کالمز

ایم۔این۔اے صاحب، اب روشنی نہیں آپکا ایک احسان درکار ہے

محترم ایم این اے جناب افتخار الدین صاحب کا کہنا ہے کہ اگر سب ڈویژن مستوج کو گولنگول ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سے بجلی نہ دی گئی تو اسکا ذمہ دار پیڈو اور صوبائی حکومت ہو گی۔ مگر جناب عالی اگر یہ بات کنفرم ہی نہیں تھی کہ سب ڈویژن کو بجلی ملے گی یا نہیں ، تو آپ کن حقائق کو مدنظر رکھ کر ۱۰ نومبر کے دن یہ اعلان کروائے تھے کہ۲۵ دسمبر ۲۰۱۷ کو سب ڈویژن مستوج کو مذکورہ پروجیکٹ سےبجلی ملے گی۔ اگر یہ بات پکی نہیں تھی تو عوام کو خوامخواہ آسرے میں رکھناکیا آپ کو درست لگتا ہے۔ اسطرح کے بیانات سے قوم کو کتنا دکھ اور نقصان پہنچے گی کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے؟؟ ۔۔۔ مانا کہ اگر بجلی نہ ملی تو صوبائی حکومت ذمہ دار ہے !! تو آپ بھی اس جرم میں برابر کے حصہ دار بن جاتے ہیں کیونکہ اگر صوبائی حکومت اپرچترال کو بجلی دینے میں سنجیدہ نہیں تھی تو آپ کو پہلےبتانا چاہئے تھا تاکہ لوگ اس ناانصافی کے خلاف کوئی لائحہ عمل تیار کرتے اور صوبائی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ، آپ کی سربراہی میں پشاور میں دھرنا دیتے مگر آپ نے ہمیں آسرا دیکر ہمارے مجبوریوں کو اپنے لئے سیاسی وسیلہ بنائے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ آپ کی اس غیر سنجیدہ حرکت سے دو باتیں کنفرم ہوتی ہیں ، اوّل یہ کہ بطور نمائندہ آپ کے قول و فعل میں تضاد ہے جو قطعا غلط ہے اور افسوسناک ہے ، دوسرا یہ کہ اگر آپ چترالی قوم اور اپنے عہدے کے ساتھ سنجیدہ ہیں تو صوبائی حکومت کی بدنیتی سے ہمیں وقت سے پہلے اگاہ کرتے اور چترال کے صوبائی اسمبلی کے تینوں ممبران کو ساتھ لیکر اس ناانصافی کے خلاف صوبائی پارلیمنٹ میں احتجاج ریکارڈ کرواتے اور اگر کوئی ایم پی اے آپکا ساتھ نہ دیتا /دیتی تو انسے پوچھنے کی ذمہ داری عوام کی تھی، مگر آپ نے ہمارے سیلابزادہ زخموں پر سیاست کا بے ذائقہ نمک چڑھا کر ہمارے مشکلات کو مزید بڑھایا جو کہ قوم سے خیانت ہے۔

محترم ہم آپ سے پھر بھی شکوہ نہیں کررہے ہیں آپ کی طرف سے دئے گئے اس زخم کو ہم جھلیں گے یہ وقت ہمارے لئے مشکل صحیح مگر گزار دینگے۔ اسطرح کےزخم اور بھی لوگ دے چکے ہیں ہم سہتے آئے ہیں ۔ ایسے کئی مشکلات ہماری زندگی کا معمول ہیں ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہم سامنا کرنا جانتے ہیں مگر ہمارے لئے مشکل ترین آپکا وہ بیان ہے جو جھوٹ کے زمرے میں آتی ہے، غلط بیانی اور بداخلاقی کے زمرے میں آتی ہے اور یہ حقیقت روشن ہے کہ بااخلاق زندگی ہماری پہچان بن چکی ہے ہمارےدشمن داخلی اور خارجی ہماری اوپر جتنے بھی الزامات لگانا چاہیں لگا سکتے ہیں مگر مجال کہ کوئی ہمیں بد اخلاق کہے۔ لوگ ہمیں ہمارے گھر میں آکر ہماری سادگی کا طعنہ دے چکے ہیں، پسماندگی کا طعنہ دے چکے ہیں، گنتی میں ہماری کمزوری کا طعنہ دے چکے ہیں ، قومی زبان یعنی اردو سے ناواقفیت کا طعنہ دے چکے ہیں مگر ہمارےاچھے اخلاق اور سچائی کا وہ بھی اعتراف کر چکے ہیں۔ مگر آپ سے التجا ہے کہ آپ کی اس غلط بیانی جو کہ جھوٹ بلکہ سفید جھوٹ کے زمرے میں آتی ہے اور ہمارے کسی نمائندے کی وجہ سے ہم سے ہمارے جینے کی اصل وجہ اور پہچان چھین جائے تو شاید یہ سہنا ہمارے لئے ممکن نہ ہو۔ اس لئے آپ سے التجا کرتے ہیں کہ اندھیرے میں رہیں گے، مشکل میں جیئیں گے مگر سر اٹھا کر فخر سے۔ اپر چترال کو اگر بجلی نہ بھی ملے تو ہم لوئر چترال والے دستیاب روشنی ان کےساتھ بانٹ لیں گے بجلی نہ صحیح اپنے آباؤاجداد کی طرح لالٹین سے استفادہ کریں گے مگر بداخلاقی ، جھوٹ کا لیبلز کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ جناب عالی!! ہمیں اب روشنی نہیں آپ کاایک احسان درکار ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ آپ اپنے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کو مزید گھوما پھیرا کر واضاحت کرنے کے بجائے مستعفی ہوجائیں تاکہ قومی نمائندے کی اس بیان کو سبب بنا کر کوئی ہمارے کردار کشی کی جرات نہ کر سکے۔ کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ دنیا سبب و مسبب کے قانون کے تحت چل رہی ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button