شعر و ادبکالمز

بلتی زبان کی تاریخ اور تحفظ کے لئے جاری اقدامات

تحریر:  محمد قاسم نسیم

بلتی تبتی زبان کی مغربی شاخ ہے جو گلگت بلتستان کے علاوہ چین میں تبت، بھارت میں لداخ، بھوٹان، نیپال کے علاقہ شرپا اور سکم میں معمولی فرق کے ساتھ بولی جاتی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں بالخصوص کراچی، راولپنڈی اور لاہور میں بلتی بولنے والوں کی کثیر تعداد آباد ہے۔ بلتی زبان کا سلسلہ تبتّی زبان سے جا ملتا ہے۔ ماہرین کیمطابق اس زبان کا تعلق سائنو تبتین زبان کی تبتو برمن شاخ سے ہے۔ اس زبان کا مخصوص رسم الخط موجود ہے جو اگے سے موسوم ہے۔

ساتویں صدی میں تبت کے بادشاہ سترونگ ستان گمپو نے اپنے وزیر تھونمی سامبھوتہ کو ہندوستان بھیجا تاکہ وہ وہاں جاکر مختلف زبانوں کے طرز تحریر کا مطالعہ کرے اور تبتی زبان کے لئے اس کے صوتی تقاضوں کے مطابق رسم الخط تیار کر سکے۔ وزیر کو سرکاری خزانے سے اخراجات کے ساتھ روانہ کیا گیا تاکہ وہ عمیق مطالعہ کے بعد رسم الخط ایجا د کر کے لاسکے۔ اُس دور میں سنسکرت زبان کو ہندوستان میں بڑا عروج حاصل تھا۔انھوں نے سنسکرت سمیت مختلف زبانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد بلتی کے لئے ایک رسم الخط ایجاد کیا جو تیس حروف اور چاراعرابی علامات پر مشتمل تھا ۔باقاعدہ رسم الخط کی ایجاد کے بعد تبتی زبان نے بڑی ترقی کی۔اس زبان میں بڑا ادبی ورثہ تخلیق ہوا۔

بلتی زبان نے تبتِ خورد بلتستان میں بھی بڑی ترقی کی لیکن اشاعت اسلام کے بعد بلتستان میں بلتی زبان کے تبتی رسم الخط کو ترک کیا گیا۔ دوسری جانب بلتستان میں اسلام کے آنے کے بعد بلتستان کے لئے بھی تبت کی مرکزیت کی حیثیت ختم ہو گئی۔ ان عوامل نے خطے میں بلتی زبان کی جامعیت کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ آہستہ آہستہ بلتی زبان نے ایک بولی کی شکل اختیا ر کر لی۔ بلتستان میں بلتی زبان کے لئے اب فارسی اور عر بی رسم الخط کو اپنایا گیا ہے۔ کئی عشروں میں تخلیق پانے والا ادبی ورثہ بھی اسی رسم الخط میں موجود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلتی زبان اتنی کمزور ہوتی چلی گئی کہ اب اس کا مستقبل خطرے میں پڑنے لگا۔

بلتی زبان اُن زبانوں میں شامل ہوگئی ہے جو عنقریب ختم ہو نے جارہی ہیں۔ جس کو یہاں کے ادیبوں اور محققین نے شدّت سے محسوس کیا۔ بلتی زبان کے تحفظ کے لئے جو قدم سب سے پہلے اُٹھا یا گیا وہ بلتی کیلئے موجودہ رائج رسم الخط کو بلتی زبان کے تقاضوں کے مطابق ڈاھلنا تھا۔ کیونکہ فارسی رسم الخط بلتی زبان کے صوتی تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر تھا۔بلتی میں کئی آوازیں ایسی ہیں جن کے لئے فارسی رسم الخط میں حروف موجود نہیں تھے۔ اس مقصد کے لئے محقق و ماہر لسانیات محمد یوسف حسین آبادی کی تحریک پر ادبی تنظیم حلقہ علم و ادب کے پلیٹ فارم سے ادیبوں کے اجلاس میں سات اضافی حروف پر اتفاق کیا گیا جو کچھ حروف پرنقطوں اور علامات اضافے کئے گئے۔

1990ء میں ان نئے حروف کے ایجاد ہونے کے بعد بلتی زبان کے لئے فارسی رسم الخط کو اب مکمل تصّور کیا جانے لگااور بلتی ادب کے فروغ میں تیزی آئی۔ یوں تسلسل کے ساتھ بلتی شعری اور نثری ادب تخلیق ہونے لگا۔رسم الخط کے مکمل ہونے کے بعد جو اہم ادبی کام ہوئے اُن میں بلتی زبان میں قرانِ مجید کے ترجمے کی اشاعت اور بلتی اُردو لغت کی اشاعت خاص طور پر قابلِ ذکرہے۔ اشاعتی کام سامنے آتے ہی اس راہ میں حائل نئے مسائل نے سر اُٹھانا شروع کردیا۔ پہلے یہ مسئلہ شدت کے ساتھ سامنے آیا کہ یونی کوڈ سمیت اُردو ٹائپنگ کے کسی بھی پروگرام میں بلتی حروف تہجی میں شامل اضافی حروف موجود ہی نہیں تھے۔ یہ سارے پروگرام بلتی کے اِن اضافی حروف کو ٹائپ کرنے سے قاصر تھے۔ اس مقصد کے لئے بلتستان کے نامور محققین و مصنفین نے جد وجہد شروع کی۔

قلم کاروں کی درخواست پر گلگت بلتستان کے اُس وقت کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو حاجی فدا محمد ناشاد نے وسائل فراہم کئے جس کی بنیاد پر ایک سافٹ ویئر انجینیر کی خدمات حاصل کی گئیں۔ یہ سافٹ ویئر بلتی اور شینا دونوں زبانوں کے لئے مشترکہ بنائے جانے کا فیصلہ ہوا جس کے لئے بلتی اور شینا دونوں کے ماہرین نے متفقہ طور پر دستاویز پر دستخط کئے۔ان اضافی حروف کے لئے بڑی تک و دو کے بعد ایک سافٹ ویئر تیار کیا اور اُردو اِن پیج میں بلتی کے اضافی حروف شامل کئے گئے۔ لیکن یہ مسئلے کا حل ثابت نہیں ہوا کیونکہ اضافی حروف اس پروگرام میں جو شامل کئے گئے تھیوہ سائز میں اُردو کے دیگر حروفِ تہجی میں چھوٹے تھے۔ جس کے باعث جملوں کی خوبصورتی متاثر ہونے کے ساتھ بعض حروف اتنے چھوٹے تھے کہ دورانِ اشاعت وہ یا تو مدھم رہتے یا پھر غائب ہی ہوجاتے۔یوں یہ کامیاب نہیں ہو سکا اور اس ضمن میں کی گئی ساری محنت رائگان گئی اور نئے سرے سے سافٹ ویئر کی تیاری کے لئے مختلف اداروں اور ماہرین سے رابطے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اس مسئلے کو بنیاد بناتے ہوئے بلتی زبان و ادب کے فروغ کے کام کو روکا نہیں جاسکتا تھا۔

بلتی زبان کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے اس کو فوری طور پر سکولوں کی سلیبس میں شامل کرنے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس پر کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے بلتستان دائرہ مصنفین کے بانی اراکین محمد یوسف حسین آبادی، محمد حن حسرت اور راقم کے ساتھ بزرگ شاعر و ادیب اور بلتی لغت کے خالق راجہ محمد علی شاہ صبا اور حاجی فدا محمد ناشاد کی سرپرستی میں فارسی رسم الخط کے ساتھ بلتی قاعدہ کی تیاری پر کام شروع کردیا۔ خاصی محنت سے تیار کئے گئے اس قاعدے کو مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد نے شائع کیا۔ اس قاعدے کی اب تک دو ایڈیشیں شائع ہوچُکی ہیں اور مارکیٹ میں دستاب ہیں۔

بلتستان دائرہ مصنفین نے بلتی قاعدے کی کامیاب اشاعت کے بعد جماعت پنجم سے اُوپر کی کلاسوں کے لئے بھی بلتی زبان میں درسی کتابوں کی تیاری کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے اس پر کام کا آغاز کردیا۔ مالی وسائل نہ ہونے کے باوجود نصابی کُتب کے لئے مسودات کی تیاری اور اشاعت کے مُشکل کام کا آغاز کردیا۔

سال 2015 میں بلتی کی پہلی کتاب اور سال 2017 میں بلتی کی دوسری کتاب شائع ہو کر منظرعام پر آگئی۔ بلتستان دائرہ مصنفین اب بلتی کی تیسری کتاب کی تیاری کے ساتھ ساتھ کالج سطح کی کلاسوں کے لئے کُتب کی تیاری پر کام کررہا ہے۔ دوسری جانب بلتی ٹائپنگ کے مسئلے کے مستقل حل کے لئے بھی سرگرمی کے ساتھ کام جاری ہے۔ بلتستان دائرہ مصنفین کی کوششوں سے اب ایم ایس ورڈ ز کے اُردو فونٹ کو استعمال میں لاتے ہوئے بلتی کے لئے مکمل کی بورڈ (Key Board) کو ترتیب دیا گیا ہے جس میں بلتی زبان کے اضافی حروف کو بھی بڑی مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ایک طالب علم محمد اصغر کی یہ کاوش بہت ہی حوصلہ افزا ہے۔ اس میں یکساینت کے ساتھ تمام حروف ایک ساتھ اور ایک جیسے انداز میں لکھے جا سکتے ہیں۔ بلتی زبان کے لئے فارسی حروف تہجی میں جو سات حروف اضافی نقطوں کے ساتھ شامل کئے گئے۔

بلتستان دائرہ مصنفین کے تینوں بانی اراکین بلتی زبان و ادب کے فروغ کی جاری اپنی کوششوں کے تسلسل میں ایک طرف حکومتی سطح پر تو دوسری جانب پاکستان ریڈینگ پراجیکٹ کی وساطت سے بھی بلتی زبان کو تدریسی نصاب میں شامل کرنے اور بلتی میں سکولوں کے طلبا و طالبات کے لئے نصابی معاون کُتب کی تیاری میں بھی سرگرمِ عمل ہیں ۔اس ضمن میں بین الاقوامی اداروں سے کچی کلاس کے بچوں کے لئے کہانیاں لکھنے کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور کچی عمر کے بچوں میں کم عمری سے ہی مطالعے کا شوق پیدا کرنے کے لئے بلتی زبان میں کہانی کی کتابیں تیار کی ہیں جو کہ اب اشاعت کے مراحل میں ہیں۔

دوسری جانب 2016 کے وسط میں بلتستان کلچر فاونڈیشن کی ایک کانفرنس میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی موجودگی میں بلتستان دائرہ مصنفین کی جانب سے پیش کردہ مطالبہ اور بعد ازاں گلگت بلتستان اسمبلی میں سکردو سے خاتون رکن اسمبلی ریحانہ عبادی کی تحریک پر منظور شدہ قرارداد کی روشنی میں اب گلگت بلتستان کی زبانوں کی نصاب سازی کا عمل شروع ہوچُکا ہے۔ یوں گلگت بلتستان کی حکومت قاعدہ سے لیکر جماعت پنجم تک کے لئے مقامی زبانوں میں سلیبس کی کتابیں تیار کرنے کا کام متعلقہ مقامی زبانوں کے قلم کاروں اور ماہرین لسانیات پر مشتمل کمیٹیوں کے سپرد کر چُکی ہے۔

بلتی زبان میں سلیبس کی کتابوں کی تیاری کا کام ادیب و دانشور، بلتستان دائرہ مصنفین کے تینوں بانی اراکین انجام دے رہے ہیں۔ یوں اب بلتی زبان میں سرکاری سطح پر سلیبس کی کتابیں بھی اشاعت کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ان جاری اقدامات کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بلتی زبان کا مستقبل محفوظ ہونے کی اُمید کی جاسکتی ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button