارے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے ۔ یہ بات پریشان کن ہے کہ گلگت بلتستان میں 5 سال سے کم عمر کے بچوں کی قد 46.2% اوسط پست ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گلگت بلتستان کو ایک عرصہ سے غذائی قلت کا سامنا رہا ہے۔جس کی وجہ سے جسمانی قد میں کمی اور وزن میں کمی دیکھی گئی ہے اورگلگت بلتستان میں قد کے لحاظ سے وزن میں کمی(wasting) (MICS-2016)3.8% فیصد ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کم ہے مگر پھر بھی پریشان کن ہے۔

گلگت بلتستان میں (MICS-2016)30.5%فیصد بچے پیدا ہوتے وقت معیاری وزن سے کم ہیں جس کی وجہ ماؤں میں غذایت سے بھرپور خوراک کی کمی ہے۔ سروے کا نتیجہ ہمیں بتاتا ہے کہ جن بچوں میں غذائی قلت کی وجہ سے کمیاں پائی جاتی ہیں ان میں وٹامن A، فولاد، زنک، آیوڈین اور وٹامن Dقابل توجہ اور قابل ذکر ہیں۔ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ غذائی قلت کی وجہ سے جو اثرات بچوں کی صحت پر پڑتی ہیں وہ نہ صرف غذا ئی کمی ہیں ؂ جس کی وجہ سے بچوں کی قد میں نمایاں اضافہ نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کی ذہنی اور جسمانی نشونماء میں کمی واقع ہوتی ہے۔کلی طور پر یہ کہ غذائی کمی اور غیر موزوں خوراک بچوں میں شرح اموات میں اضافہ کا باعث بنتی ہے جن میں بچوں کو مناسب خواراک کی عدم فراہمی، صفائی کی سہولیات کی عدم فراہمی شامل ہیں جس کی وجہ سے غذائی قلت میں اضافہ، صحت کے بارے میں کم علمی یا ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں صحیح معلومات کا نہ ہونا شامل ہیں۔

نیشنل نیوٹریشن سروے (NNS2011)کے مطابق گلگت بلتستان کے لیے ایک کثیر الجہتی سمت کا تعین کیا گیا ہے جس میں اس مسئلے کے پائیدار حل کے لیے تجاویزمرتب کی گئی ہیں جس میں فوری طور پر غذائی قلت سے نمٹنے کیلے پائیدار حکمت عملی وضع بنائی جائے گی۔

یہ بات اخذ کی گئی ہے کہ بہت سارے بچوں کو غذایت سے بھرپور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے پہلے دوسالوں میں ان کی ذہنی بالیدگی یعنی (Brain Development)نہیں ہوتی جس کی وجہ سے سکول میں اور سکول سے باہر بچوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور اس وجہ سے ان کی معاشی پیداواری صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔بھرپور غذائی خوراک نہ ملنے کی وجہ سے یہ بچے عمر بھر کے لیے صلاحیتوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔معاشی اثرات کی وجہ سے بھی GDPمیں 3 فیصد کمی دیکھی گئی جہاں موجودہ توانانئی کے بحران کی وجہ سے GDPمیں 2فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ جبکہ اس میں ایک فیصدی سرمایہ کاری سے 16فیصد تک اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔روایتی طور پر غذایت کو محکمہ صحت کی زمہ داری سمجھا جاتا ہے لیکن حالیہ ریسرچ کے مطابق اس کو کثیر الجہتی گرادانا گیا ہے۔ گلگت بلتستان میں پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کے ماہرین اور مختلف الجہتی ترقیاتی پارٹنرز نے باہم مل کر ایک حکمت عملی وضع کی ہے جس میں مختلف طریقوں کے غذائی طور طریقوں سے استفادہ کیا جائے گا۔

2013میں اپنائی جانے والی قومی غذائی حکمت عملی کے مطابق گلگت بلتستان حکومت نے صوبائی سطح پر ان امور کو اپنانے اور ان پر عمل درامد کرنے کے لیے یونیسف (UNICEF) کے تعاون سے SUN Unitکے نام سے پلاننگ اینڈ ڈویلمنٹ ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان میں ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ ا س کا کام مختلف شریک کاروں کو ایک ایک جگے جمع کرنا اور ان سے زیادہ سے زیدہ فوائد حاصل کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیاکرنا ہے جس میں عمومی مقاصد کے حصول کے لیے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں غذائت کی بھر پور عملی اقدامات کی جائیں گی۔ ان امور میں ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں براہ راست اقدامات کی جائی گی جس سے ماں اور بچے کی صحت، خوراک ، صحت سے متعلق دیگر سہولیات کی فراہمی جیسے پروگرام شامل ہیں۔

جاری ہے۔۔۔

 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button