بلاگز

سفر نامہ غذر سے چائینہ تک (آخری قسط)

تحریر: دردانہ شیر

ہمارے ملک میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا میں دن رات صرف سیاسی باتوں کے علاوہ کوئی اور بات نہیں ہوتی زراعت کی ترقی اور ملک کی تعمیر وترقی کے حوالے سے بہت کم خبریں دیکھنے کو مل جاتی ہے ملک میں کوئی زرعی ترقی کے حوالے سے چینل موجود نہیں جس باعث آج ہم ترقی کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں ہماری کروڑوں کنال اراضی بنجر پڑی ہے اس کو کاشت کے قابل نہیں بناتے چائینہ میں بہت کم ہی ایسی زمین نظر آتی ہے وہاں کے لوگ زراعت کے شعبے میں اتنی ترقی کر چکے ہیں جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے انھیں سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ صرف اور صرف اپنے ملک کی ترقی کا سوچتے ہیں ہمارے ہاں چار پانچ آفراد جمع ہوتے ہیں تو کئی گھنٹے ملک کی سیاست پر لگا دیتے ہیں چائینہ میں کئی بھی کوئی اس طرح کی فضول میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہوئے ہم نے کسی کو نہیں دیکھا ہر بندہ اپنے کاروباری معاملات میں مصروف جس کی اصل وجہ ان کی قیادت ہے انھیں ایک ایسی قیادت ملی جس کی وجہ سے آج چین کے عوام دنیا میں ترقی کے میدان میں سب سے اگے نکل گئے ہیں اب چائینہ چاہتا ہے کہ ان کے ملک کی طرح ان کا ہمسایہ ملک پاکستان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔

قارئین کرام چین نے آج اتنی ترقی کیوں کی اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا اس حوالے سے درج ذیل کالم دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

سی پیک کی وجہ سے جہاں پر پاکستان ترقی کی ایک نئے دور میں شامل ہو گا وہاں چین کے صوبے شنکیانگ کے بالائی علاقے کاشغر اور تاشقرغن کے لاکھوں عوام کو بھی اس سے فائد ہ حاصل ہوگا۔ چین کا بالائی صوبہ شنکیانگ کو ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ قرار دیا جارہا ہے اور اس وجہ سے اس علاقے کے عوام کو سی پیک میں فائدہ پہنچانے اور ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لانے کے لئے ابھی سے ہی اقدامات شروع کر دئیے گئے ہیں اور کاشغر اور تاشقرغن میں بہت بڑی عمارتوں اور کارخانوں کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے اور سڑکوں کا جال بچھایا جارہا ہے بتایا جارہا ہے کہ کاشغر اور تاشقرغن چین کے بہت ہی غریب علاقوں میں شامل ہوتے تھے سنکیانگ ہے تو ایک صوبے کا نام مگر یہ صوبہ آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے ہمارے ملک سے بڑا ہے ان لوگوں کا آج ترقی کے اس دور میں سب سے آگے نکلنے کی اصل وجہ ان کی قیادت تھی چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا ہے مگر آج ترقی کے میدان میں دیکھا جائے تو دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اس وقت پوری دنیا میں ستر فی صد مصنوعات چائینہ کی فروخت ہوتی ہے اور چائنہ نے پوری دنیا کی مارکیٹ میں اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے بتا یا جاتا ہے کہ چین کے انقلابی لیڈر ماوزے تنگ نے اپنے قوم کو چار اصول بتائے تھے جن میں برداشت ،تسلسل ،خود انصاری اور عاجزی شامل ہیں یہ چار وں خوبیاں چین کے بانی مووزئے تنگ میں بھی موجود تھیں۔

چین کے بانی کابرداشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے بہادر سے بہادر انسان بھی اپنی اکلوتی اولادکی موت پر آنسو کنڑول نہیں کر سکتا کوریا کی جنگ میں مووزے تنگ نے اپنا اکلوتا بیٹا جنگ میں بھجوا دیا بیٹے کی نعش واپس آئی تو یہ کہہ کر رونے سے انکار کیا کہ میں اس غم میں اکیلا نہیں ہوں میرے جیسے ہزاروں والدین کے بچے اس جنگ میں مارے گئے میں پہلے ان کے آنسو پونچھوں گا مووزے تنگ کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انھیں انگریزی زبان میں عبور حاصل تھامغرب میں چھپنے والی اچھی کتابوں کو منگواکر پڑھتے تھے 1972میں رچرڈ نکسن نے چین میں مووزی تنگ سے ملنے گئے تو ماوزے تنگ نے ان کو ان کی کتابیں دیکھا ئی نکسن یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کیو نکہ مووزی تنگ نے نہ صرف ان کی کتابیں پڑہ رکھی تھی بلکہ اورق پر فٹ نوٹس بھی تھے اور بعض جہگوں پر سوالیہ نشان بھی مگر اس تمام تر انگریزی دانی کے باوجود ماوزے تنگ نے کسی دوسر ے شخص کے سامنے انگریزی کا ایک لفظ تک نہیں بولا اس کی وجہ چین اور چینی زبان سے محبت تھی وہ کہتے تھے کہ میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں چین گونگا نہیں اس کی ایک زبان ہے اوراگر دنیا ہمارے قریب آنا چاہتی ہے یاہمیں سمجھنا چاہتی ہے تو اس سے ہماری زبان سمجھنا اور جاننا ہوگی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اتنے بڑے عالمی لیڈر نے پوری زندگی میں کسی دوسرے ملک کا دورہ نہیں کیا انھوں نے کبھی کسی دوسرے زمین پر پاؤں نہیں رکھا وہ کہتے تھے میں چین کا لیڈر ہوں چین میں رہونگا چنا نچہ ان کی جگہ چواین لائی دوسرے ممالک کے دورے کرتے تھے اور اب کی برداشت کی انتہا دیکھے وہ انگریزی زبان سمجھتے تھے لیکن جب انھیں انگریزی زبان میں کوئی لطیفہ سنایا جاتا تھا تو خاموش ہوجاتے تھے لیکن جونہی اس لطیفہ کا چینی زبان میں ترجمہ کیا جاتا تو کھلکھلاکر ہنستے تھے یہ وہ لیڈر شپ تھی جس کے پاس پوری زندگی میں تین جوڑے کپڑے دو جوڑہ جوتے اور تین مرلے کے گھر اپنی میں زندگی کی اخری ساعتیں گزاری جس نے اپنے ملک کو سپر پاور بنا دیا جس نے اپنے ازلی دشمنوں کو میڈ ان چائنہ پر مجبور کیا۔

چین آج ایک ایسا ملک بن گیا ہے کہ امریکہ جیسا ملک آج اپنے قومی دن پر آتش بازی کا سامان چین سے منگواتا ہے آج دنیا میں ستر فی صد مصنوعات چین کی فروخت ہوتی ہے یہ جان کر ہمیں حیرت ہوتی ہوگی کہ پاکستان کے ذریعے چین کے لوگوں نے دنیا دیکھنا شروع کر دیا پی ائی اے پہلی انٹرنیشنل ائرلائن تھی جس کے جہاز نے سب سے پہلے چین کی سرزمین کو چھوا پی ائی اے کی جہاز کی چین میں لینڈنگ پر پورے چین میں جشن منایا گیا بتایا جاتا ہے کہ پاکستان نے صدر ایوب کے دور حکومت میں چین کو تین جہاز فروخت کر دئیے ان میں سے ایک جہاز ماوزے تنگ استعمال کرتے تھے پاکستان پہلا ملک ہے جس نے چینی مصنوعات کی امپورٹ کی اجازت دی یہ وہ چین ہے جو ہم سے دو سال بعد ازاد ہوا آج یہ ملک ترقی کے میدان میں اتنا اگے گیا ہے کہ امریکہ جیسے ملکوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہے اور چین ایک ایسا ملک ہے جس نے ہر مشکل میں ہمارے ساتھ دیا ہے

اب سی پیک کی شکل میں 46ارب ڈالر خرچ کر رہی ہے اور چین جس کا دوست ہو تو اس کے دوست ملک بھی کبھی غریب نہیں ہوسکتے فرق ہے تو صرف لیڈر کی ہے کاش ہمارے حکمران بھی مووزے تنگ طرز کی حکومت کرتے اور خود کو امیر سے امیر تر بنانے کی بجائے اپنے عوام کا سوچتے ۔کاش ایسا ہوتا۔کاش ایسا ہوتا

قارئین کرام کاشغر میں تین دن گزارنے کے بعد ہمارا اگلا سفر اورمچی کی طرف تھا مگر تاشقر غن کی سردی نے ہمارا برا حال کر دیا تھا اور ہم دوائی لینے کئی میڈیکل اسٹورز پر گئے مگر نہ تو وہ ہماری بات سمجھ سکے اور نہ ہم ان کی بات اس وجہ سے ہم نے اورمچی جانے کا ارادہ ترک کر لیا اور واپس کاشغر سے تاشقر غن کی طرف روانہ ہوگئے۔ شام چھ بجے کے قریب ہم تاشقرغن پہنچ گئے اور دوسرے دن اپنا ملک پاکستان جانے کی تیاری کر لی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ تشقر غن سے سوست کا ٹکٹ صبح اٹھ بجے ملے گا راجہ میر نواز میر نے دوسرے دن سوست کے لئے دو ٹکٹ لیکر ہوٹل کے کمرے میں پہنچ گئے اور ہم امیگریشن کی دفتر کی طرف روانہ ہوگئے۔

تاشقرغن میں حسب معمول خون جمانے والی سردی تھی کئی گھنٹے تک امیگریشن کے دفتر کے باہر کھڑے رہے کوئی گیارہ بجے کے قریب ہمیں امیگریشن کے دفتر داخل ہونے اجازت ملی سامان کی جانچ پڑتال کے بعد ہم نے اپنا سامان بس میں لوڈ کر دیا چین کی بس کی حالت بھی قابل رحم تھی جس طرح نیٹکو نے سوست سے تاشقر غن کے درمیان جو کھٹارہ کوسٹر لگائے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے چائینہ نے بھی ایسے بسیں لگا دی ہے جن کی حالت قابل رحم ہے۔

بارہ بجے ہم سوست کی طرف روانہ ہوگئے اور شام پانچ بجے ہم سوست پہنچ گئے۔ میں اپنی کار سوست کھڑی کرکے چائینہ گیا تھا چونکہ واپسی پر سوست سے گلگت کے لئے ٹرانسپورٹ کا بڑا مسلہ ہوتا ہے میں اور میر نواز نے سامان گاڑی میں ڈال دی اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے رات آٹھ بجے گلگت پہنچ گئے میرنواز میر کو ان کے گھر پر اتار دیا اور خود گاہکوچ کی طرف روانہ ہوا اور رات دس بجے اﷲپاک کے فضل و کرم سے ایک ہی روز میں چین سے گاہکوچ پہنچنے کاریکارڈ قائم کیا۔

اس طرح ہمارا یہ سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button