تحریر شمس الرحمن شمس
گلگت بلتستان میں ٹیکسز کا نفاظ صوبائی حکومت کی ناکامی، گلگت بلتستان کی15لاکھ سے ذائد عوام سراپا احتجاج، وفاقی حکومت کا گلگت بلتستان کے عوام پر ہونے والی ظلم اور ذیادتی پر عدم دلچسپی معنی خیز ۔۔۔۔۔؟
اس امر سے انکاری نہیں کہ سابقہ دور حکومت نے سیلف گورننس آرڈر 2009کے تحت گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ دیکر یہاں کے عوام کو آئین پاکستان کے دائرہ کار میں شامل کرنے کے لئے ابتدائی کاروائی کی۔۔۔۔۔ اور اس آرڈر کے تحت گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی وجود میں آیا ۔۔۔۔۔جس کی روح سے گورنر ،وزیر اعلیٰ ،اپوزیشن لیڈر سمیت وزراء جیسے اہم عہدے وجود میں آئے جبکہ تمام تر اختیارات کے ساتھ گلگت بلتستان کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا جو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے لئے سینٹ کا درجہ رکھتا ہے۔۔۔۔
جی بی کونسل کے ان ممبران نے گلگت بلتستان کے عوام کو آئین پاکستان میں ترمیم لا کر مکمل طور پر پاکستانی شہریت کے حامل شہری بنانے کے شرط سے مشروط کر کے چند تجاویزات کو ذیر غور لایا لیکن مکمل آئینی حثیت دینے تک اس فارمولے پر کوئی عمل در آمد نہیں ہوا کیونکہ جو شرط رکھا گیا تھا گلگت بلتستان کے15لاکھ عوام کو پاکستانی شہریت دینے کا شرط مکمل نہ ہونے پر یہ التواء کا شکار رہا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت نے سابقہ حکومت کے تجاویز کو بغیر کسی شرط مکمل طور پر عمل در آمد کر کے گلگت بلتستان کی عوام پر قانون کی شکل میں لاگو کر دیا ہے۔۔۔۔۔ اور گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت نے بغیر قومی اسمبلی اور سنیٹ میں نمائندگی دیئے عوام سے ٹیکسز وصول کر کے وفاقی آقاوں کو خوش کرنے کی گہری محبت کا اظہار کیا ۔۔۔۔۔ جسکو گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کی عوام نے مکمل طور پر شٹر ڈاون ہڑ تال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ گلگت بلتستان کو آئین پاکستان میں ترمیم کئے بغیر عوام سے ٹیکس وصول نہیں کرے گی۔
صوبائی حکومت کے نام نہاد وزراء کی روزانہ بنیاد پر پریس کانفرنسز کر کے جی بی کی عوام کو بیوقوف بنانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے لیکن اب گلگت بلتستان کی عوام صوبائی حکومت کی بے اختیاری اور بے بسی کو جان چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ گلگت بلتستان کی عوام کو آئین پاکستان میں داخل کئے بغیر ٹیکسز کا نفاظ ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ جی بی کونسل کے ممبران اہلیت کے بجائے بے اختیاری کا شکار ہیں ۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کا انوکھا ڈ رامہ عوامی عدالت میں پیش کرنا میری اولین ذ مہ داری کا حصہ ہے صوبائی حکومت نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کو منظور کروا کر گزٹ میں شائع کر کے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اس ایکٹ کو2014ایکٹ کا نام دیکر منظور کروایا حالانکہ یہ ایکٹ2016میں منظور ہوا ہے جسمیں گلگت بلتستان کے تمام دیہاتوں میں دوکان ،مکان ،مویشی خانے کی تعمیر پولٹری فارم ،میڈکل سٹور و دیگر پر باقاعدہ ٹیکسز لاگو کر کے ضلعی کونسل کے ذریعے سے وصولی شروع کر دی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔یہ وہ عجیب و غریب سانحات اور واقعات ہیں جومسلم لیگ ن کے وزراء اور ممبران اپنے آقاوں کی خوشنودی کے حصول کے لئے گلگت بلتستان کے 15لاکھ عوام پر طرح طرح کے حربوں سے ظلم و ذیادتی جاری رکھا ہے۔۔۔۔۔۔ سن لو حکومت کے کارندوں اب گلگت بلتستان کی عوام آپ کے ارادوں کو جان چکی ہے آئندہ انتخابات میں سزا اور جزا کا فیصلہ کر چکے ہیں اب تم جتنے بھی مایوسی کی عالم میں اپنے وزراء کی فوج سے عوام کو بیوقوف بنانے کے سازشیں کرو گے اس کا واحد نتیجہ شکست کے سوا کچھ نہیں ہے ۔۔۔۔۔کیونکہ گلگت بلتستان میں ہر طرف آپ کے کرتوت عیاں ہو چکے ہیں آپ کی بھلائی اسی میں ہے کہ اپنی پسپائی کا اعتراف کرتے ہوئے عوام کے ساتھ شامل ہو کر اپنے اور عوام کے حقوق کے لئے بحثیت گلگت بلتستانی آواز بلند کریں ۔۔۔۔۔
اس شعر کے ساتھ اجازت
مایوس نہ ہو اہل وطن اپنی ذمیں سے
دھر تی میں ابھی صاحب کردار بہت ہیں