بلاگز

گلگت سے ہنزہ تک

تحریر : طاہر عباس، طالبعلم شعبہِ سماجی بہبود گورنمنٹ ڈگری کالج گلگت

۱۱ مئی ۲۰۱۷ کی ایک خوبصورت صبح تھی۔ سورج کی شعاؤں میں ابھی زیادہ تپش نہیں تھی۔ محکمہِ موسمیات نے گلگت شہر میں بارش ہونے کی پیشن گوئی کی ہوئی تھی لیکن ہلکے پھلکے بادلوں کے قلب میں سے سورج مسکراتے ہوئے زمین کے باشندوں میں اپنی روشنی اور تونائی لُٹا رہا تھا۔ میں گھر سے اپنا رختِ سفر باندھتے ہوئے ماں سے دعائیں لینے کے بعد اپنے کالج کی سِمت روانہ ہوا۔ میرے کالج پہنچنے کے فوراََ بعد ہی میرے کلاس فیلوز بھی اپنے سفری سامان کے ہمراہ کالج پہنچ گئے۔ کیونکہ گورنمنٹ ڈگری کالج گلگت سے شعبہ سماجی بہبود کے بی اے سال اول و دوئم کے طلباء کومشاہداتی دورے پر گلگت بلتستان کی معروف سماجی و فلاحی تنظیم ’’کاڈو‘‘ (قراقرم ایریا ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن) واقع ہنزہ کے دفتر جانا تھا۔ اس مشاہداتی دورے کی بابت بتاتا چلوں کہ شعبہ سماجی بہبود کے طلباء کیلئے یہ دورہ لازمی ہوتا ہے اور انہیں ہر سال کالج کی طرف سے کسی سرکاری ، غیر سرکاری یا نیم سرکاری فلاحی ادارے کا مشاہداتی دورہ کروایا جاتا ہے جو سماج کو فلاح و بہبود پہنچانے میں مصروفِ عمل ہوں، جہاں طلباء کو ادارے ، ادارے کے مقاصد اور ادارے کے کام کرنے کی نوعیت کے بارے میں میں تفصیلات بتائی جاتی ہیں۔اس کے بعد طلباء مشاہداتی دورے کے متعلق کاپی بناتے ہیں اور ممتحن کاپیوں کی جانچ کیساتھ ساتھ انٹرویو بھی لیتا ہے اور اسی طرح مشاہداتی دورے کے ۲۵ نمبرات سالانہ امتحانات کے مجموعی نمبرات میں شامل کئے جاتے ہیں۔ پچھلے سال مشاہداتی دورے پر فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان اور انجمن ہلال احمرپاکستان گلگت کے دفاتر لے جایا گیا تھا۔ چونکہ ہمارا کالج میں آخری سال تھا اس لیئے ہم نے اصرارکیا تھا کہ کسی ایسی جگہ لے جایا جائے جہاں سے حصولِ معلومات کیساتھ ساتھ سیر و تفریح بھی ہو ۔ یوں طلباء کے اصراراور پروفیسر اشتیاق احمد یادؔ صاحب کی کوششوں کی بدولت کالج کے پرنسپل جناب پروفیسر اشرف ملک صاحب نے ہمیں ہنزہ کاڈو کے دفترجانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ ہم ساڑھے نو بجے کالج سے روانہ ہوئے ،دنیور پہنچ کر کچھ پھل خریدے اور قراقرم ہائی وئے کی عمدہ ، بل کھاتی ہوئی ،سر سبز وادیوں سے گزرتی، کہی پہاڑوں کے سینے چیرتی اور کسی سانپ کی مانند جھومتی ہوئی سڑک پر سفر کرتے ہوئے سلطان آباد ، جوتل،جگوٹ گھورو سے ہوتے ہوئے نہ جانے کب ہم راکاپوشی کے دامن میں پہنچ کے ایک ہوٹل پر رُکے۔ جٹ سے چائے کا آرڈر دیا اور طلباء راکاپوشی کے خوبصورت مناظر کو اپنے دوستوں اور اساتذہ کے ساتھ کیمرے کی آنکھ میں محفوط کرنے میں مشغول ہو گئے۔ راکا پوشی گلگت شہر سے ۱۰۰ کلومیٹر کی دوری پر وادیِ نگر میں واقع ہے۔ اس کی بلندی ۷۷۸۸ میٹر ہے اور دنیا کے بلند ترین چوٹیوں میں ۲۷ ویں نمبر پر ہے۔
گلگت بلتستان کو قدرت نے دیگر بے شمار نعمتوں کیساتھ ساتھ پہاڑوں اور چوٹیوں کی شکل میں اپنے خزانے لُٹا دئے ہیں۔پہاڑ قدرت کے بنی نوع انسان کیلئے انمول تحفہ ہیں۔ یہی پہاڑ کسی بھی ملک کی سرحدوں کے رکھوالے ، معدنیات کے ذخائر سے بھرپور، خود برف کی سفید چادر اوڑھ کرمیدانوں کی ہریالی کیلے پانی مہیا کرنے والے اور پوری دنیاسے سیاحوں اور کوہ پیماوں کو اپنی طرف کھینچنے والے ہوتے ہیں جس سے ملک کی معیشت مستحکم ہوتی ہے۔
فطرت بے رحم بھی ہے اور مہربان بھی۔ دنیا کی تمام اقوام فطرت کیساتھ اپنا رشتہ مضبوط بنانا چاہتی ہیں۔ بعض قومیں فطرت کے مظالم سے خود کو محفوظ رکھنے اور عنایتوں کو حاصل کرنے کیلئے اس کیساتھ سمجھوتہ کر لیتی ہیں اور اس کی تسخیر میں جت جاتیں ہیں اور فطرت ایسی اقوام کیلئے اپنے نہ ختم ہونے والے خزانوں کے دروازے وا کر دیتی ہے۔ اور بعض قومیں محض پوجا پاٹ اور ٹونے ٹوٹکوں کے ذریعے فطرت کے مظالم سے بچنے اور اس کی عنایتوں کو حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن نہ تو ماضی میں فطرت نے ان پر ترس کھایا، نہ حال میں کوئی سپورٹ ہے اور نہ ہی مستقبل کیلئے کوئی ایسی صورت نظر آ رہی ہے۔ میں اپنی قوم کو بعدالذکر اقوام کی صفوں میں دیکھتا ہوں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم فطرت کی ان نوازشوں سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے اس کی تسخیر میں جت جائیں۔ ہم چائے نوش کرنے کے بعد دوبارہ محوِ سفر ہوئے۔ گاڑی نہایت عمدہ تھی ۔ میں بس ڈرئیور کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر دوستوں سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے سامنے کے شیشے سے مختلف وادیوں میں دلربا موسم اور مناظر کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔

شعبہ سماجی بہبود کا یہ دورہ محترم اشتیاق احمد یادؔ صاحب کی سربراہی اور ذمہ داری میں ہو رہا تھالیکن ان کی خصوصی دعوت پر محترم احمد سلیم سلیمی صاحب بھی ہمارے ساتھ ہمسفر ہوئے۔ محترم احمد سلیم سلیمی صاحب کی تین کتابیں اردو نثر میں منظرِ عام پر آ چکی ہیں اور آپ گورنمنٹ ڈگری کالج گلگت میں اردو کے پروفیسر ہیں۔ خود محترم اشتیاق احمد یادؔ صاحب بھی گورنمنٹ ڈگری کالج گلگت میں سماجی بہبود کے شعبے کے پروفیسر ہیں۔ نہایت شفیق ، مہرباں اور انسان دوست ہیں۔ آپ گلگت بلتستان کی اردو شاعری کی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ گورنمنٹ ڈگری کالج گلگت کے بی اے سال اول اور دوئم کے طلباء ہمارے ہمسفر تھے۔

تقریباً ۱۱ بجے ہم علی آباد ہنزہ پہنچ چکے تھے جہاں عباس علی خان صاحب جو کہ کاڈو کے کمیونیکیشن آفیسر ہیں، ہمارے منتظر تھے ،وہ ہمارے ساتھ ہو لیئے۔ ہم میوہ دار درختوں کے جنگلوں کے درمیان سے گزرتی تنگ سڑک میں بس دوڑاتے ہوئے کاڈو کے پروجیکٹ آفس واقع حیدر آباد پہنچے ۔ یہ عمارت ابھی زیرِ تعمیر تھی ۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس پروجیکٹ آفس کیلئے زمین ہنزہ کے عوام نے رضاکارانہ طور پر ادارے کو وقف کر دی ہے۔یہ سن کر مجھے سر سید احمد خان کا ایک مضمون ’’اپنی مدد آپ‘‘ یاد آ گیا جو ہم نے ایف ایس سی میں پڑھا تھا جس میں سر سیداحمد خان نے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ قوموں کی ترقی اپنی مدد آپ کے جذبے کیساتھ مشروط ہے ۔وہ قومیں جو اپنی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت کام کرتی ہیں وہ ہمیشہ ترقی کے سفرمیں آگے آگے ہوتیں ہیں۔ اور دوسری سمت وہ اقوام جو ہمہ وقت محض حکومتی مدد اور پالیسیوں پر انحصار کرتیں رہتی ہیں اور خود کچھ کرنے کی زحمت نہیں کرتیں وہ کبھی ترقی یافتہ اقوام کے برابر نہیں چل سکتیں بلکہ کوسوں دور کچھوے کی چال چل رہی ہوتیں ہیں۔ہنزہ کی عوام قابلِ داد و تحسین ہے جس نے اس حقیقت کو سمجھا اور اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت کاڈو جیسے ادارے قائم کئے۔ اور آج ان کے اس مقدس جذبے کا ثمریہ ہے کہ ہنزہ کی مارکیٹوں میں ڈھونڈنے پر بھی آپ کو کوئی گداگر نہیں ملے گا اور روزگار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ یقیناً اس حوالے سے پاکستان اور گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں کیلئے ہنزہ کی عوام نمونہِ عمل ہے۔

محترم اشتیاق احمد یادؔ صاحب نے مشاہداتی دورے کے اغراض و مقاصد بتائے اور کاڈو کے ذمہ دار عہدیدارں کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ عباس علی خان صاحب نے ادارے کے وجود میں آنے کے محرکات ، ارتقاء ،حالیہ صورتحال اورکارناموں پر تفصیلاً روشنی ڈالی۔ کاڑو ایک غیر سرکاری فلاحی ادارہ ہے جس کو ہنزہ کی کمیونٹی نے ۱۹۹۶ میں قائم کیا تھا۔ اس ادارے کا مقصد ایک صحت مند معاشرے کا قیام ہے جو سماجی، معاشی، معاشرتی ، ثقافتی انصاف اور صنفی مساوات پر مبنی ہو۔اپنے اس مقصد کے حصول کیلئے ادارہ اپنی زیادہ تر توجہ ان افراد کو مختلف ہنر سکھا نے ، انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے ، ان کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ غیر پیداوار سے پیداوار بنانے پر مرکوز کرتا ہے جو سماج میں ایک نارمل انسان کی طرح زندگی گزارنے سے مختلف جسمانی و ذہنی معذوریوں اور صنفی امتیاز کے سبب قاصر ہیں۔ کاڈو نے ۳۰۰۰ اسپیشل افراد یعنٰی معذور افراد کو کوئی نہ کوئی ہنر سکھایا ہوا ہے۔ کئی ایک خواتین کو لکڑی سے گھریلو اوزار بنانے کی ٹریننگ دی ہوئی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ہمیں کیمپس میں موجود سپیشل افراد سے ملوایا گیا جو شرما (شرما ایک قسم کی قالین ہوتی ہے جو بکریوں کے بالوں سے بنائی جاتی ہے ) بنانے میں مصروف تھے۔ عباس علی خان صاحب نے بتایا کہ یہ اسپیشل افراد گزشتہ ۲۰ سالوں سے کاڑو کیساتھ ہیں جنہیں مناسب وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ ہمیں کچھ خواتین سے بھی ملوایا گیا جو مختلف گھریلو اوزار بنالائی تھیں۔ یہ اشیاء مقامی لوگوں کو مناسب داموں بیجھے جاتے ہیں جو بڑے ذوق کیساتھ ان اشیاء کو خریدتے ہیں۔ عباس علی خان صاحب نے ہمیں دوسرے کیمپس کی طرف راہنمائی کہ جہاں خواتین دستکاری میں مصروف تھیں۔جنہوں نے روایتی ٹوپیاں ، شال ، پرس اور اس طرح کی دیگر اشیاء تیار کی تھیں۔ کاڈو نے ۳۰۰۰ خواتین کو دستکاری کے فن کی تربیت دی ہے جن میں سے ۵ خواتین نے اپنی علیحٰدہ کمپنیاں بھی کھول رکھی ہیں جو کہ گلگت بلتستان کے اس قدامت پسند معاشرے میںیہ کسی کمال سے ہرگز کم نہیں ہے جہاں عورت کی حیثیت اس جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں بھی قدیم یورپ کے فیوڈل معاشرے کی عورت کی سی ہے۔ جہاں مرد نے مختلف حربے اور روایات کو استمال میں لا کر انہیں اپنے زیرِ اثر رکھنے کیلئے کبھی گھر کی چہار دیواری میں تو کبھی بھاری بھرکم لباس میں مقید کر کے فرمانبردار و مطیع بنا کر انہیں سماجی ، سیاسی ، فیصلہ سازی، معاشی و دیگر میدانوں میں پسماندہ رکھا ہوا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ صنفی مساوات کسی بھی سماج کی ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔مجھے کاڈو میں خواتین کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر وہ دور زیادہ دور نہیں دکھائی دیا کہ جب خواتین اپنے حقوق سے آگاہ ہو کر سماج کی ترقی کیلئے تمام شعبہ ہائے جات میں مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہونگی۔ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم کاڑو کے شو روم پہنچنے کیلئے ایک مرتبہ پھر جنگلوں کے بیچ سے گزرنے والی تنگ سڑک پر بس دوڈا رہے تھے۔

موسم دلفریب تھا، آسمان میں ہلکے ہلکے بادلوں کے بیچ سے سورج کی شعائیں پہاڑوں کی سفید ٹوپیوں پر سے منعکس ہو کر زمین پر پڑھ رہی تھیں۔گاڑی میں بیٹھے عباس علی خان صاحب ہمیں بتا رہے تھے کہ گرمیوں میں ہنزہ کی طرف بیرونِ ملک سے اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے سیاحوں کا سیلاب امڈ آتا ہے جس کے نتیجے میں ہوٹلوں میں رہنے کیلئے جگہ کم پڑھ جاتی ہے تو ہنزہ کے لوگ اپنے مہمان خانوں کے دروازے کھول دیتے ہیں اور بعض سیاح کھیتوں کھلیانوں میں خیمہ زن ہوتے ہیں۔ہم کچھ ہی دیر بعد شو روم پہنچ چکے تھے جہاں کاڈو میں مختلف جتن سے گزرنے کے بعد تیار ہونیوالی اشیاء جلوہ افروز تھیں۔ گلگت بلتستان کے روایتی لباس کے علاوہ یہاں زیادہ تر زیورات اور رنگ برنگ کے مالا منکے تھے جو قیمتی پتھروں کو تراش کر بنائے گئے تھے۔ گلگت بلتستان میں معدنیات کی بہتات ہے خاص کر قیمتی پتھروں کی۔ لیکن بقول اشتیاق احمد یادؔ صاحب کے ’’ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو قیمتی پتھروں کے بستر میں بھوکے سوتے ہیں ۔‘‘ یہ قیمتی پتھر نارسیدہ حالت میں ہوتے ہیں لیکن ان کو کارآمد بنانے کا کام حکومت اور عوام کیلئے سوالیہ نشان ہے۔ کاڈو اس حوالے سے قابلِ داد و تحسین ہے کہ معاشرے میں بیکار سمجھے جانے والے افراد کو تربیت دے کر مختلف مشینوں کے ذریعے خام قیمتی پتھروں کی انٹرنیشنل لیول کی کترائی کر کے انہیں بیش قیمت بناتا ہے جس سے لوگوں کو روزگار بھی ملتا ہے اور ملک کی مجموعی معیشت پر مثبت اثر بھی پڑتا ہے۔ ہمیں ان خواتین سے بھی ملوایا گیا جو پتھروں کی تراش خراش میں مشغول تھیں۔آخر میں ہمیں ایک عمارت دکھائی گئی جسے صرف خواتین نے تعمیر کیا تھا۔ یہ ایک خوبصورت اور پرانے طرز کی عمارت تھی جسے کمال مہارت کیساتھ بنایا گیا تھا جسے دیکھ کر یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ اگر خواتین کو مواقعے فراہم کیئے جائیں تو وہ اپنی مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مردوں کے برابر کام کر سکتیں ہیں۔ یہاں پر ہمارا مشاہداتی دورہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ ہم نے عباس علی خان صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان سے رخصت ہوکر قریب ہی پروفیسر اجلال صاحب کے ہوٹل میں کھانا تناول کرنے لگے۔

کھانا تناول کرنے کے بعد ہم سیر و تفریح کے غرض سے بلتت قلعے کی طرف پیدل روانہ ہوئے۔ بلتِت قلعے کے صحن کا منظر نہایت خوبصورت تھا جہاں سے قریب کی تمام وادیاں ہتھیلی کی طرح دکھائی دے رہی تھیں اور ہم نے ان خوبصورت مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔ بلتت قلعے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ قلعہ تقریباً ۷۰۰ سال قبل تعمیر کیا گیا ہے۔ ہنزہ کے راجا پہلے التِت کے قلعے میں رہتے تھے جو کہ بلتِت قلعے کے قریب ہی واقع ہے۔ لیکن راجا سلطان کے دو بیٹے شابوس اور علیخان کے درمیان اختلاف کی وجہ سے شابوس بلتت کے قلعے میں منتقل ہوگیا اور علیخان کی موت کے بعد امورِ سلطنت بلتِت کے قلعے میں ہی طے ہونے لگے۔ بلتِت قلعے کے بعد ہم عطا آباد جھیل کی طرف روانہ ہوئے۔ سورج کا چہرہ بھجنے والا تھا لیکن سب کے چہرے نئی نئی جگہوں کو دیکھ کر پُر رونق دکھائی دے رہے تھے۔ قراقرم ہائی وے پر بنی بڑی بڑی سرنگوں سے ہوتے ہوئے ہم عطا آبادجھیل پہنچے۔ ہم بس میں سے اترے اور بس کے ٹیپ ریکارڈرسے اونچی آواز میں روایتی گیت آن کیے اور خوب روایتی رقص کرنے لگے۔احمد سلیم سلیمی صاحب اور اشتیاق احمد یادؔ صاحب روایتی رقص کے بہت ہی دلدادہ لگتے ہیں۔ میں پہلے کبھی نہیں ناچا نہیں تھا پھر بھی جیسے تیسے دوستوں کیساتھ ہاتھ پیر ہلانے لگا۔رقص خوشی کا اظہار ہے جس سے انسان زندگی کی خوبصورتی کو خراج پیش کرتا ہے۔

سورج اپنی آخری سانسیں گن رہا تھااورشام کے سائے گہرے ہو رہے تھے ہم عطا آباد جھیل سے تھوڑا آگے جا کر ایک نالے میں رُکے اور پھل نالے کے یخ پانی میں دھو کے کھانے لگے۔ کچھ دیر رُکنے کے بعد ہم واپس گلگت شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ بس کے ٹیپ ریکارڈر سے خوبصورت گیت کانوں میں رس غول رہے تھے۔ آکہیں دور چلے جائیں ہم ۔۔۔ دور اتنا کہ ہمیں چھو نہ سکے کوئی غم۔ اشتیاق احمد یاد صاحب اور احمد سلیم سلیمی صاحب ان گیتوں کی آواز کیساتھ جومتے اورواہ! واہ! کرتے جیسے دل کی آواز کو اشعار کے قالب میں ڈال کر کہنے والے شاعر کے مشاعرے میں ہوتا ہے۔باقی طلباء بھی ان کے ساتھ جھوم رہے تھے۔ ہم جگلوٹ گاہ گورو کے ایک ہوٹل میں رُکے اور چائے کا آرڈر دیا۔ قریب نالے سے آنیوالی یخ ہوا دل و دماغ کو ایک عجب سکون دے رہی تھی۔کچھ دیر بعدچائے آ گئی ، چائے کے سِپ لیتے ہوئے محترم اشتیاق احمد یادؔ صاحب اور احمد سلیم سلیمی صاحب نے طلباء سے پوچھا کہ وہ کالج سے فارغ ہونے کے بعد کون سے شعبے میں اپنی پڑھائی جاری رکھناچاہتے ہیں؟ طلباء کے جوابات مختلف تھے جنہیں سننے کے بعد اشتیاق احمد یاد صاحب نے بتایا کہ دنیا کا کوئی بھی مضمون بے کار نہیں ہوتا ۔ اگر انسان محنت کرے اور اس مضمون میں اچھی طرح مہارت حاصل کر لے تو اپنے لئے اور دوسروں کیلئے اپنے علم سے فائدہ پہنچا سکتا ہے اور اگر انسان محنت سے جی چرائے اور اپنے مضمون میں اچھی طرح دسترس حاصل نہ کر لے تو دنیا کے سب سے بہترین مضمون میں ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بھی وہ اپنی زندگی خوار ہو کر گزارے گا۔

انسان کی زندگی میں کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں جن کیلئے دل کرتا ہے کہ سفر ختم نہ ہو۔ یہ سفر بھی میرے لئے ایک ایسا سفر تھا۔ میں دعا کر رہا تھا کہ دنیور پہنچنے کیلئے مذید دو تین گھنٹے لگ جائیں لیکن کچھ ہی دیر میں ہم دنیور پہنچ چکے تھے میں دنیور میں اترا اور اس خوبصورت اور پُر لطف سفر کو اپنے حافظے میں محفوظ کر کے گھر کی اور چل دیا۔ اور اِس وقت میں دریائے سندھ کے کنارے دریا سے آنیوالی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، قریب واقع جنگل میں کِھلے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو، ہلکی ہلکی بارش اور اپنے موبائل پہ بجنے والے گیت کی محفل میں یہ روداد چہرہِ قرطاس پر اتار رہا ہوں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button