کمرے میں بخاری(انگیٹھی )جل رہی تھی ہرفرد ہاتھ میں چائے کی پیالی لیے گرم بخاری کے گرد بیٹھے آگ کی تپش سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ چائے کی چوسکی لے رہے تھے اتنے میں کمرے کا دوروازہ زور سے کھلا سب ہکا بکا ہوئے کوئی اُدھر سے اٹھ گئے تو کوئی اِدھر سے کھڑے ہوگئے سب کی نظریں یکدم دروازے کی طرف گیں اور دروازے پر عارف کو دیکھ کر سب ششدر رھ گئے اور دروازے سے نظرہں ہٹا کر حیرانگی کی عالم میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور خاموشی اختیار کی عارف کی چہرے پر بارہ بجنے کی انداز میں کمرے میں داخل ہوا اور بغیر علیک سلیک کے بخاری کے پاس بیٹھی ہوئی پیاری شائستہ کو گورتے ہوئے انہیں بخاری کےپاس سے ہٹنے کا اشارہ کیا ۔شائستہ چھوٹی ضرور تھی البتہ بہت ہی سمجدار اور تیز تھی وہ دوسروں کے تیور کو دیکھ کر ہی سمجھ سکتی تھی کہ موڈ کیا ہے شائستہ عارف کی تیور دیکھ کر خاموشی سے کمرے کے سائیڈ پر موجود صوفے پر جابیٹھی کمرے میں مکمل سنناٹا چھا گیا ہر کوئی ہاتھ ملتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے لیکن بات کرنے کی ہمت کسی میں پیدا نہیں ہورہی تھی ۔عارف کی خبر سن کر اسکی بیوئی ماجدہ کچن سے حسب سابق ٹیرے میں کوفی لئے دروازے پر کھڑی ہوئی کمرے میں سب سھمے سھمے دیکھ کر وہ بھی حیران سا ہوااور اپنی درمیانی بیٹی جنت کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگی چندا یہ لو اپنے پاپا جی کو کوفی دو جنت امی کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے کھڑی ہوگئی اور امی کے ہاتوں سے کوفی کی مک پکڑ کر عارف کی طرف بڑھنے لگی لیکن سب کی خاموشی اورعارف کا انداز دیکھ کر ماجدہ بھی پریشان ہوئی ماجدہ نے عارف سے کچھ کہنے کی بجائے اپنی ساس وماں کی طرف مخاطب ہوکر کہنےلگی ماں جی کیا وجہ ہے آپ سب پر سکوت طاری ہے۔ جیسے کوئی بہت بڑا مسئلہ ہوا ہو۔ماجدہ کی اس سوال نے امی کی چب کا روزہ توڑ دیا اور کہنےلگی ماجدہ کچھ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ہوا کیاہے ۔عارف جب سے ملازمت پر گیا ہے اس دن سے لیکر یاجب بھی کہیں ہو آتا ہے تو واپسی پر سب کو سلام کرتے ہوئے خیر خیریت دریافت کرتا تھا اور ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ گھر میں داخل ہوتے تھے لیکن آج اسکا رویہ سابقہ رویوں کے برعکس ہے نہ سلام نہ کلام نہ ہنسی اور نہ ہی ہشاش بشاش بس ایسے انداز میں انہوں نے آج دروزہ کھولا جیسے کوئی پولیس حوالدار کسی ملزم کو دھر لینے کیلے کمرےکا دروذہ کھولتا ہے۔ساس کی باتیں سنکر ماجدہ بھی حیران سا ہوگئی اورعارف کی طرف غور سے دیکھنے لگی عارف بخاری کے گرم آگ کی تپش کے ساتھ کوفی غٹاغٹ پی رہے تھے اور انکی۔باتیں اس کے پلے نہیں پڑ رہی تھیں عارف کا یہ حال دیکھ کر ماجدہ کمرے میں داخل ہوئی اور عارف کے قریب بیٹھ کر ان کےکاندوں پر اپنی ہاتھوں کو رکھ کر عارف سے مخاطب ہوتے ہوئے بولنے لگیی۔۔۔۔۔۔ میاں جی لگتا ہے آج کام کا بوجھ زیادہ تھا۔۔۔۔ تھکاوٹ سے موڈ خراب ہے ۔۔۔۔۔۔۔عارف خاموشی سے ماجدہ کی بات سنتا رہا اور ماجدہ چارجنگ والی ریڈیو کی طرح بولتی جارہی تھی۔۔۔۔ مگر عارف کی طرف سے کوئی رسپانس نہیں آرہا تھا۔۔۔۔عارف کی اس رویہ سے ایک طرف بچے اور عارف کی بہنیں پریشان تھیں تودوسری طرف عارف کی بیوی اور مان ایک دوسرے سے کھسر پھسرکر رہے تھے عارف کو اسی حالت میں رکھ کر ماجدہ اور عارف کی امی باہر نکل گئیں۔ اور کسی مولوی یا ڈاکٹر کو لانے پر مشورہ کرنے لگئیں۔ عارف کی امی مولوی کو بلانے کا کہ رہی تھی مگر ماجدہ ۔۔۔۔۔۔۔مولویوں اور عاملوں پر یقیں نہیں رکھتی تھی اسلیے وہ ڈاکٹرز لانے کا ضد کر رہی تھی لیکن امی ماجدہ کو بات سمجھانے میں لگی ہوئی تھی ۔۔بھو جی یہ ڈاکٹر کا کیس نہیں مجھے تو لگتا ہےکہ یہ جنات یا آسیب کا اثر ہے اس لیے کسی عامل یا مولوی کو ہی لانا پڑے گا۔۔۔ماجدہ اف امی اس دور میں میں بھی جنات اور آسیب کہاں یہ تو دقیانسی بات ہے ۔۔۔۔امی اور ماجدہ انہی باتوں میں لگے ہوئے تھے عارف والا کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔۔۔ ماجدہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو دوروازے پر جنت کھڑی تھی اور کہ رہی تھی کہ امی آپ کو پاپا بلا رہا ہے ماجدہ اور اس کی ساس دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوئیں تو عارف بخاری کے قریب سے ہٹ کر صوفے پر بیٹھی ہوئی نھنی کلی شائستہ سے باتیں کرنے میں مشغول تھے نھنی کلی طوطلے انداز میں کھ رہے تھے کہ پاپا آج آپکو کیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔آپ نے سبکو پریشان کرایا ننھی پری شائستہ کی اس بات میں بات ڈالتے ہوئے ماجدہ بھی کھنےلگی شائستہ کے پاپا یہ کیا طریقہ ہے آپکا۔۔۔۔۔۔ اسطرح تو زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا آپ نے ۔۔۔۔۔۔آج آ پ نے ہنستا بستا گھر کے تمام افراد کو پریشان کرادیئے گھر کےہر فرد ہر وقت آپ کے آفس سے آنےکا انتظار میں رہتے تھےاور آپکی آمد ہمارے لیے خوشی کے باعث بنتے تھے اور آپ کا لیٹ ہونے پر ہر کوئی فون ملاتے اور تاخیر کی وجہ دریافت کرتے۔۔۔اور وجہ معلوم ہونے پر سکوں سے آپ کا انتظار کرتے۔۔۔۔۔لیکن آج۔۔ کیوں کیا ایسا۔۔۔۔۔۔۔؟؟ ماجدہ کی نہ رکنے والے سوالوں نے عارف کو مزید پرشان کر دیا عارف کو اپنے کئے پر شرمندہ سا ہوگیا اور سر جھکا کر اپنے آپ سے مخاطب ہوئے کچھ دبے الفاظ میں اپنے آپ سے ہم کلام ہوئے اور ہاتھ سر پر رکھ کر سر گوشی کرنے لگے کچھ لمحے اسطرح کرنے کے بعد سر آسمان کی طرف اٹھایااور جھٹک سادیا ماجدہ بچے امی اور عارف کی بہنیں عارف کو غور سے دیکھ رہے تھے ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی۔شدید دھچکا لگا ہے۔۔۔۔۔۔۔جیسے کسی شخص کو بجلی کی بارہ ہزار وولٹ سے کرنٹ لگ گیا ہو۔۔۔۔۔اور اس دھچکا کی وجہ سے آج عارف اپنے تمام تر سابقہ افعال کو بھلا بیٹھے ہیں ۔عارف کی بیوی ماجدہ دوبارہ عارف کے قریب جاکر انہیں کہنے لگی ۔۔۔۔۔عارف صاف صاف بتادو کیا مسئلہ ہے۔۔۔۔۔۔؟ دفتری معاملات سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔۔۔۔ عارف کبھی مثبت انداز میں اور کبھی نفی میں سر ہلا کر ماجدہ کے سوال کا جواب دے رہا تھا اور ماجدہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اچانک عارف اور ماجدہ کی نظریں ایک ہوگیں تو عارف نے انہیں سر دبانےکا اشارہ کرتے ہوئے سر ماجدہ کے سامنے جھکادئیے ۔۔۔اور ماجدہ نے اپنی نازک ہاتھوں سے عارف کی سردباتے ہوئے آہستگی سے اپنے منہ کو عارف کے کانوں تک لے جاکر کہنے لگی عارف۔۔۔۔ آج تک آپ نے مجھ سے نہ کوئی بات چھپائی ہے اور نہ ہی راز میں رکھی ہے اور آج تک آپ کا رویہ بھی کبھی ایسا نہیں ہوا ہے بتائیں آج آپکو کیا ہوا ہے۔۔۔۔ماجدہ ماجرا سنے اور وجہ کی جانکاری لینے میں بے تاب تھی ہر طریقے سے عارف سے بات اگلوانے کا حربہ استعمال کر رہی تھی ۔۔۔۔کہ رہی تھی عارف آپ کی اس حرکت سے پوراجنت نما گھر کا ماحول جہنم میں چینج ہو گیا ہے اب تو کچھ رحم کریں ہم پر۔۔۔۔۔ ماجدہ کی ان ایموشنل باتوں سے عارف موم بن گیا عارف نے یک دم ماجدہ کے زانوں سے اپنے سر کو اٹھا تے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ بیگم جب سے ملازمت کی ہے اتنا پریشان اور ٹنششن نہیں ہوا تھا جتنا آج ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔اور یہ پریشانی صرف میرے لیے نہیں بلکہ میرے برابر کے دیگر آفیسران کو بھی ہوئے ہیں آج سب کا حال مجھ جیسا ہی ہے۔۔۔۔۔ماجدہ عارف کی بات سن کر پریشانی کی عالم میں استفسار کرنے لگی۔۔۔۔۔ کیوں خیریت تو ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ عارف ہاں ہاں بیگم سب خیریت ہے۔۔۔۔ اور نہیں بھی۔۔۔۔عارف کی بات نے ماجدہ کو مزید کشمکش میں مبتلا کر دیا ماجدہ کہنے لگی عارف ۔۔۔۔مسئلہ کیا ہے ۔۔۔کھل کر کیوں نہیں بتاتے۔۔۔۔۔کیوں پریشان کراتے ہو سبکو۔۔۔۔۔؟عارف اپنی جزبات پر قابو نہ پا سکی اور بے اختیار آنکھوں سے جاری ہونے والے آنسو پونجتے ہوئے آگ کی گولہ نما بخاری کی پر نظریں جمائے کہنے لگا۔۔۔۔ ماجدہ اس سال ہم بر باد ہوگئے مجھ سمیت میرے عہدے کے برابر تمام ملازمیں کے ہاتھ کٹ گئے اب اس سے آگے کہاں اسطرح کے گرم گرم بخاری نصیب ہوں گے۔۔۔۔ ۔ماجدہ حیرانگی کے عالم میں بات کھل کرکرنے پر زور دیتے کہا اصل معاملہ کیا ہے کیوں پردے میں رکھ کر بات کر رہے ہو کہیں ملازمت سے فارغ تو نہیں کیا ہے ناں ……….عارف بڑھ بڑھاتے ہوئے کہنے لگا نہیں نہیں۔۔۔ ایسی تو کوئی بات نہیں ہے البتہ اس سال کی سردیاں ہمارے لیے عزاب بن کر آگئیے ہر سال ہمیں ونٹر الاؤنس کی مد میں خطیر رقم ملتی تھی اب ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔ماجدہ اس میں اتنی پریشانی والی کیا بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ دفتر میں ہیٹنگ کا تو بندوبست ہوگا ناں۔۔۔۔؟ ہاں ہاں تمہیں تو دفتر کی فکر ہے۔۔۔۔ باڑ میں جاؤ دفتر۔۔۔۔عارف کا لہجہ ایک بار پھر سخت ساہو گیا ۔۔۔۔۔۔ماجدہ پھر اصل مسئلہ کیا ہے۔۔۔۔؟ ماجدہ کی تکرار پر عارف آخر کار بول ہی پڑا کہنے لگا ہر سال حکومت کی طرف سے تمام سرکاریمحکموں کو سردیوں می ہیٹنگ الاؤنس کی مد میں خطیر رقم ملتے تھے اور اس رقم سے ہیرا پھیری کر کے رقم بچا لیتے تھےاور وہ رقم ہم ایک دو آفیسراں تقسیم کرکے ہضم کرلیتے تھے اس کی خبر چھوٹے ملازمیں کے کانوں کان پتہ نہیں چلنے دیتے تھےلیکن اس سال حکومت نے ویدر پالیسی بنا کر وہ رقم ڈیپارٹمنٹ کو دینے کی بجائے تمام ملازمیں کوان کے سکیل کے مطابق ان کے تنخواہ کے ساتھ انکے اکاؤنٹ میں جمع کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔۔۔۔ اسطرح اس سال ہمیں بہت بڑا نقصان ہوا ہے لیکن ہم نے اس ویدر پالیسی کو نافذ نہ کرنے اور عمل در آمد نہ ہونے دینے کیلے سازشیں تو کیں تھیں مگر۔۔۔۔۔۔ بد نصیبی سے کامیابی نہیں ملی….. اب کیا ہوگا ہمارا نہیں معلوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمرے کے سائیڈ پر صوفے پر بیٹھی ہوئی نھنی پری شائستہ سب کی طرح عارف کی تمام باتوں کو غور سے سن رہی تھی اچانک گویا ہوئی پاپا یہ جو پیسے آپکے ڈیپارٹمنٹ کو ملتے تھے سردیوں میں ہیٹنگ الاؤنس کی مد میں وہ صرف آپ کیلے تھا یا اس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے تمام ملازمیں کیلے ۔۔۔۔۔؟ نھنی پری شائستہ کی بات سن کر سب افراد نے اپنے ہاتھوں کو یک دم اللهُ کر کے منہ پر رکھدیے اور چبکے سے عارف کی طرف دیکھنے لگے عارف نھنی پری کی سوال سن کر بولے بیٹے جب بڑے بات کر رہے ہیں تو بیج میں نہیں بولا کرتے ہیں ۔۔عارف کی بات سنکر نھنی پری بولی واہ۔۔۔۔ پاپا واہ ۔۔۔ جب بڑے غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح نہیں سمجھتے اور کہتےتو ایسے میں یہ سمجھنے والے چھوٹوں کو بھی بولنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔نھنی شائستہ کی اس ہمت وبہادری نے سب پر جمود طاری کردیئے کیونکہ آج تک چھوٹوں کی بات اپنی جگہ کسی بڑے فرد کو عارف کے سامنے بات کرنے کی ہمت وجرات نہیں ہوئی تھی آج نھنی شائستہ نے اپنی معصومیت کے بل بوتے حق اور سچ کا بول بالا کیا۔۔۔۔کہنے لگی ۔۔۔۔۔پاپا جی اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں یہ جو حکومت نے فیصلہ کیا ہے وہ بہتریں فیصلہ ہے آخران محکموں میں کام کرنے والے چھوٹے ملازمیں بھی تو انسان ہے نا ں۔۔۔۔انہیں بھی سردی لگتی ہے اور ان کے بھی بال بچے ہیں ۔۔۔۔ایسے میں محکموں کے سربراہان ہی ان کے حقوق غصب کرے اور انہیں انسان نہ سمجھے تو ان بیچاروں پر کیا گزرتے ہوں گے۔نھنی پری شائستہ اپنی باتوں کو بس کرنے کی بجائے بولتی جارہی تھی ۔۔۔کہرہی تھی پاپا جاں آج آپ جس انداز میں پریشانی کا سامنا کرہے ہیں اور ٹنشن میں ہے یہ اس سال حکومت کی پالیسی بنانےپر ہے اس پالیسی بننے سے قبل آپ اور آپ جیسے سینکڑوں آفیسران ان غریب چھوٹے ملازمیں کے حقوق کھا کر مسرت اور قلب کو سکوں محسوس کر رہے تھے مگر آپ لوگوں کو نہیں معلوم تھا کہ ان بیچارے ملازمیں کی سرد آہیں کسی نہ کسی دن رنگ لائیں گے اور انکی دعاؤں کی قبولیت کا بھی وقت آئیگا ۔۔۔۔آج آپ لوگوں کی پریشانی ان چھوٹے ملازمیں کی فریاد اور سرد آہوں کی وجہ سے ہے انکی باتیں اور ان کے مجھ جیسے نھنے مھنے بچوں کی فر یاد رب نے سن لی ہے اور آج انہیں اپنا حقوق ملے ہیں تو ایسے میں آپ لوگوں کی پریشانی کیا معنی رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔پا پا جی کاش آج یہ نوبت آنے سے قبل آپ اور آپ کے برابر دیگر محکموں کے سربراہان نے ان ملازمیں کی فکر کیئے ہوتے تو آج اسطرح نہ صرف آپ صاحبان کو زہنی ازیت پیش آتی بلکہ ہوتا کنبہ بھی خوشحال زندگی بسر کرتے ۔۔۔آج آپ لوگوں کی سابقہ بےمانی اور غلط طریقے سے مال ودولت جو عارضی ہے کمانے کی عادت سے نہ آپ لوگوں نے اپنی زات کو پریشانی میں دال دی بلکہ آب لوگوں سے جڑے تمام افراد کی زندگی اب تک اجیرن بنادی۔۔۔ پاپا آج جو بھی ہوا ہے اچھا ہوا ہے اور غریبوں کو اپنا حق ملا ہے اس میں آپ اور آپ کے برابر آفیسران کو تکلیف نہیں ہونے چاہیے اور حکومت کی اس اقدام کی قدر اور تعریف کرنے چاہیے جس کی وجہ سے آپ لوگ غلط کام اور حرام خوری سے بچ گئے اور ساتھ دیکھا جائے تو یہ آپ لوگوں کیلے سبق ہے کہ اپنی زندگی کی بقیہ حصہ غریبوں کی خدمت، چھوٹے ملازیں کو ان کے حقوق دینے اور معاشرے سے بے ایمانی، غربت، کرپشن اور اقرباء پروری کے خاتمے کیلے وقف کپیای