تحریر:فیض اللہ فراقؔ
قوموں کی زندگی میں اداروں کا بڑا کردارہوتاہے ،اداروں کے قیام کی بڑھتی ہوئی شرح سے قوموں کی سوچ اور ویژن کاانداز ہ ہوتا ہے شعبہ تعلیم ہو یا صحت شعبہ سیاحت ہو یا توانائی اورشعبہ جدید سائنس ہو یا ادارہ جاتی اصلاحات،انتظامی بڑھوتری اور ریاستی ڈھانچے میں خصوصی توجہ کے طالب ہوتے ہیں ایک بہترین منتظم کی کوکھ سے دیرپااور مستقبل کے امکانات سے بھرپور ویژن وجود میں آتاہے اور یہی ویژن قومی زندگی کو آسان بناتا ہے جبکہ اسی ویژن کے تحت اداروں کا قیام عمل میں لایا جاتاہے یا نئے ادارے بنائے جاتے ہیں بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی غالب اکثریت کی بصیرت شخصیات کو توانا اورمضبوط کرنے میں خرچ ہوتی ہے یہاں اداروں کی بجائے افراد کو مضبوط کیا جاتا ہے اور یہ وہ پست ویژن ہے جس سے نئے اداروں کا قیام تو کجا جو ادارے موجود ہیں وہ بھی کھنڈرات کا منظرپیش کرتے ہیں یہاں اداروں سے مراد صرف انتظامی ڈھانچے پرمبنی ادارے نہیں ہیں بلکہ صحت و تعلیم و دیگر شعبہ جات بھی مراد ہیں جو ہمارے سماجی زندگی کا اساس اور ضرورت ہیں۔پورے ملک کی طرح گلگت بلتستان میں بھی ادارہ جاتی اصلاحات نہ ہونے کی برابر ہے ، خوش آئندبات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ادارہ جاتی سوچ کو پروان چڑھایا جارہاہے اورزمینی حقائق کے مطابق تعمیر وترقی اور پرامن زندگی کے سفر کا آغاز ہو چکا ہے صوبے میں ایسے ادارے بننے جارہے ہیں جو کل تک ہمارے خواب تھے۔میڈیکل کالج،دل کا شفاخانہ اور کینسر جیسی موذی مرض کا ہسپتال گلگت بلتستان کے باسیوں کا محض خواب تھا جو موجودہ حکومت کی کوششوں سے تعبیر میں بدلنے جارہا ہے اس لئے تو کہاگیا ہے انسان کو ہمیشہ خواب ضرور دیکھنا چاہیے یہ بات خطے کی15لاکھ عوام کیلئے کسی خوشخبری سے کم نہیں ہے کہ گلگت بلتستان سطح پر اولین کینسر ہسپتال کا باقاعدہ افتتاح ہونے جارہا ہے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی ماں کی یاد میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ذریعے ملک کے لاکھوں بے یارو مدد گار کینسر کے مریضوں کیلئے نہ صر ف مسیحا بن گئے ہیں بلکہ مذکورہ ادارہ ان کی پہچان بن گیا ہے اور آج درجنوں دانشور اس وجہ سے عمران خان کی سوچ کو ادارہ جاتی ویژن کہتے ہیں یقیناشوکت خانم ہسپتال کی خدمات لائق تحسین ہیں لیکن گلگت بلتستان میں کینسر ہسپتال کے باطن میں خطے کے صوبائی منتظم اور چیف ایگزیکٹو حافظ حفیظ الرحمن اور ان کی ٹیم کا دیرپا ویژن اورسوچ کی بھرپور حصہ داری ہے گلگت بلتستان میں 2016ء کے سروے کے مطابق صوبے میں تقریباً 1600کینسرکے مریض تھے جبکہ موجودہ دور میں ان مریضوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہو چکی ہے ان تمام مریضوں کے علاج کیلئے مقامی سطح پر کوئی ادارہ نہیں تھا۔گلگت بلتستان کے ہزاروں مریض لاکھوں کے اخراجات ادا کرکے ملک کے دیگر صوبوں میں چلے جاتے تھے اور یہ سفر یہاں کے مجبور مریضوں کے لئے کسی اذیت سے کم نہ تھا۔پاکستان آٹامک انرجی کے تعاون سے 2ارب 42کروڑ کی لاگت سے تعمیرہونیوالے کینسر ہسپتال کا افتتاح 12جنوری کو وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خود کریں گے جبکہ 18مہینوں کی قلیل مدت میں اس ہسپتال کی تعمیر مکمل ہوگی جس کے بعد باقاعدہ علاج کو مقامی سطح پر یقینی بنایا جائے گا۔یہ منصوبہ 10سال پہلے فیڈرل پی ایس ڈی پی میں شامل تھا لیکن ہر دور کی حکومتوں نے اس اہم نوعیت کے منصوبے کو فعال کر کے انسانی زندگی کیلئے ثمر آور بنانے کی بجائے سرد خانے میں ڈالا جو کہ افسوس ناک پہلو ہے ۔جب 2015ء میں صوبے میں مسلم لیگ(ن)کی حکومت قائم ہوئی تووزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے شعبہ صحت اورتعلیم کے علاوہ ادارہ جاتی اصلاحات کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنایا جس کی وجہ سے نہ صرف موجودہ اداروں کی نشونما ہوئی بلکہ انتظامی ڈھانچے میں قانون سازی سمیت اصلاحات سازی بھی ہوئی بہتر قوموں کی پہچان ہے کہ وہ اچھے برے میں تمیز کرتے وقت عینکیں نہیں لگاتی بلکہ میرٹ اور انصاف پر چیزوں کو پرکھتی اور دیکھتی ہیں۔بطور قوم جدید تقاضوں اور بدلتی ہوئی سائینسی دنیا کے سامنے ہمیں بھی حکومت ،قیادت ،سیاست اور عہدوں کو صرف میرٹ ،کردار اور کام پر تولنا چاہیے تاکہ منزلوں کا تعین درست سمتوں پرممکن ہوسکے کینسر جیسے ہسپتا ل کا قیام خطے کی عوام کا ایک خواب تھا جس کی تعبیر ہونے جارہی ہے جس پر قومی سطح پر شکریہ ادا کرتے ہوئے امیدوں کے ساتھ مزید آگے بڑھنا چاہیے کینسر کے مریضوں کا اب گلگت میں علاج ہوگااورلوگوں کیلئے یہ سہولت گھر یک دہلیز پر ملے گی صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مذکورہ منصوبے کے افتتاح کے بعد کام کے معیار اور رفتار کو بھر پورمانیٹر کریں جائے تاکہ طے شدہ وقت میں منصوبہ تکمیل کو پہنچ سکے ۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button