بلاگز

کمینہ

اُس روز چودہ فروری کو ایم ایم عالم روڈ پر سرسری ملاقات کو لگ بھگ دو ماہ بیت چکے تھے، بے قراری اپنی آخری انتہا کو چھو رہی تھی، نیم خوابیدگی عذاب کی سی صورت اختیار کرچکی تھی اور اس کی مختصر کال کا انتظار طویل ہوتا جا رہا تھا۔ بقول ادا جعفری؎

بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں

سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا

اور پھر حفیظ ہوشیارپوری نے تو گویا پوری پریم کتھا ہوشیاری کی بجائے برملا سادگی سے اِک شعر میں سمو دی ہو جیسے!

تمام عمر تیرا انتظار ہم نے کیا

اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا

یخ بستہ راتیں رخصت ہو چکی تھیں اور دیدے تھک ہار چکے تھے، وہ آیا نہ اس کا برقی سندیسہ آیا، اوپر سے یہ ‘کلپنا’ کہ وہ اسی شہر میں ہے، اُف خدایا!

نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں۔۔

بھلا ہو اپریل کا جسے عموماً ’ٹرانزیشنل منتھ‘ کہا جاتا ہے کہ آخری تاریخوں میں وہ خود آن ٹپکی۔ آفس میں بیٹھے ہم اپنے سٹاف کے ہمراہ ماہانہ کارکردگی کی جائزہ رپورٹ تیار کر رہے تھے کہ اچانک یوں لگا جیسے ہمارے کمرے کے سامنے سے ابھی ابھی وہ گزری ہو۔ میٹنگ آن ہولڈ کی، باہر لپکے، دیکھا تو وہی سر وقد، کالے سیاہ کھلے بالوں والی، بڑی بڑی کالی آنکھوں والی، فلیٹ جوتوں میں بھی نمایاں دِکھنے والی وہ ’کمینی‘ مقامی سٹاف کے ہمراہ کچھ انگریز مہمانوں کے ساتھ محو گفتگو تھی۔ یہ ایک بین الاقوامی ادارے کے ’ایکسپرٹس‘ تھے جو پاکستان میں چند ایک پرائیوٹ کمپنیوں کے ورک فلو اور ہیومن ریسورس کا موازنہ کرنے یہاں لاہور پہنچے تھے۔ معلوم ہوا ہفتہ بھر اس وفد کی ہمارے ہاں آنیاں جانیاں لگی رہیں گی۔ ہمارے فلور پر قائم مختلف ڈیپارٹمنٹس کا وزٹ مکمل کرنے کے بعد ُنکڑ میں واقع ہمارے ڈیرہ نما کمرے کی جانب وفد چلا ہی تھا کہ اُس کی نظر کمرے کے باہر کھڑے اِس خاکسار پر آن رُکی۔ روایتی انداز میں فوراً لپکی، دونوں ہاتھوں کی انگلیاں جوڑ کر ہماری جانب اشارہ کرتے ہوئے اس نے اپنے کولیگز سے ہمارا تعارف کرایا۔ اس دوران وہ اپنے بائیں ہاتھ کی آخری دو انگلیوں میں ایک ویڈنگ رِنگ اور دوسری لاجوردی پتھر والی انگوٹھی مسلسل گھماتی رہی۔ ہمارے قاعدے کے مطابق تو موصوفہ کے ہاں دونوں انگوٹھیاں اگر ہمارے نام کی ہی ہوتیں تو زیادہ افضل ہوتا لیکن صرف لاجوردی انگوٹھی ہماری نشانی کے طور پر اس کے ہاتھ میں نو برس بعد بھی بہرحال موجود تھی۔ یہ لاجوردی تا قیامت ربطِ باہمی کے لئے ’پریاپت‘ تھی۔

خیر روایتی تعارف کے بعد ہم نے مارے مروت کے ان سب کو کافی آفر کر دی۔ وفد میں شامل ایک نسبتا بزرگ شخص نے انگریزی میں کہا، ’’یس! وائے ناٹ۔۔ بٹ آئی ہَرڈ فرام ہَر دیٹ یُو کین ٹیک اَس آل ٹُو اِنٹرئیر لاہور، ہاوُ آباوُٹ گوئنگ دیئر دِس ایوننگ؟‘‘

Yes. Why not? But I heard from her that you can take us all to interior Lahore. How about going there this evening?

اور ہم سوائے ’یس‘ کہنے کے مزید کچھ نہ کہہ پائے کہ آنکھیں اس سروقد ماہ رخ کا طواف فرما رہی تھیں۔ خوشگوار موڈ میں رسمی جملوں کا تبادلہ ہونے کے بعد وفد رخصت ہوا تو وہ پیچھے رُک گئی۔ بھلا کیسے نہ رکتی؟ اُسے تو رکنا ہی تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ ایک وقت تھا جب ہم دونوں کو سوال پوچھنے کے لیے لفظ بے جا اور بوجھل معلوم ہوا کرتے تھے، آنکھیں سب کہتی تھیں، آنکھیں سب سمجھتی تھیں، ہم صرف ہاں، ناں میں بات کرتے۔ شاید آج بھی وہ ہماری آنکھوں میں چھُپا سوال پڑھ چکی تھی۔ جبھی تو فوراً کہا:

Sorry. I was busy in dealing with kids and in-laws. You know I can’t adjust for long here in Lahore.

اس لیے کال بھی نہ کر سکی۔ یہ گورے امریکہ میں میرے کولیگ ہیں اور ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں یہاں آئے ہیں، انہیں معلوم تھا میں ان دنوں سالانہ تعطیلات پر لاہور میں ہی ہوں تو ’دے کالڈ می کہ وائے ڈونٹ یُو ہیلپ اَس۔‘

They called me that why don’t you help us.

اب تم سے ملاقات ہوتی رہے گی۔ یہ سنتے ہوئے ہماری بوتھیا پر عجب سرشاری تھی، ایکسرپیشن کنٹرول کرنا محال ہوا پڑا تھا کہ جاتے ہوئے وہ بولی:

سنو! تم نے اپنی ضد نہیں چھوڑنی؟

شادی کر لو پلیز!

ہم خاموش رہے۔

وہ پھر بولی: نہیں کی ناں شادی؟

ہم اثبات میں سر ہلانا چاہ رہے تھے کہ عادت سے مجبور کھوپڑی نفی میں ہل گئی۔

وہ بولی: دیکھا! مجھے اندازہ تھا کہ تم شادی نہیں کرو گے۔ میرے سِرے چڑھو گے۔

You are making my life like real hell.

یُو آر میکنگ مائی لائف لائیک سیریس ہیل! شام کو مجھے ڈیفنس فیز فور سے پِک کر لینا ہم مل کر اس وفد کو پی سی سے ساتھ لے لیں گے پھر اندرون لاہور جانا ہے۔

سرشام ہم فیز فور جا پہنچے۔ اسے پِک کیا اور پی سی ہوٹل کا رخ کر لیا۔ خاموشی طویل ہوئی تو وہ کہنے لگی، ارے واہ! یہ تو وہی سانگ لسٹ ہے جو میں نے کمپائیل کرکے تمہیں برتھ ڈے پر دی تھی۔ ?Is it the same کہا: جی! وہی عابدہ جی ہیں، وہی نصرت ہیں، وہی سنیدی چوہان کا ’چور بازاری دو نینوں کی‘ وہی پنک فلائڈ کا ’کمفرٹیبلی نمب‘ اور وہی مغل اعظم میں استاد بڑے غلام علی کی گائی ٹھمری۔ سب ویسے کا ویسا ہی تو ہے سوائے تمہارے! دیکھو ناں! ہم نے تو شادی بھی نہیں کی اور تم! اس کے بعد خاموشی کا راج رہا، ہم اندرون لاہور جا پہنچے اور رات گئے تک ادھر ادھر کی گپیں ہانکتے رہے۔

اگلے چند روز وفد کے ہمراہ وہ ہمارے آفس آتی رہی اور ہماری معمول کے علاوہ روزانہ طویل دورانیے کی ’ون آن ون‘ ملاقتیں بھی ہوتی رہیں۔ کتھارسس جاری تھا، وہ حسب معمول ’ڈیوی ڈوف‘ کی کالی سیاہ کافی ہمارے کمرے میں نوش کر رہی تھی، اورخاکسار آستینیں قدرے اوپر چڑھائے ’مارلبرو‘ سگریٹ پھونک رہا تھا۔ بیک گراونڈ میں عزیز میاں قوال مستی میں گائے جا رہے تھے کہ اُس نے پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے مجھے اپنی کافی تھما دی اور ہمارے ہاتھ سے سگریٹ تھام لیا۔ ہم نے ایک گھونٹ پیا تھا اور اس نے دو کش لیے تھے کہ وہ بولی، لانگ ڈرائیو پر موٹروے چلیں؟ بھیرہ تک؟ جہاں اکثر ملک خُداداد کے ہاں چائے پیا کرتے تھے؟

I so much want to spend the rest of my time here with you.

تاکہ تمہارا عمر بھر کا شکوہ کسی حد تک تو کم ہو ناں۔ یہ سنتے ہی ہم فوری اُٹھ کھڑے ہوئے، چلو! ابھی چلتے ہیں۔ یہ کہا ہی تھا کہ ہمارے ٹیم ممبرز اندر آن ٹپکے اور کہا کہ سر وہ کیک کب کاٹنا ہے؟ ہم یک دم گویا بوکھلا سے گئے۔ اور تقریباً گرتے گرتے واپس اپنی کرسی پر ڈھیر ہوئے۔ ہاں ہاں! کاٹتے ہیں کیک بھی، کاٹتے ہیں، کاٹتے ہیں، ابھی باہر رکھو، شام میں دیکھیں گے۔

اس نے کافی سائیڈ ٹیبل پر رکھی، اور ایکسائٹڈ ہو کر بولی، ارے! وائے ناٹ ناوُ؟ ابھی میری موجودگی میں کاٹو نا کیک! کس کا کیک ہے؟ کس کی برتھ ڈے ہے؟ تمہاری برتھ ڈے تو اپریل میں نہیں ہوتی۔ بُلاؤ اپنی ٹیم کو اندر اینڈ لیٹس سیلیبریٹ۔ ٹیم میں شامل دو لڑکیاں اور تین لڑکے دروازے پر ہی کھڑے تھے، انہیں باہر بھیجنا مشکل تھا اور انہیں اندر بُلانا اس سے کہیں زیادہ محال۔ یہ منچلے فوراً اندر آن پہنچے۔ کیک کھولا، موم بتیاں جلائیں، ماحول بنایا اور ہم تھے کہ صدمے کی کیفیت میں مرنے کے قریب۔ کیک پر لکھی عبارت دیکھ کر اس کا چہرہ بھی لال ہو کر مکمل تپ چکا تھا۔ میری ٹیم نے افسردہ ہوتے ماحول کو دیکھ کر فورا کہا میڈم ایکچوئلی آج سر کی ’ویڈنگ اینی ورسری‘ ہے۔ سو، آج ہم نے ایک کیک بھابی کے آفس جا کر کاٹا ہے اور دوسرا ابھی سر کے ساتھ کاٹیں گے۔ آپ بھی آگے آئیں ناں۔ لیٹس کٹ اِٹ سر۔۔!

معلوم نہیں کیسے کیک کٹ گیا، بٹ گیا۔ ٹیم ممبرز نے سب کو ایک ایک پیس چاکلیٹ فج کیک ڈال کر دیا، اور اپنا اپنا حصہ لے کر خود باہر چلے گئے۔ کمرے میں اب ہم دونوں ہی موجود تھے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تو مفلوج ہو چکی تھی لہذا معاملات اوپر والے کے سپرد کر دئیے۔ اس سے پہلے کہ نیچر خود حرکت میں آتی، وہ اٹھی، مسکرائی، کیک کا ٹکرا ہمارے منہ پر مارا اور زور دار طریقے سے دروازہ بند کرتے ہوئے چل دی۔

ٹشو پیپر سے وائیٹ شرٹ صاف کرتے ہوئے ہماری سماعتیں سائیں سائیں کے علاوہ فقط ایک اور آواز سُن پائیں۔ آواز اُسی کی تھی، لفظ ایک ہی تھا، اور بآواز بلند ادا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔

کمینہ۔۔۔!!!

———————-

بشکریہ اجمل جامی

 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button