زہرا کی یاد میں لکھی ہوئی صفی سرحدی کی آزاد نظم نے رُلا دیا۔ ننھی زہرا جو ریپ کے بعد سفاکیت سے قتل کردی گئی تھی۔ اس نظم کو محسوس کرنے کے لیے اپنے بچوں کو ذہن میں لانا ضروری ہے۔ نظم پیش خدمت ہے پڑھئیے، روئیے اور سر دھنئیے۔ اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟؟؟
’’اس کا پھول جیسا وجود
شکاری کے قبضے میں تھا
وہ کلی بہت چیختی رہی
امی ابو بھائی کو پکارتی رہی
پر امی ابو اور بھائی
اسکی آواز نہیں سن سکے
اسے کتنا دور لیجایا گیا تھا
معلوم ہے کچھ؟
کیا جاننا چاھتے ہو؟
چھوڑو یار……
جان کر کیا کروگے۔
وہاں ویسے بھی
اس درندے کے سوا
کوئی انسان تو موجود نہیں تھا۔
جو اسے بچا لیتا
یا پھر …
راز دار رہنے کیلئے
وہ بھی اس کلی کو نوچتا
اس وحشی جانور نے
کلی کے کل وجود سے
کپڑے کچھ یوں زبردستی اتارے
جیسے بکری کی کھال اتاری جاتی ہے
وہ وحشی اس کے نازک بدن کو
اپنے پیلے زہلریے دانتوں سے چباتا رہا
ایک بے بس معصوم تڑپتی بچی پر
وہ بھوکے کتے کیطرح ٹوٹ پڑا تھا
وہ معصوم تو بہت روتی رہی
بے چاری بہت منتیں کرتی رہی
اگر وہ درندہ زندگی میں کبھی رویا ہوتا
تو ضرور اسے معصوم بچی پر ترس آتا
انسان نام کے اس جانور کے دل میں
رحم نام کی کوئی شے باقی نہیں تھی
ہوس کی بھوک مٹانے کے بعد
اس درندے نے جب کلی کو مسل دیا
تو روئے زمین پر بوج بننے والی
اپنی گندی شلوار باندھ کر
جب وہ حرامی گھر جانے لگا
تو اس نے خود سے کہا
اج تو کچے گوشت کا مزہ آگیا
جبکہ اوپر وہ معصوم کلی
خدا سے پوچھ رہی تھی
تم نے مجھے کیوں نہیں بچایا
ماں تو کہتی تھی
تم سب دیکھتے رہتے ہو
پھر تم نے کیوں مجھے نہیں بچایا
یہ کہہ کر وہ معصوم بچی مڑی
اور خدا سے جاتے جاتے کہنے لگی
میں تمہیں معاف نہیں کرونگی
اور خدا یہ سن کر رونے لگا۔‘‘
بس جاتے جاتے میری ایک گزارش ہے کہ اس ظالم درندہ صفت انسان پر ہر نماز کے بعد لعنت بھیجی جائے۔ جس نے ایک معصوم کلی کو پھول بننے سے پہلے ہی مسل دیا۔ ایسے لوگ یقیناً انسانیت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہیں۔