شمس الحق قمر
چترال کے باسیوں کی مہمان نوازی اور امن پسندی پوری دنیا میں مشہور ہے ۔ اسی سال کی بات ہے کہ میری ملاقات کر اچی کے ایک سیاح سے ہوئی ۔ اپنے مکمل تعارف پر جب اُسے یہ معلوم ہوا کہ میرا تعلق چترال سے ہے تو اُس نے اپنے پچھلے سال کے چترال کے دورے کا ایک وقعہ سنایا ۔ سیاح رات کے وقت چترال پہنچے جب ہوٹل پہنچے تو اُس کے پورے سامان میں سے ایک بیگ غائب تھا جس کے اندر پچاس ہزار روپے مالیت کے ایک کیمرے کے علاوہ کچھ اور قیمتی اشیا تھیں۔ سیاح پریشانی کے عالم میں پوری رات کروٹیں بدلتا رہا ۔ صبح سویرے اُ س کے موبائل میں کسی انجان نمبر سے کال آئی ، کال کرنے والے نے اپنا تعارف اپنی زبان میں کیا ( کھوار ) اُس کے بعد اُس نے اُردومیں باتیں کرتے ہوئے کہا کہ آج صبح نماز سے واپسی پر اُسے ایک بیگ ملا ہے جس کے اوپر ایک کارڈ چسپان تھا اور اُس کارڈ پر یہ نمبر لکھا ہوا تھا ۔ سیاح نے اُس شخص سے اُس کا مقام پوچھا تاکہ وہاں سے اپنا بیگ اُٹھاسکے لیکن چترال کے مہمان نواز باسی نے مہمان کے ہوٹل کا پتا پوچھا اور چند لمحوں کے بعد بیگ لیکر حاضر ہوا ۔ سیاح نے چترال کے نوجواں کوشکرانے کی پیش کش کی لیکن نوجواں نے یہ کہتے ہوئے شکرانے کے وصول سے انکارکیا ’’ مجھے خوشی ہے کہ میں نے اپنے علاقے کی روایات کی پاسداری کی ہے ۔ آپ ہمارے مہمان ہیں آپ کی عزت و آبرو اور آپ کی جان و مال کی حفاظت ہمارا فرض ہے ‘‘ کراچی کا سیاح جب مجھے یہ کہانی بتا رہے تھے تو وہ اِتنے جذباتی ہو گئے تھے کہ اُس کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے اور اُس کی آنکھیں پرنم تھیں۔
اس کہانی کے علاوہ کئی ایک ایسے واقعات ہیں جو چترال کے لوگوں کو باقی تمام لوگوں سے ممتاز کرتے ہیں ۔ ان واقعات سےقطع نظر لوگوں کے مصافحے کے انداز میں جو کشش اور اپنائیت پائی جاتی ہے وہ قابل ستائش ہے ۔ شرین ، بلبل، مہ سوم غیچھان روشتی ، مہ بازو ، مہ طاقتو ٹیپی ، مہ دینار، مہ ژانو زاہی ، مہ کھوڑان خاون ، مہ شرین میکی ، مہ شرین بیچی ، مہ شرین کائے ، مہ شرین نان، مہ شرین اسپسار، مہ شرین کائے ، مہ شرین برار ، مہ شرین بابا، مہ شرین ژور اور مہ شرین ژاو وغیرہ ایسے مقناطیسی الفاظ ہیں کہ دشمن کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں ۔ ایسے دعائیہ الفاظ اور کلمات دوسری زبانوں میں بھی مستعمل ہیں لیکن اتنے نہیں جنتے کھوار میں ۔ ہمارے پرکھوں نے اس تہذیب کی قرنوں کی مسلسل محنت اور دل و جان سے آبیاری کی ہے تب جاکے یہ تہذیب اپنے اوج کمال کو پہنچی ہے ۔ مذکورہ الفاظ میں مہر ومحبت کی جو طاقت ہے وہ بہت ہی انوکھی اور شاندار ہے ۔
لیکن ان تمام سے بڑھ کر چترال کے لوگوں نے گزشتہ دنوں پرنس کریم آغا خان کی چترال آمد پر جس خلوص ، یگانگت، بھائی چارگی ااور اتفاق کا مظاہرہ کیا اُس کی مثال دنیا کوئی کسی اور ملک یا قوم میں قطعی طور پر موجود نہیں۔ گویا چترال کے لوگوں نے ا یک نئی تاریخ رقم کی ۔ یہی دین اسلام کی تبلیغ ہے ۔ اس ضمن میں اہل سنت بہن بھائیوں کی مثالی مہمان نوازی قابل صد تحسین رہی ۔ بالائی چترال میں پرنس شاہ کریم کے مریدوں اور ملاقاتیوں کی تعداد لاکھوں میں تھی ان کے قیام و طعام کا بندوسبت انتہائی مشکل کام تھا اس کام میں اگر اہل سنت بہن بھائیوں کی امداد شامل حال نہ ہوتی تو شاید مہمانوں کی خاطر خواہ روایتی تواضع اور خاطر مدارت کافقدان پیدا ہوتا ۔ گلی کوچوں کی صفائی ، پینے کے پانی کا بندوبست ، سڑکوں کی مرمت ، عارضی پلوں کی تعمیر اور مہمانوں کو اپنے گھروں میں بہترین تواضع کے ساتھ ٹھہرانے کے علاوہ ہمارے بھائیوں نے اپنی گاڑیاں اور ہر قسم کی مشینین مفت فراہم کیں ۔ امام کی ملاقات کے مقام کی تعمیر میں بونی اور گردو نواح کے تمام اہل سنت بھائیوں نے اسماعیلیوں سے ایک بالشت آگے نکل کے کام کیا ۔ اسماعیلی فرقے کے لوگوں کے پاس الفاظ نہیں کہ جن کے استعمال سے شکریے کا حق ادا ہو ۔ ہم نے اپنے آباو اجداد سے سن رکھا تھا کہ بہت قدیم زمانے میں ایسی روایات موجود تھیں لیکن بعد میں جدید زمانے کے مشینی دور نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کر دیا تھا لیکن آج دوبارہ وہی مثال قائم ہوئی ۔ ہم سلام پیش کرتے ہیں اُن خواتین و حضرات کو جنہوں نے ہماری پرانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے دنیا کو یہ بتا دیا کہ ہم پہلے انسان ہیں اور اس کے بعد مسلک، رنگ ، نسل اور زبانوں میں تقسیم ہے ۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر نبی پاک ﷺ کی سکھائی ہوئی تعلیمات کی روشنی میں چل کر اُخوت اور بھائی چارگی سیکھنی ہو تو اہل سنت بہن بھائیو ں کے نقش ِ قدم کو مشعل راہ بنایا جائے ۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button