کالمز

گلگت بلتستان کو دستیاب مواقع اور درپیش مسائل

تحریر: امیرجان حقانیؔ

یکم نومبر’’یومِ آزادیِ گلگت بلتستان ‘‘ہے۔ ۱۹۴۷ء کو آج کے دن گلگت بلتستان کو ڈوگرہ راج کے تسلط سے آزادی ملی تھی اس لیے یہ دن پورے گلگت بلتستان میں احترام وعقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔اور اپنے قومی ہیروز کو سلامِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔محکمہ ایجوکیشن کالجز ،گلگت بلتستان کے تمام بوائز و گرلز کالجز کے طلبہ و طالبات کے درمیان تقریری و تحریری مقابلوں کا انعقاد کرتا ہے جس میں تینوں ڈویژنوں کے طلبہ و طالبات حصہ لیتے ہیں۔اس سال یوم آزادی کے موقع پر بھی ایک بہت بڑا میگا ایونٹ ’’ تقریبِ یومِ آزادیِ گلگت بلتستان ‘‘کے عنوان سے فاطمہ جناح ویمن کالج گلگت میں وزیراعلی گلگت بلتستان کی صدرات میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔وزیراعلی گلگت بلتستان جناب حافظ حفیظ الرحمان نے اختتامی تقریر کرتے ہوئے سامعین کے دل جیت لیے۔ان کی تقریر بہت مختصر تھی مگر مکمل مدلل بھی تھی۔عوامی احتسابی عدالت میں خود کو پیش کیا اور خصوصیت کے ساتھ کہا کہ ہماری قوم باشعور ہوچکی ہے جو مخالفین کے ساتھ ہمارا بھی احتساب کرنا جانتی ہے ۔ محکمہ ایجوکیشن کی دل کھول کر تعریف کی۔اور یہ بھی کہا کہ بڑے سرکاری عہدہ داروں کو گارڈ آف آنر پیش کرنے کے بجائے پوزیشن ہولڈ طلبہ و طالبات کو یادگار شہدا میں گارڈ آف آنر پیش کیا جائے گا۔

محکمہ ایجوکیشن کے فعال سیکرٹری حاجی ثنا اللہ اورڈائریکٹر کالجز پروفیسر منظورکریم نے تقریب یومِ آازادی شاندار طریقے سے منانے کے لیے ایونٹ منیجمنٹ کمیٹی، فنانس کمیٹی، لوجسٹگ کمیٹی، ریفریشمنٹ کمیٹی،سرٹیفیکٹ اور شیلڈ ڈسٹربیوشن کمیٹی، میڈیا کمیٹی، اسٹیج ڈیکوریشن کمیٹی، سیکورٹی کمیٹی اورانٹرنل ڈسپلین کمیٹی وغیرہ کمیٹیاں تشکیل دے کر ان کے فوکل پرسن متعین کیے تھے۔ راقم الحروف بھی میڈیا کمیٹی کاحصہ تھا۔تمام کمیٹوں نے فعالیت کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے جس کی وجہ سے ایک شاندار پروگرام حسن و خوبی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔تحریری مقابلے کا عنوان’’ آزادی کا تحفہ اور اس کی بقا کے لیے ہمارا فریضہ ‘‘جبکہ تقریری مقابلے کا عنوان’’ گلگت بلتستان کو دستیاب مواقع اور درپیش مسائل‘‘ نوٹیفکیشن کے ذریعے ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن سے منظور ہوا تھا۔ تحریری مقابلوں میں پہلی پوزیشن فاطمہ جناح ویمن کالج گلگت کی فاطمہ بتول، دوسری پوزیشن گرل کالج گاہکوچ کی طالبہ کلثوم اکبرا ور تیسری پوزیشن گرل کالج اسکردو کی عارضہ بتول نے حاصل کی ۔ تقریری مقابلوں میں گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج گلگت مناورکے طالب علم حسنین قاسمی نے پہلی پوزیشن، گرل کالج گاہکوچ کی مہوش سرور نے دوسری پوزیشن اور انٹرکالج شگر کے شبیر احمد تیسری پوزیشن حاصل کی۔ مجموعی طور پر طالبات نے میدان مار لیا۔طالبہ طوبی بہرام نے بھی بہت اچھی تقریر کی تھی۔میں یہ کہنے پر حق بھی جانب ہوں کہ گلگت بلتستان کی خواتین میں بھی بے تحاشا ٹیلنٹ ہے۔ ہر فیلڈ میں خود کو منوا چکی ہیں۔ تحریر ی مقابلے میں حصہ لینے والے طلبہ و طالبات کی تحریروں کی چانچ پڑتال ہم نے کی۔ میڈیم ثریا حسن،میڈم حمیرایاسمین ،پروفیسر تہذیب الحسن اور راقم الحروف نے منصفین کے فرائض انجام دیے۔ بطور منصف نتائج کا اعلان میں نے کیا۔ جبکہ تقریری مقابلوں کے مصنفین کی حیثیت سے بطور چیف جج سیکریٹری ایجوکیشن حاجی ثنا اللہ جبکہ غلام عباس نسیم، میمونہ عباس خان، اور نظیم دیا ؔ نے ممبران کے فرائض انجام دیے۔ نتائج کا اعلان غلام عباس نسیمؔ نے کیا۔ڈائس کے فرائض احمد سلیم سلیمی، اشتیاق احمد یاد اورمیڈیم فاطمہ نے انجام دیے۔میزبان کالج کے طور پر فاطمہ جناح ویمن کالج کی پرنسپل ، تمام فیکلٹی ممبران اور طالبات نے تقریب کے انعقاد میں بھرپور مدد کرکے سب کے دل جیت لیے۔تقریری مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم کی تیاری اور تقریر لکھنے کی ذمہ داری ڈگری کالج کی طرف سے مجھے ملی تھی۔موضوع کے مناسبت سے مختصر وقت کے لیے مختصر تقریر لکھی جس کو افادہ عامہ کے لیے من و عن پیش کی جارہی ہے۔ملاحظہ کیجیے۔

محترم جناب صدر محفل!معزز مہمانان گرامی،ارباب علم ودانش، میرے واجب الاحترام اساتذہ کرام اور میرے ہم سفر دوستو
السلام علیکم ورحم اللہ وبرکاتہ!
آج یوم آزادی گلگت بلتستان کے حوالے سے اس خوبصورت محفل کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اس جذبہ بھری محفل میں جس عنوان پرمجھے لب کشائی کا شرف حاصل ہورہا ہے وہ ہے ’’گلگت بلتستان کو دستیاب مواقع اور درپیش مسائل‘‘ ۔میں اللہ کے حضور التجا کرتا ہوں کہ وہ مجھے حق اور صداقت کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جناب صدر!
اللہ تعالی نے میری دھرتی گلگت بلتستان کو جن عظیم نعمتوں سے نواز ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔میں مختصر ا آپ حضرات کے سامنے اپنے موضوع کے مناسبت سے چند اہم گزارشات پیش کرنا چاہونگا۔میں الفاظ کی میناکاری اور ادبی جملوں اور تراکیب بھرماری کے بجائے حقائق اور فیکس اینڈ فگر سے آپ کی سماعتوں کو محظوظ کرونگا۔جج صاحبان نوٹ کیجیے۔
جناب عالی!
میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہم ان مواقعوں کے درست استعمال سے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کو مسائل کے گرداب سے نکال سکتے ہیں۔
جناب والا !
پانی موت بھی ہے حیات بھی ہے۔ پوری دنیا کی زمین کا 70 فیصد حصہ پانی اور صرف 30 فیصد خشکی پر مشتمل ہے ۔ہمارا ازلی دشمن انڈیا نے بھی ہمارے پانیوں پر قبضہ کرنے کے پلان بنارکھا ہے۔یاد رہے کہ گلگت بلتستان پانی کے حوالے سے بہت ہی مالا مال ہے۔ پانی کی وجہ سے ہی جہاں زندگی پوری آب تاب کے ساتھ رواں دواں ہے ۔گلگت بلتستان کے درجنوں دریا، ہزاروں چشمے، لاکھوں آبشاریں، سینکڑوں جھیلیں اور لاکھوں ٹن برف اس بات کی دلیل ہے کہ گلگت بلتستان پانی کے حوالے سے بہت مالدا ر ہے۔بین الاقوامی ماہرین کے مطابق گلگت بلتستان کے پانیوں کو کارآمد بناتے ہوئے چالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
جناب والا! دیامر بھاشا دیم، سدپارہ ڈیم،ہینزل ڈیم، بونجی ڈیم اور عطا آباد ڈیم جیسے پراجیکٹس بھی اس پانی کی مرہون منت ہیں۔ ایسے درجنوں اور میگا پراجیکٹ بنائے جاسکتے ہیں ۔
جناب صدر!
گلگت بلتستان کا شمار میں دنیا کے ان خطوں میں ہوتا ہے جہاں قدرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ سایہ فگن ہے۔ دنیا کی 15 بلند ترین چوٹیوں میں سے 6 گلگت بلتستان میں ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو، نانگا پربت، راکاپوشی، ترچ میر، گشہ بروم اور مشہ بروم اور اسی طرح کے درجنوں بڑے پہاڑ یہاں ہیں۔ دنیا کے 3 بلند ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم بھی گلگت بلتستان میں ہیں۔بلند ترین شندور پولو گرانڈ ، خنجراب نیشنل پارک، دیوسائی نیشنل پارک بھی ہمارے حصے میں آئے ہیں۔گلگت بلتستان فلک بوس پہاڑوں، بہتے نالوں، سرسبز میدانوں اور رنگ بدلتی جھیلوں کی سرزمین ہے۔پھر دنیا کا آٹھواں عجوبہ 1300 کلومیٹر طویل شاہراہ قراقرم بھی گلگت بلتستان کی پہچان بنا ہوا ہے۔بقول شاعر
پہاڑی سلسلے چاروں طرف اور بیچ میں ہم
مثالِ گوہرِ نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں۔
جناب والا!
آپ کو مطلع کرنا چاہونگا کہ سال ۲۰۱۷ء کو ان حسین و جمیل مناظر دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے پندرہ لاکھ سے زائد سیاح گلگت بلتستان میں داخل ہوئے جو ہماری مجموعی آبادی سے زیادہ ہے۔ یہ تما م خوبصورتی اور رعنائی بھرے سیاحتی مقامات گلگت بلتستان اور پاکستان کی ترقی وتعمیر کے لیے دستیاب مواقع نہیں تو اور کیا ہیں۔۔؟
جناب صدر!
گلگت بلتستان پہاڑوں کا دیس ہے۔ یہ پہاڑ انمول معدنیات سے بھرے ہوئے ہیں۔ایک تحقیقی مطالعے کے مطابق یہاں پائے جانے والے پتھر اور معدنیات دنیا بھر میں پائے جانے والے معدنیات کی نسبت زیادہ خالص اور قیمتی ہیں۔
جناب صدر!
نوٹ کرنے کی بات ہے! گلگت بلتستان میں بہت ہی اعلی کوالٹی کا سونا پایا جاتا ہے اور اب تک کی تحقیق کے مطابق گلگت بلتستان میں ایک سو اڑسٹھ مقامات پر سونے کے ذخائر ، ایک سو چھ مقامات پر پلاٹینم ،چار سو ترانوئے مقامات پر کاپر لیڈ، دوسو اسی زنک، تین سو باون کوہالیٹ ،دوسو پچپن نیکل ،چار سو ستاسی بسمیتھ، سڑسٹھ مولیڈیم جبکہ آئرن کے ذخائر تین مقامات پر وجود ہیں ۔ اسی طرح قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے بھی وسیع ذخائر گلگت بلتستان میں موجود ہیں ۔
جناب والا۔
اس شعبے میں کام کرنے والوں کو بہترین سہولیات دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔اورایسی قانون سازی کی بھی ضرورت ہے جو جی بی کے مفاد میں ہو۔
جناب صدر محفل!
یہ سب کچھ ہماری معاشی ترقی و سربلندی کا ذریعہ نہیں تو اور کیا ہے۔۔؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معدنیات کی دریافت اور اِنھیں محفوظ طریقے سے نکال کر مارکیٹینگ تک کے مراحل مناسب انداز میں طے کرنے کی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔
جناب صدر!
اگر میں تجارتی حوالے سے بھی بات کروں تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ میری دھرتی تجارت کے میدان میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ ہم سی پیک جیسے عظیم بین الممالک تجارتی پراجیکٹ کے اسٹیک ہولڈر ہیں۔ اتنا عظیم تجارتی پروجیکٹ ہماری زمین کو چیرتے ہوئے عالمی معیشت کی منڈیوں تک جالگتا ہے۔ بہت جلد گلگت بلتستان میں سی پیک کی بدولت معاشی انقلاب آئے گا۔
جغرافیائی اور دفاعی حوالے سے بھی جی بی تجارتی سطح پر پوری دنیا کے لیے اہمیت کا حامل بنتا جارہا ہے۔
سیاسی فکر و نظر کے حوالے س بھی ہمارے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے بے شمار مواقع ہیں۔
ہوٹل انڈسٹری کے ذریعے ہمارے لوگ سالانہ اربوں کماتے ہیں۔مزید کمانے کے ہزاروں مواقع موجود ہیں۔
اس پر مستزادجنگلی حیات اور لہلہاتے ہوئے جنگل بھی ہماری معاشی ترقی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔جبکہ بنجر زمینوں کو آباد کرکے ہر قسم کے پھل فروٹ اُگا کر اور جنگلی پھل چلغوزہ کو عالمی منڈی تک پہنچا کربہترین زرمبادلہ کماسکتے ہیں۔
جناب والا!
ان تمام مواقعوں اور دستیاب وسائل کے باوجود بھی ہمیں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جناب صدر!
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ آئینی شناخت کا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم بین الاقوامی طور پر گومگوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ہمارا دوسر ابڑا مسئلہ بے روزگاری کا ہے۔ہمارا نوجوان بڑی بڑی ڈگریاں لیے بے روزگاری کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔
ہمارا تیسرا بڑا مسئلہ صنعت و حرفت کا ہے۔ جس کا نام و نشان بھی گلگت بلتستان میں نہیں ہے۔
جناب والا! میں خصوصیت کے ساتھ ایک بہت بڑے مسئلے کی طرف اشارہ کرنا چاہونگا۔
ہمارا نوجوان منشیات کا عادی ہوتا جارہا ہے۔
پولیس ذرائع مطابق 2015 میں منشیات کے عادی 200 نوجوانوں کو گرفتارکیا گیا ، یہ تعداد 2016 میں بڑھ کر 1500 ہو گئی۔ایک اطلاع کے مطابق گلگت بلتستان میں سینکڑوں منشیات فروش کام کررہے ہیں جو چرس، افیون اور دیگر زہریلی منشیات نوجوانوں تک پہنچانے میں آسانی سے کامیاب ہوتے ہیں۔
جناب صدر ہمارے بہت سارے اور مسائل بھی ہیں جن کی طرف صرف اشارہ کرنا چاہونگا۔ اتنے کم وقت میں یہ سارے مسائل پرمفصل بات نہیں کی جاسکتی۔میں نمبروار گنوانا چاہونگا
۱۔ ٹریفک کے لاینحل مسائل
۲۔ کوالٹی ایجوکیشن کے مسائل
۳۔ اشیائے خورد نوش میں ملاوٹ
۴۔ جعلی ادویات
۵۔ تعصب و علاقہ پرستی کا فتنہ
۶۔ لسانیت کا جن
۷۔ غربت کا عفریت
۸۔ تقرفہ پرستی کی لعنت
۹۔ خواتین کی خودکشی
۱۰۔ معاشرتی عدم برداشت وعدم تعاون
۱۱۔ سیاسی عدم بلوغت
۱۲۔ لیڈرشپ کا فقدان
۱۳۔ کرپشن کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ
۱۴۔ ثقافتی اقدار کی تباہی
۱۵۔ معاشرتی اقدار کا زوال
یہ وہ خوفناک مسائل ہیں جو ہمیں گھن کی طرح ہمیں کھائے جارہے ہیں۔
جناب صدر!
ہمارے لیے سب سے بڑا ایڈوانٹیج یہ ہے کہ ۲۰۱۴ء سے اب تک جنوبی ایشاء میں گلگت بلتستان کو سب سے پرامن علاقے کا اعزاز حاصل ہے۔قرآن کا اٹل فیصلہ ہے کہ جہاں امن ہوگا وہ انسانی و معاشرتی اور معاشی زندگی عروج کو پہنچے گی۔
تو ہم امن کے اس اعزاز کی قدر کرتے ہوئے مذکورہ بالا وسائل کوبہتر طریقے سے استعمال میں لاتے ہوئے اپنے تمام مسائل کا حل ڈھونڈسکتے ہیں۔ اور ہم ایک کامیاب معاشرے اور معاشی طور پر مستحکم خطے کے طور پر پوری دنیا میں اپنی پہنچان بناسکتے ہیں‘‘۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button