شمس الرحمن تاجکؔ
معاشرہ 70 سال سے مسلسل تنزلی کا شکار نظر آ رہا ہے۔ بہتری کی گنجائش آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جارہی ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ہر فرد کی رائے اس کی اپنی نظر میں نعوذ بااللہ صحیفے کا درجہ رکھتی ہے۔ باقی لوگ جتنا اور جیسا بھی سچ بولیں وہ قابل قبول نہیں ہوتا۔ جب انحطاط کا یہ عالم ہو تو پھر معاشرے سے اور معاشرے میں موجود انسان نما افراد سے کسی خیر کی توقع رکھنا فضول ہی ہے۔ معاشرے کے اس انحطاط میں حالیہ کچھ سالوں سے ایک اور انتہائی غلط رسم کا اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری ملازمین جس کام کے لئے تنخواہ لیتے ہیں اس کی انجام دہی کے بعد پوری میڈیا ٹیم کے سامنے اپنی ذمہ داریوں کو ایسے پیش کررہے ہوتے ہیں جیسے انہوں نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہے۔
بازار میں ناقص اشیاء کی بھر مار سے ملک اور خصوصاً چترال کے لوگ شدید متاثر ہیں۔ جو سرکاری ملازمین ایسے اشیاء کی خریدو فروخت کو کنٹرول کرنے کے لئے تنخواہ لیتے ہیں وہ ان سب ناقص اشیاء کی موجودگی سے باخبر ہونے کے باوجود بازار سے ایسے اشیاء کو ختم کرنے کے بجائے الٹا ان کی دستیابی کو یقینی بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ کبھی کبھی صاحب لوگوں کو بازار گھومنے اور اپنی افسری دیکھانے کا دل چاہے تو بازار میں موجود چند دکانوں کا دورہ کرتے ہیں۔ میڈیا ٹیم ساتھ میں موجود ہوتی ہے۔ جو صاحب کے ہر اشارہ ابرو کی فلم بنا رہے ہوتے ہیں۔ چند دکان داروں کو موقع پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔ کچھ کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ ناقص اشیاء کی فروخت بند کریں۔ اگلے دن بلکہ اب تو آن لائن میڈیا کی وجہ سے اگلے گھنٹے صاحب کا دورہ بازار میڈیا کی زینت بن چکا ہوتا ہےاور لارڈ صاحب سینہ چوڑا کرکے دوستوں اور رشتہ داروں کو دکھا رہے ہوتے ہیں کہ دیکھو میں نے آج کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔
یہ دورہ چند گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے صاحب کے دورے کے بعد ناقص گوشت بیچنے والا وہی ناقص گوشت تین گنا زیادہ قیمت پر بیچ رہا ہوتا ہے اور ساتھ میں دھمکی بھی دے رہا ہوتا ہے عوام کو۔ کہ جو کرنا ہے کرلو۔ میرا اب پورے مہینے تک کوئی چالان نہیں ہوسکتا۔ چترال میں کوئی ایک دکان گوشت کی موجود نہیں جہاں حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر گوشت بیچا جارہا ہو۔ بلکہ قصاب لوگ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ گوشت کھلے عام روڈ پر ٹانک دیا جائے تاکہ سب کو نظر آئے۔ چاہے وہ مرغی کی ٹانگ ہو یا گائے بھینس کی ران۔ گائے بھینس سے یاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے باقاعدہ ایک ریسریچ رپورٹ آیا تھا کہ چترال میں جو بھینس ڈاؤں ڈسٹرکٹ سے لائے جاتے ہیں وہ اتنے لاغر، بیمار اور مضر صحت گوشت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگرکھالے تو مہینے کے اندر اندر ان کے معدے کا ستیاناس ہوجائے۔ یہ مضر صحت گوشت کے حامل جانور دہائیوں سے چترال میں کھلے عام ذبح کرکے عوام کو کھلائے جارہے ہیں مگر صاحب لوگوں کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا۔ شاید بھینس کے ساتھ تصویر کھینچوانا وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں اور جس چیز کے ساتھ تصویر نہ کھینچی جائے وہ ہمارے سرکاری ملازمین کے کسی کام کا نہیں ہوتا۔
اس میں سب سے زیادہ حیرت کی بات یہی ہے کہ ڈی سی اور ڈی پی او صاحبان کبھی اپنے ماتحت افسران سے نہیں پوچھتے کہ آپ ہر مہینے گوشت کی دکانوں پر جاکر چالان کاٹتے ہواتنے سالوں سے۔ کبھی ان دکانوں کی بہتری کے لئے کوئی لائحہ عمل کیوں طے نہیں کرتے کہ یہ لوگ عام عوام کی زندگی سے کھیلنا مکمل طور پر بند کریں۔ آپ ہر مہینے چند دکانوں اور چند افراد کا چالان کاٹ کر پیسے جمع کرتے ہو۔ اگر وہ مسلسل قانون کی خلاف ورزی کررہا ہے تو ایسی دکانوں کو مکمل طور پر بند کیوں نہیں کیا جاتا۔
کیا آپ کو خزانے سے ماہوار فوٹو سیشن کے لئے تنخواہ دی جاتی ہے یا عوام کی زندگی سے کھیلنے والے عناصر کی بیخ کنی کے لئے۔ صاحب! لوگ اب میچور ہوگئے ہیں اب اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کو بطور اشتہار آپ جب شائع کراتے ہیں تو چترال کے مہذب معاشرے میں موجود پڑھے لکھے لوگ خصوصاً نوجوان آپ کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں کہ اکیسویں صدی اور ملکی آئین کی ہر فرد کی جیپ میں موجودگی کے باوجود آپ کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ہر مہینے بازار کا دورہ کرنے کے بعد جب آپ کا فوٹو سیشن شائع ہوتا ہے تو یہ یقین مزید پختہ ہوتا ہے کہ آپ اس عہدے کے لئے موزون نہیں ہیں۔ ورنہ ہر مہینے آپ کے رٹ کو چیلنج کرنے والے دکانداروں کے دروازوں پر آپ فقیروں کی طرح کھڑے نظر نہیں آتے اور آپ کی فوٹو سیشن میں نظر آنے والے مسکراتے چہروں والے دکاندار آپ کی اصلیت پہچان چکے ہیں۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button