کالمز

داریل و تانگیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضرورت وقت اور انتظامی ترجیحات

تحریر : سید عبدالوحید شاہ، کمشنر دیامر استور ڈویژن

کم و بیش ڈیڑھ لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل یہ دو تحصیلیں در اصل ایسی دو وادیوں پر مبنی ہیں کہ جن کو قدرت نے بے پناہ حسن و جمال سے نوازا ہے ،یہی وجہ ہے کہ بدھ مت کے دور میں بھی یہ وادیاں مرکز ثقافت و علم رہی ہیں اور آج تک داریل وادی میں بدھ یونیورسٹی کے آثار نمایاں ہیں۔ بدھ تہذیب کا مرکز یہ علاقہ ضلع دیامر چلاس کے جنوب میں واقع کوہستان اور قراقرم ہائے وے کے سنگم پر کوئی تیس سے پینتیس کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ دشوار گذار پہاڑی اور ڈھلوانی راستہ اب قدرے سہل اور آرام دہ ہو چکا ہے اور مرکزی راستوں پر تعمیرات کا کام جاری ہے جو کہ مختصر مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچ پائے گا ۔جس کے بعد مزید سفری سہولت میسر آئے گی جو کہ علاقہ مکینوں کے علاوہ سیاحوں کے لئے نیک شگون ہو گا ۔کام کے معیار اور سرعت کے لئے ضلع کے دو لائق اسسٹنٹ کمشنران(امیر اعظم وقاسم اعجاز) کو خصوصی ہدف دیا گیا ہے ۔جو کہ وہ دئے گئے وقت کے اندر اندر مکمل کروا لیں گے ۔

موجودہ انتظامی و مرکزی ترجیحات میں اس وقت ان دو وادیوں کی تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کی اس مخفی قوت کو سامنے لانا ہے کہ جس سے یہ مالا مال ہیں ۔بڑے پیمانے پر سڑکوں کی تعمیر ،ہسپتالوں کی مرمت و وسعت ،سکولوں کے اجرا کے علاوہ اس علاقے کے قدرتی زخائر اور بالخصوص تعلیم کے میدان میں یہاں کے مرد و زن کو آگے لے کر چلنا سب سے اہم امر ہے ۔تعلیم نسواں کے حوالے سے ہوم سکولوں کی کارکردگی کسی قدر تسلی بخش ہے تاہم اس ضمن میں بہت کچھ کرنا باقی ہے جس کے لئے مقامی باشندگان کا شعور اور ان کی موجودہ توجہ قابل تعریف ہے ۔مختلف وفود کی شکل میں اہل علاقہ کا انتظامی افسران سے اس بابت درخواست کرنا دراصل وہ بیداری و شعور ہے جو زندہ قوموں کا وطیرہ رہا ہے ۔

تعلیم نسواں اور عصری تعلیم کے لئے انتظامی اور عوامی تگ و دو ضرور رنگ لائے گی اور ان نوجوانوں کو دیگر ضلعوں کے نوجوانوں کے ہمراہ شانہ بشانہ مقابلے کی سکت دے گا ۔ ان دو وادیوں کی خصوصی شناخت یہاں کی عوام کا جذبہ ء حب الوطنی اور مذہبی لگاو ء ہے ۔گذشتہ دنوں مدارس فیسٹیول میں جس جوش و جذبے سے ان مدارس کے طلباء نے مختلف مقابلوں میں حصہ لیا اور جو جذبہ ظاہر کیا وہ بلاشبہ دیدنی تھا ۔حکومتی سطح پر نہ صرف یہ کہ اس جذبے کی پذیرائی کی گئی بلکہ یہ عزم مصمم بھی پایا گیا کہ ایسے ہی پروگرامات کے ذریعے دینی مدارس کے طلبا ء کو مزید مواقع فراہم کئے جائیں گے تا کہ وہ اپنی مخفی صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کر سکیں اور اس طرح معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے مفید جزوء بھی بن پائیں ۔دونوں وادیوں میں پبلک سکولوں کی تعمیر کا کام جلد تکمیل تک پہنچنے کے بعد معیاری تعلیم کے دروازے ان طلباء پر بھی واگذار ہوں گے کہ جن کے بس میں گلگت و دور دراز علاقوں میں جا کر تحصیل علم نہیں ۔ان سکولوں کی تعمیر علاقے کی تقدیر اور معیار زندگی کاا ہم موڑ سمجھا اور گنا جا رہا ہے ۔جس کے بعد یہاں کے طلباء بھی ملک کے بہترین تعلیمی اداروں کے طلبا ء سے مسابقت کر سکیں گے ۔

جنگلات کی جس نعمت سے اللہ تعالی ٰ نے ان علاقوں کو نوازا ہے وہ بلاشبہ گلگت بلتستان میں کل جنگلات کا ستر فیصد سے زائد ہے ۔اس جنگل کی بہتر کشید اور انتظام سے ہی علاقائی مفاد اور عوامی سہولیات ملحق ہیں ۔جنگل ان وادیوں کا ایسا اثاثہ ہیں جس سے یہاں کے ماحول کی نگہبانی کے ساتھ ساتھ عوام الناس کی گذر بسر کا اہتمام بھی ہوتا ہے ۔قبائلی جرگہ جو کہ کم و بیش ملک کے تمام قبائلی علاقوں میں وجود پذیر ہے ، اپنی اصل حالت میں ان دو وادیوں میں مستعمل اور فعال ہے ۔اکثر معاملات کا تصفیہ قبائلی روایات اور علاقائی خدوخال کو مد نظر رکھتے ہوئے علاقے کے معتبرین ہی بر موقعہ کر دیتے ہیں جس سے علاقائی ہم آہنگی کے علاوہ سرکاری امور میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے ۔

اجتماعی ذمہ داری کے اصول کے تحت علاقہ کے معتبرین حفظ امن اور دیگر معاملات کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں جو کہ ریاست اور عوام کے مابین صلح باہمی کا حسین مظہر ہے ۔
ریاستی سہولیات کی تعمیر( جن میں کھیلوں کے میدان ، سیاحوں کے لئے معلوماتی مراکز اور دیگر بجلی و پانی کی ترقیاتی سکیمیں شامل ہیں ) کے علاوہ موجودہ وقت میں جو انتظامی سطح پر ضرورت محسوس کی جا رہی ہے وہ سیاح حضرات کو ان دو وادیوں کی حسین ترین پھیلی ہوئی سرزمین ،قدرتی بہتی ندیوں ،چراگاہوں ،گھنے جنگلات ،آثار قدیمہ ،سر سبز لالہ زاروں اور فلک بوس پہاڑوں کی طرف متوجہ کرنا ہے ۔اپنے محل وقوع اور جغرافیہ کے لحاظ سے بھی یہ وادیاں اس لئے اہم ہیں کہ یہ چترال ،سوات کے علاوہ غذر کی وادی پھنڈر سے بھی ملتی ہیں اور ہر سال مہم جو سیاح اس راستے کو اپناتے ہوئے مختصر مگر پر کیف سفر سے محظوظ ہوتے ہوئے غذر اور سوات کا رخ کرتے ہیں ۔دیامر بھاشا ڈیم کے دہانے پر اور داسو ڈیم کے منہ پر واقع یہ وادیاں مستقبل کی سیاحت کا رخ موڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں اور یہاں سے ایسے سہل سفری راستوں کا نشان ہوئیدا ہو چلے گا کہ ان وادیوں کی تقدیر بدل جائے۔ محکمہ سیاحت گلگت بلتستان اس میدان میں ڈویژنل انتظامیہ کے ساتھ مل کر ایسے منصوبوں پر غور و خوض کر رہی ہے کہ جن سے ان علاقوں کی سیاحت اور ثقافت کو مزید اجاگر کیا جا سکے ۔

اس تمام کاوش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے داریل و تانگیر کی سول سوسائٹی اور نوجوانان کا کردار اہم بھی ہے اور ضرورت بھی ۔امید ہے کہ نوجوان آگے بڑھ کر ترقی کا یہ علم تھامیں گے کہ اقبال ایک صدی قبل کہہ گئے تھے ۔ جوانوں کو پیروں کا استاد کر اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button