عوامی مسائلکالمز

چراغ تلے اندھیرا، چکرکوٹ سئی بالا کے مسائل اور ان کا حل

تحریر:مفتی ثناء اللہ، نمبردار میدان چکرکوٹ

پاکستان کا سب سے حسین ترین خطہ گلگت بلتستان قدرتی حسن سے مالامال K2 اور ننگاپربت کے دامن میں وسیع و عریض قدرتی جڑی بوٹیوں سے بھرپور ضلع استور دیوسائی کا میدان دیامر کی خوبصورت ملکہ فیروزی میڈو ضلع غذر کے جاذب نظر پرفریب مقامات پولو گراؤنڈ پھنڈر استور کا راما جھیل ہنزہ عطاء آباد جھیل دیامر کا لولوسر جھیل بابوسر کا پرفضا منظر۔ اسکردو کا حسن سد پارہ جھیل ہر سال بیرونی سیاحوں کیلئے سامان سیر و تفریح فراہم کرتے ہیں۔

 مگر صد افسوس حسن کی دیوی شہر گلگت سے40کلومیٹر کے فاصلے پر گنجان آباد وادی چکرکوٹ کے حسین مناظر دنیا کی نظروں سے صرف اسلئے اوجھل ہیں کہ آج تک ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس خطے کو سیاحوں کی آمدورفت کے بنیادی اسباب سے محروم رکھا گیا ہے۔بنیادی سبب روڈ کی عدم دستیابی ہے وادی چکرکوٹ سئی بالا جو کہ آٹھ یونین کونسلوں پر مشتمل خطہ ہے۔ یہ خطہ ناخواندگی پسماندگی زندگی کے بنیادی سہولتوں سے محرومی کے باعث اہلیان پاکستان کی نظروں سے آج تک اوجھل رہاہے۔تاہم دیرآید درست آید کے تحت اس دفعہ ن لیگ کی منتخب حکومت نے خستہ حال سڑکوں کی حالت زار کو قدرے بہتر بنانے کیلئے روڈ کشادگی کا آغاز کردیا ہے۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا حلقۂ انتخاب بھی اسی محروم خطے سے تعلق رکھتا ہے۔ اہلیان سئی بالا چکرکوٹ کو ن لیگ کی قیادت کے حالیہ اقدامات سے امید کی کرن نمودار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔گاشو اور پہوٹ تک میٹل روڈ بنایا جائے تو گلگت بلتستان اگر سیاحوں کی جنت ہے تو وادی چکرکوٹ سئی بالا سیاحوں کی فردوس بن سکتی ہے۔سئی بالا کے نالوں میں دنیا کی لذیذ ترین میٹھے پانی کی ٹراؤٹ فش سے میزبانی کیلئے اہلیان سئی منتظر فردا ہیں۔ اس وادی میں گاشو کے مقام پر200فٹ گہرا اور 3کلومیٹر لمبا خوبصورت جھیل گاشو جھیل کا طلسمانی منظر چاند نی راتوں میں پورا نیلگون آسمان اس جھیل میں اتر کر چاند اور ستارے نیلگوں صاف و شفاف پانی میں رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں دن کو آفتاب کی ضیاء پاشیاں جب اس خوبصورت جھیل کے پانی سے معانقہ کرتی ہیں تو ارباب ذوق اس حسین کیفیت سے قدرت کی صَنّاعِی پر شعر تخلیق کرتے ہیں۔گاشو میں ایسے ویسیع و عریض میدان سبز لبادہ اوڑھے قدرتی خود روخوبصورت پھولوں کی جھرمٹ میں دنیائے سیاحت کود عوت نظارہ دے رہے ہیں۔سات پری جھیل کے نظارے پہوٹ لوٹوکے پرفضا مقامات کے خوبصورت نظاروں کے آگے مری، ایوبیہ، ایبٹ آباد اور سوات کا حسن سیاحوں کو ماند نظر آئیگا۔مگر صد افسوس حسن کی اس دیوی کو جان بوجھ کر چھپایا گیا اگر گلگت سیاحوں کی جنت قرار دی جائے تو وادی چکرکوٹ سیاحوں کی فردوس کا لقب پاسکتی ہے۔مگر ان تمام تر خوبیوں کے باؤجود مجموعی طور پر یہاں کے غیور مگر سادہ لوح عوام تعلیم اور صحت کے قابل ذکر سہولیات سے یکسر محروم ہیں۔

راقم المعروف ان سطور میں نوک قلم کو قرطاس ابیض پر رکھ کر جنبش دینے کی جسارت کرتے ہوئے عَنَانِ اقتدار پر براجمان وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان ، چیف سیکریٹری گلگت بلتستان سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ کیا یونین کونسل گاشو کے قریب گجر برادری اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں صحت اور تعلیم کا حق نہیں رکھتی ؟کیا وہ پاکستانی نہیں ہیں؟؟جنکو ڈلیوری کیسز میں زچہ اور بچہ کا کوئی ادنیٰ سا سینٹر بھی دستیاب نہیں ہے۔مرنے کیلئے کفن بھی وہاں دستیاب نہیں گاشو پہوٹ کی آبادی کو اتنا ناخواندہ رکھا گیا ہے کہ وہاں کی عوام پیرسٹامول اور زہر ھلاہل کی بھی تمیز نہیں کرسکتے۔

برف ڈھکنے کی وجہ سے سفری مشکلات موسم سرما میں اوڑھنے کیلئے لحاف اور کمبل سے محروم یہ گجر برادری گلگت بلتستان کا دارلخلافہ ضلع گلگت ہی سے تعلق رکھتی ہے کیا وہ انسان نہیں ہیں ؟جو اپنے جان بلب مریضوں کو دوا دارو دے سکیں۔کیا وہ اپنے بچوں کو اسطرح ان پڑھ ہی زندہ رکھنے کی مشقت جھیلتے رہیں گے؟ کیا وہ لوگ اتنا بھی استحقاق نہیں رکھتے کہ اپنے اسہال اور دست کا شکار کسی مریض اور مریضہ کو نمکیات والا گلوکوز لگانے کیلئے ابتدائی طبی امداد کے مراکز سے ہمیشہ کیلئے محروم ہیں خدا را ان مظلوموں لاچاروں کی حالت زار پر رحم کھاتے ہوئے بنیادی انسانی ضروریات کا معقول بندوبست کیا جائے۔حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی اپنا کردار ادا کریں۔سینکڑوں این جی اوز کی موجودگی میں ان خطوں کے باسی اپنے محروم باسیوں کی ناخواندگی اور بے بسی پر رونے کی بجائے خداوند قدوس کی درگاہ عالیہ میں دست بستہ عرض پرداز ہیں کہ خدایا کوئی مددگاربھیج دے جو ہمارے دکھوں کا مداوا کرے۔اس خطے کے فی الفور اہم مسائل میں ایک مسلہ یہ بھی ہے کہ اس علاقے میں ناخواندگی کی شرح حد سے تجاوز کرچکی ہے۔لہٰذا سرکاری سکولوں کا جال بچھایا جائے۔نظام تعلیم کو مزید فعال اور جاندار بنانے کے اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کئے جائیں۔

سئی بالا میں2000سے زائد نوجوان بیروزگار ہیں فی الفور علاقہ ہٰذا کیلئے روزگار پکیج کا اعلان کیا جائے تاکہ بیروزگاری کے سیلاب کے آگے بند باندھا جاسکے وگرنہ یہاں کے پڑھے لکھے چند لوگ یہ محسوس کررہے ہیں کہ چراغ تلے اندھیرا آخر کب تک اخبارات و رسائل کی شہہ سرخیاں بتارہی ہیں کہ بین الاقوامی نئے تجارتی معاہدات باسیان گلگت بلتستان کیلئے معاشی ترقی کی نوید سنا رہے ہیں جبکہ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہیکہ دارالخلافہ کے پڑوس میں سئی بالا گاشو پہیوٹ کی گجر برادری اب بھی پتھر کے دور میں زندگی گزارنے کی تصویر پیش کررہی ہے۔ایسے میں مسند اقتدار پر براجمان وزیر اعلیٰ صاحب اور چیف سیکریٹری صاحب سے خصوصی توجہ درکار ہے۔

ان علاقوں کی اصل صورت حال جاننے کیلئے مذکورہ علاقوں سے سئی بالا کے نمبرداران اور تحصیلداروں کی مدد سے چیدہ چیدہ افراد کو بلا کر ان کے مسائل سن کر درد کا مداویٰ کیا جائے تاکہ غریب بے بس اور مفلوک الحال گجر برادری بھی اکیسوی صدی کے عام انسان کیطرح اپنی شناخت کو برقرار رکھ سکے۔

جلتا ہے جن کا خون چراغوں میں رات بھر
ان غمزدوں سے پوچھ زرا قیمت سحر

پھولوں کا بکھرنا تو مقدر میں تھا لیکن
کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست کا دخل تھا

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button